کچھ خیال کیجیے

دنیا اپنی رونق عروج اور مستی میں مگن چل رہی تھی کہ اچانک ایک جان لیوا بےجان وائرس جاندار انسان کے جسم میں داخل ہوتے ہوئے پوری دنیا کا سفر طے کرگیا اور انسانوں کی بستی میں خوف کا راج بٹھا گیا پوری دنیا کی طرح پاکستان بھی معاشی بدحالی کے ایک خوفناک دور میں داخل ہونے والا ہے معاشی طور پر شاید مکمل ریکوری میں کئی سال لگ جائیں۔یہ وائرس ایک ہوا کے جھونکے کی طرح انسانی جسم میں داخل ہوا اور کچھ ہی دن میں نگل گیا لاشوں کے انبار ایسے لگادیے کہ مردوں کو دفنانے کی جگہ نہیں دن رات اموات کی گنتی جاری ہے کووڈ 19 کا ابھی کوئی علاج دریافت نہیں ہوا معاشی مسائل سے نپٹنا کورونا کے بعد کی دنیا کا سب سے بڑا چیلنج ہوگا ۔

عالمی معیشت کو 5 ہزار ارب ڈالر کے نقصان کا خدشہ ہے لاکھوں افراد پہلے ہی بیروزگاری کے سبب ان حالات کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے اس وبا کے منفی معاشی اثرات کے نتیجے میں پاکستان کو شدید کساد بازاری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے پاکستان کے بارے میں بھی ورلڈ بینک نے خبردار کیا ہے کہ ریسیشن (معاشی گراوٹ) آنے کا خدشہ بڑھتا جا رہا ہے، جو اگر آیا تو مزید بیروزگاری اور معاشی بدحالی کو جنم دے گا اور ماہِ مبارک رمضان کی آمد میں بھی حالات یہی رہے تو روز کے کمانے والوں کے لیے گزارا کرنا بہت مشکل ہوجائے گا اس کے لیے حکومت کو مزید فنڈز عوام کو دینا ہونگے حکومت کے ساتھ صاحبِ حیثیت حضرات کو بھی آگے بڑھ کر ملک کے غریب اور دیہاڑی دار طبقے تک رسائی حاصل کر کے انکی مدد کرنا ہوگی تاکہ خوراک کی فوری تقسیم ممکن ہو سکے ورنہ لوگ بھوک سے مرنے لگینگے امیر ممالک تو بھاری رقوم خرچ کرکے کورونا کا مقابلہ کر رہے ہیں مگر ترقی پذیر ممالک میں لاک ڈاؤن ا ور معاشی سرگرمیوں پر بندش کی وجہ سے عوام کو بھوک کا سامنا ہے۔

دوسری جانب اس برے وقت میں انسانوں کو بچانے کی تدابیر دینے کے بجائے سیاستدان اس وقت بھی تنقید کے تیر چلاتے نظر آرہےہیں پاکستان میں سیاستدانوں کے مختلف بیانات کوروناوائرس کے لیے ناکافی انتظامات کے الزامات لگارہی ہے سندھ میں پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے پہل کرتے ہوئے لاک ڈائون کا اعلان کردیا اور آہستہ آہستہ پورا ملک لاک ڈاون کردیا گیا لیکن کورونا سے نمٹنے کے لیے کیے جانے والے ناکافی انتظامات کے چلتے سندھ اور وفاق کی حکومتوں کے درمیان لفظی جنگ شروع ہو گئی۔بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ ‎وفاقی حکومت کورونا وائرس کیخلاف سست روی سےفیصلےکررہی ہے جبکہ وفاقی حکومت لاک ڈاؤن کے لیے بھی ٹھوس فیصلہ کرنے میں ناکام نظرآتی ہے دوسری طرف وفاق سندھ حکومت کی کارکردگی سے مایوس ہے۔

پاکستان کو اپنا رویہ بدلنے کی ضرورت ہے اور ’حقیقت پسندی سے سوچنے کی ضرورت ہے اس وائرس کی وجہ سے بڑھتے ہوئے کیس کو دیکھتے ہوئے حکومت کو بہت تیزی سے فیصلے کرنے ہونگے کیونکہ وائرس کی روک تھام کے ساتھ لوگوں کو کھانے کا سامان فراہم کرنا بھی حکومت کی زمہ داری ہے اس وائرس کے چلتے بڑے فیصلے بڑے فیصلے مہینوں میں نہیں دنوں میں ہورہے ہیں پوری دنیا مشغول ہے کہ کونسا عمل کونسی دوا اور کونسی ویکسین ایسی ہے جس کے نتائج مبارک ہوجائے اور اموات کا یہ سلسلہ رک جائے وقت ہر فیصلہ جلدی میں کرنے پر مجبور کر رہا ہے عام حالات میں ایک حکومت اکاون فیصد عوام کی حمایت سے سرکار چلا سکتی ہیں لیکن اس طرح کے غیر معمولی حالات میں حقیقتاً عوام کا مفاد کا خیال رکھنا ہوگا حکومت کی ضرورت ہوتی ہے۔

اس وقت دنیا کی حالت بہت بری ہے جو شہر کبھی سوتا نہیں نیو یارک ہی دیکھ لیں وہاں کے قبرستانوں میں جگہ کم پڑنے پر کئی کئی لاشوں کو ایک ہی قبر میں دفنایا جا رہا ہے، میتوں کےلئے کولڈ اسٹوروں میں جگہ ختم ہو گئی ہے ملک میں کورونا وائرس تیزی سے بڑھا تو ہمارا موجود نظام صحت مقابلہ نہیں کرسکے گا اس کیے زرا سوچیے وائرس کے عوض جس طرح لاپرواہی برتی جارہی ہے اگر ہمارے ملک کا حال امریکہ جیسا ہوگیا تو تباہی ہر دہانے سے ڈنکے بجائےگی اور پھر لاچاری اور دعا کے سوا کوئی راستہ نہیں بچے گا خدارا خیال کیجیے۔

جواب چھوڑ دیں