کہیں دیر نہ ہو جائے

اری او نصیبن! جلدی ہاتھ چلا لے مرزا صاحب کے آنے کا وقت ہو رہا ہے اور گھر ابھی تک پھیلا پڑا ہے۔صدیقہ بیگم نے پردے ریلنگ پہ ٹانگتے ہوئے کام والی کو آواز لگائی ابھی کل ہی تو گھر بھر کے پردے دھلے تھے ۔

یہ مرزا صاحب کے گھرانے کی بات ہو رہی ہے ۔گھر کے تمام افراد صفائی ستھرائی میں مصروف ہیں ۔بچیوں کے زمے کچن اور کمروں کی الماریوں کی صفائی تھی۔مرد حضرات سودا سلف کی خریداری میں مصروف تھے غرضیکہ گھر کا ہر فرد کسی نہ کسی کام میں مصروف دکھائی دے رہا تھا اور سب بہت پر جوش تھے کیونکہ وہ مہمان آنے والا تھا جو گھر بھر کا لاڈلا اور پیارا تھا اور سال بعد ہی آتا تھا سو سب اس کا والہانہ استقبال کرتے تھے۔

ارے بھئی صدیقہ بیگم لو سنبھالو یہ سودا اور اگر کچھ رہ گیا ہو تو بتا دینا کسی چیز کی کمی نہیں ہونی چاہیئے۔مرزا صاحب نے بڑے بڑے شاپرز صدیقہ بیگم کو پکڑائے وہ بہت تھکے تھکے اور افسردہ دکھائی دے رہے تھے ۔ کیا بات ہے آپ کچھ پریشان لگ رہے ہیں؟صدیقہ بیگم نے پوچھا..،ہاں ملک کے حالات کچھ ٹھیک نہیں لگ رہے اس وبا نے غریب کی زندگی مزید مشکل بنا دی ہے بہت سے لوگ سودا سلف خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے اور سب کاروبار زندگی بند ہونے کی وجہ سے مزدور طبقہ دو وقت کی روٹی کو بھی ترس رہا ہے ۔مرزا صاحب تفکر سے بولےاللہ بہتر کرے گا وہ سب کا کفیل ہے۔صدیقہ بیگم نے تسلی دی ۔

خدا خدا کر کے مہمان کی آمد ہوئی سب لوگوں نے پرجوش خیر مقدم کیا مگر یہ کیا؟ مہمان تو بہت چپ چپ اور اداس تھا اس کی طرف سے کوئی رسپانس ہی نہ تھا وہ بس لیا دیا سا تھا سب حیران بھی ہوئے اور پریشان بھی کہ آخر کیا ماجرا ہے ؟کیا کمی رہ گئی یا کیا قصور ہو گیا کہ اتنا پیارا مہمان ہمارے ساتھہ ہونے کے باوجود ہمارے ساتھ نہیں اکھڑا اکھڑا سا ہے۔۔۔۔نہ جانے کیوں؟؟

سب حیران تھے مگر مرزا صاحب کسی گہری سوچ میں گم تھے۔۔۔ابا جان آپ کس سوچ میں گم ہیں ؟منجھلی نے پوچھا جس پریشانی میں تم سب مبتلا ہو میں اس کا ا صل سبب جانتا ہوں میرے بچو!کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ ہم سے کیوں خفا ہے؟سب ایک ساتھ بول اٹھے ہاں میں جانتا ہوں وہ تو پچھلے سال بھی بہت بوجھل دل لیے یہاں سے گیا تھا اس بار بھی وہ اگر آیا ہے تو کچھ آس لے کر کہ شاید اب سب بدل گیا ہو..لیکن ابا جان اسے ہم سے شکایت کیا ہے ہم تو اپنے طور پر پوری کوشش کرتے ہیں کہ وہ ہم سے خوش خوش جائے؟

نہیں بیٹا ہم اس کے لیے اپنے گھر صاف کر لیتے ہیں مگر اپنے دلوں کا کینہ نہیں دھوتے۔۔اپنے اعمال نہیں سدھارتے۔۔اپنے دسترخوان انواع واقسام کے کھانوں سے بھر لیتے ہیں مگر غریبوں کو اس میں حصہ دار نہیں بناتے۔۔اس سے امید رکھتے ہیں کہ وہ ہم سے راضی ہو مگر وہ کیسے راضی ہو جب وہ ہر طرف عریانی وفحاشی کے مناظر دیکھے۔۔۔ جب اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزی دیکھے۔۔۔مرزا صاحب کی آواز بھرا گئی۔سب نے شرمندگی سے سر جھکا لیے۔۔۔یہ واقعی شرمندگی کا ہی مقام ہے۔۔۔آیئے اس با رعہد کریں کہ اس پیارے مہمان رمضان المبارک کو یوں ناراض نہ جانے دیں گے۔۔۔دلوں کے میل صاف کر دیں گے۔۔اپنے اعمال کو اپنے خالق کی مرضی کے مطابق ڈھال لیں گے کہ کہیں دیر نہ ہو جائےاور وہ ہمیں خالی دامن چھوڑ جائے۔

جواب چھوڑ دیں