آج محاذ آرائی نہیں..یکجہتی چاہیے

کوروناوائرس سے پیدا شدہ حالات نے پاکستان کو غیر یقینی صورت حال سے دوچار کر دیا ہے۔جہاں ملک پہلے ہی معاشی بد حالی کا شکار تھا،وہاں لاک ڈاؤن نے قومی معیشت گہری کھائی میں گرا دی ہے۔ عالمی سطح پر موجو د یہ اندیشہ کہ کورونا کا قہر یوں ہی جاری رہے گا،عوام کو تشویش میں مبتلا کر چکا ہے۔حکومت کی کارکردگی اور معاشی محاذ پر ٹھوس اقدامات کے فقدان نے پہلے ہی کئی مسائل سے ملکی معیشت کو مسائل سے دوچار کر رکھا تھا،کورونا معاملے میں حکومتی حکمت عملی نے بری طرح متاثر کیا ہے۔

عوام بھی اس سنگین مسئلہ پر سنجیدہ نظر نہیں آتے۔اس کی جھلک ہمیں ملک میں لاک ڈائون کے باوجود سڑکوں پرروز نظر آتی ہے،جہاں لوگ اپنی زندگیوں میں یوں مصروف دکھائی دیے،جیسے کورونا وائرس ایسی بیماری ہو جو ان کے علاوہ صرف دوسروں کو ہی لگ سکتی ہے۔گو اتنظامیہ کی کوششوں نے حتی الامکان لوک ڈائون کی افادیت حاصل کرنے کے لئے کام کیا ہے،لیکن عوام کو ابھی بھی بہت کچھ سمجھنے کی ضرورت ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے لاک ڈائون میں کمی کا اعلان کیا ہے۔جو صورت حال کے مطابق درست فیصلہ ہو سکتا ہے،بشرطِ عوام کا بھر پور ساتھ ہو۔کیوں کہ پاکستان ایک غریب ملک ہے، جہاں نصف فیصد سے زیادہ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں،وہ ایک دن بھی لاک ڈائون برداشت نہیں کر سکتے ،مگر ان کی ہمت کو داد دینا چاہیے کہ انہوں نے حکومت کا ساتھ دیتے ہوئے تمام تر مشکلات کا مقابلہ کیا ہے۔حالاں کہ امریکا جیسے ملک میں لوگوں نے سٹورز لوٹنا شروع کر دیے ،مگر ہمارے ہاں بھوک کے باوجود ایسا کسی نے نہیں کیا۔یہ حب الوطن اور انسانیت سے بھر پور قوم کی دلیل ہے۔

انہیں مسائل کو دیکھتے ہوئے حکومت نے روزمرہ زندگی کے معاملات کو چلانے کے لئے ملک بھر میں محدود پیمانے پر رونگیں بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے،چناں چہ عوام کو حکومت کے لئے نہیں بلکہ اپنے لئے احتیاط کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے ،کیوں کہ کورونا وائرس عالمی وبا ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔یہ اب دنیا کے زیادہ تر ممالک میں بری طرح پھیل چکی ہے۔اس وائرس سے مرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ انیس ہزار تین سو دس ہو چکی ہے جب کہ انیس لاکھ بارہ ہزار لوگ اس سے متاثر ہو چکے ہیں۔ویسے 45ہزار افراد اس وائرس سے ٹھیک بھی ہوئے ہیں ۔

کوروناوائرس سے دنیا میں سب سے زیادہ اموات امریکا میں ہوئی ہیں۔ سپر پاور کہلوانے والی طاقت کوروناوائرس کے سامنے بے بس ہو کر رہ گئی ہے،یہاں 58ہزار سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے ہیں جب کہ 23ہزار افراد کی موت ہو چکی ہے۔اس کے بعد اٹلی ایسا ملک ہے جہاں کورونا کی تباہی عروج پر ہے ۔اب تک 20ہزار سے زیادہ لوگ اس وبا سے موت کے منہ میں جا چکے ہیں ۔اس وائرس سے متاثرین میں یوروپی ممالک فرانس اور جرمنی میں بھی حالات خراب ہو چکے ہیں،اس کے علاوہ برطانیہ میں حالت مسلسل خراب ہوتی جا رہی ہے ۔غرض یہ سلسلہ کہیں تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔

کورونا نے چین سے امریکا تک تباہی مچا رکھی ہے ،پاکستان اس سے کیسے بچ سکتا ہے۔اس لئے موجودہ حالت پر قابو پانے کے لئے اپنے آپ کو قابو میں رکھنا بہت ضروری ہے۔اللہ تعالیٰ اپنا رحم اور فضل کرے ،اگر ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے آزمائشوں اور ذمہ داریوں کا کوئی سلسلہ طول کھینچتا ہےتو بتایئے اس وقت ہم کیا کریں گے۔ ہمارے وزیراعظم نے صاف بتا دیا ہے کہ ہمارے پاس صحت کے حوالے سے کچھ بھی سہولیات موجود نہیں ہیں ۔مزید پریشانیوں اور مشکلات سے بچنے کے لئے اپنی پوری طاقت حالات سے مقابلے میں جھونک دیں ۔یہ وقت اس بات کو سمجھنے کا ہے کہ ہمیں یک جہتی کا ثبوت دینا ہو گا۔

پاکستان کی حکومت کے لئے کثیر جہتی چیلنجز ہیں ۔وبا کے پھیلائو کا رکنا ایک چیلنج ہے اور اس کا کوئی حل بھی موجود نہیں ہے، سوائے صنعتی اور کاروباری سرگرمیاں معطل کی جائیں ،جس کا نتیجہ بے روزگاری اور غربت میں اضافے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔دوسرا چیلنج یہ ہے کہ منفی معاشی اثرات کو کم سے کم کیا جائے اور غریب طبقے کے لئے آسانیاں پیدا کی جائیں ۔اس دوران جب معیشت کے تمام قابل ذکر شعبے جمود کا شکار ہیں ،حکومتی محصولات میں بھی بڑی حد تک کمی واقع ہو گئی ہے۔

پاکستان میں صرف اپریل تا جون کی سہ ماہی میں ٹیکس ریونیو میں 600ارب روپے کی کمی کا اندازہ لگایا جا رہا ہے۔اس صورت حل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے وزیر اعظم نے عالمی مالیاتی اداروں ،عالمی رہنمائوں اور اقوام متحدہ سے وسائل کی کمی کے شکار مقروض اور ترقی پذیر ممالک کو کورونا وائرس کی عالمگیر وبا کے نتیجے میں پیدا شدہ چیلنجز سے نمٹنے میں مدد دینے کے لئے لائحہ عمل ترتیب دینے کی اپیل برمحل اور مبنی بر حقیقت ہے ۔بڑی آبادی اور کم وسائلِ آمدن والے ممالک کے عوام اس بحرانی صورت حال میں فوری امداد غربت سے بچائو اور کورونا وائرس کے پھیلائو کی روک تھام میں براہ راست مددگار ثابت ہو گی ۔

وزیر اعظم کا یہ نقطہ حقیقت پر مبنی ہے کہ یہ چیلنجز سے بھر پور صورت حال ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں کے لئے کسی طرح یکساں اثرات کی حامل نہیں ۔ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے وسائل میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔امریکہ نے کورونا سے نمٹنے کے لئے 2200ارب ڈالر کا پیکیج دیا ،جرمنی نے ایک ہزار یورو کا اور جا پان نے ایک ہزار ارب ڈالر کا پیکیج دیا ہے،جب کہ پاکستان میں کی 22کروڑ عوام کے لئے 8ارب ڈالر کا پروگرام دیا گیا۔ترقی پذیر دنیا کی مالی مشکلات اس وبا کے خطرات اور اثرات سے نمٹنے میں رکاوٹ پیدا کرتی ہیں ،کیوں کہ طبی ضروریات پر اگر بھر پور سرمایہ کاری نہ ہو سکی اور لوگوں کو سماجی فاصلے برقرار رکھنے کے لے آمادہ نہ کیا جا سکا تو اس وبا کے بڑھنے کے پورے خدشات موجود ہیں۔

آج وقت ایک دوسرے کے ساتھ بد گمان ہونے کا نہیں بلکہ وسیع تر قومی مفاد کے لئے ذاتی مفادات کو پسِ پشت لگانے کا ہے،قربانی دینے اور اتحادو یکجہتی کا مظاہرہ کرنے کا ہے۔اگر تمام قومی و ریاستی ادارے ایک پیج پر ہو کر تمام خامیوں کو باہمی مشورے سے ختم کر نے کا عزم کر لیں ۔ہر کوئی اپنی اَنا ،برتری ،ذاتی و سیاسی اختلافات بھول کر قومی یکجہتی کی مثال بن جائیں،تو کورونا وائرس کی وبا کی آزمائش اور معاشی استحکام کی جانب نکل سکتے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں