کورونا اور ہماری عوام

کل سوشل میڈیا پر اک ویڈیو وائرل ہوئی اور میری نظر بھی پڑگئ، ویڈیو کراچی کے ہی کسی علاقے کی تھی۔ ویڈیو میں اک مولوی صاحب جو بظاہر کافی جذباتی نظر آرہے تھے،ایک شخص کو اذان دینے کا اشارہ کیا اور بیچ روڈ پراذان دلوائی اور آنے جانے والے لوگوں کو، اپنی طرف متوجہ کر رہے تھے۔ اب تشویشناک صورتحال یہ تھی کہ کورونا وائرس کی خطرے کو سمجھنے کے بجائے لوگوں کا مجمع لگایا جا رہا تھا جو کہ کوروناوائرس کے پھیلاؤ کا ایک ذریعہ بھی ہے اور بن بھی سکتا تھا۔

یہ صرف کوئ اک واقعہ نہیں ہے ایسے کی واقعات اور لوگ سوشل میڈیا پر سامنےآئے جو کہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے بجائے لوگوں کو اشتعال دلا رہے تھے کہ حکومت کے اقدامات کے خلاف کھڑے ہوجائیں۔ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے بجائے یہ کہتے سنائی دیے کہ اللّٰہ پر یقین رکھو ہمیں کچھ نہیں ہوگا۔ بالکل بجا فرمایا کہ اللّٰہ پر ہی یقین ہونا چاہیئے، مگر کیا ہم اپنی طرف سے کوشش کر رہے ہیں؟ اللّٰہ بھی اس قوم کی مدد اس وقت تک نہیں کرتا جب تک وہ قوم خود کوشش نہ کرے۔

یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم اپنے جانور کو کھلا چھوڑ دیں اور اللّٰہ سے دعا اور امید لگا لیں کہ وہ اسکی حفاظت کرےگا، ہاں اگر جانور کو رسی سے باندھا جائے، اور پھر دعا کی جائے تو اللّٰہ بھی مدد کرتا ہے۔انسان کی فطرت ہے کہ اسے اپنے ہر اقدام پر،یا فیصلہ پر حد سے زیادہ اعتماد ہوتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ میں جو کر رہا ہوں بلکل سہی ہے اور دوسروں کو جو دلیل سے اپنا نقظہ نظر پیش کرنے پر یا مطالبہ کرنے پر حقارتکی نگاہ سے دیکھتے ہیں، وہصرف اپنی سمنتا ہے اور دوسروں کو بھی اپنی بات ماننے کا پابند ہونے پر زور دیتا ہے۔۔

انسانی تاریخ گواہ ہے جب جب انا پرستی پر انسان آیا ہے نقصان اسکا مقدر بنا ہے۔ کیونکہ ہم بھوک جاتے ہیں کہ جب ہمیں، اس دنیا کو بنانے والا خالق نہ چاہے تو کچھ بھی نہیں ہو سکتا خواہ وہ دین سے متعلق ہی کیو نہ ہو۔ آج بھی اگر اللّٰہ کا گھر، کعبہ شریف، قبلہ اول میں نماز پر پابندی ہے تو اللّٰہ کے حکم سے ہے اور وہ اپنے بندوں سے ناراضگی کا اظہار کررہا ہے کہ ابھی بھی وقت ہے سدھر جاؤ۔ اس وائرس سے بچاؤاس طرح کیا جاسکتا ہے کہ ہم گھر میں رہ کر سماج سے کٹ کر اس وائرس کا خاتمہ کرسکتے ہیں مگر انسان اپنی انا میں کسی بھی جانی نقصان کو نہیں دیکھتا۔

اگر آج اک وباء کی بنا پر باجماعت نماز نہ پڑھنے اور گھروں میں نمازوں کی ادائیگی جیسے مشکل فیصلے کیے گئے ہیں تو عوام اور سماج کی بھلائی کے لیے ہی کیے گئے ہیں۔ ان ہدایات اور احکامات پر عمل درآمد کے بجائے لوگالٹا مساجد میں موجود ہوتے ہیں۔ ہم میں سے کوئ بھی اس بات کا حامی نہیں ہے کہ نماز گھروں میں پڑھیں جائے اور جمعہ کے می نماز پر پابندی لگائ جائے مگر وقت کی ضرورت ہے اور ایسے مشکل فیصلے ہی آگے چل کر مثبت ثابت ہوتے ییں۔ مگر ان احتیاطی تدابیر کو اختیار کرنے کے بجائے دشمن سمجھا جا رہا ہےاور آج نفرت پھیلائی جا رہی ہے۔

سختی سے منع کیا جاتا ہے کہ باہر نہ جائیں، ہاتھ نہ ملائیں، لوگوں سے نہ ملیں، نماز کبمخھ دن گھروں میں پڑھیں مگر پھر انسان تو پھر انسان ہے ٹھوکر کھا کر ہی سمجھتا ہے مگر اک بات بتانا ضروری ہے کہ اس بار اگر ٹھوک کھائ تو منہ کے بل تو گریں گے ہی مگر بہتنقصان اٹھانا پڑے گا۔ تو بہتر ہے کہ ٹھوکر کھانے سے پہلے احتیاطی تدابیر اختیار کرلی جائیں۔اسلام میں انا کو اک بری چیز تصور کیا گیا ہے اور انسان کے لیے نقصان کا باعث سمجھا جاتا ہے۔

صحیح بخاری کی حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ شام کی طرف سفر کر رہے تھے کہ ایک مقام پر آپ کو اطلاع ملی کہ شام میں طاعون کی وبا پھیل چکی ہے ۔تو اس وقت قافلے میں حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ بھی شامل تھے آپ نے عرض کی یا امیرالمومنین میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا “کہ جب تم کسی علاقہ کے متعلق سنو کے وقت وہاں وباءپھیل چکی ہے تو اس علاقہ کی طرف مت جاؤ اور اگر تم اس علاقہ میں ہوں جہاں وباء پھیلی ہوئی ہے تو وہاں سے اپنی جان بچانے کے لئے مت بھاگو”۔

صرف یہ ہی نہیں بلکہ یہ بھی پڑھیےایک اور صحیح بخاری کی حدیث مبارکہ ہے کہ کوڑہ سے متاثرہ شخص سے اس طرح بھاگو کہ جس طرح تم شیر سے بھاگتے ہو۔ اس صحیح بخاری کی۔م حدیث بھی یہی بتاتی ہے کہ احتیاط لازم ہے وباء سے۔سماج کو خطرہ اس قسم کی سوچ والے لوگوں سے ہے جو نہ صرف رسول کے احکامات کو (نعوذ باللہ)نظر انداز کررہے ہیں بلکہ لوگوں کی جانوں کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں ۔ یہ لوگ سماج کو نہ صرف نقصان پہنچا رہے ہیں بلکہ اسلام کو بھی بدنام کررہے ہیں۔ دین سے لگاؤ اچھی بات ہے مگر جب دین کہ رہا ہے کہ وبا کی صورت مییں میں احتیاط لازم ہے، رسول فرما چکے ہیں کہ وباء والے علاقے میں نہ جاؤ نہ آؤ، جب فتویٰ جاری ہو رہا ہے تو پھر کیوں نہیں بات سن رہے اور کیوں اک انسانی ہمدردی والے اسلام کو اپنی انا کے لیے استعمال کیا جارہا ہے؟

جب خانہ کعبہ، مسجد نبوی، قبلہ اول جیسے مقدس مقامات پر پابندی ہے تو پھر ہم کون ہوتے ہیں مسجد کھولنے والے جب کہ ہمارے ہاں کورونا وائرس پھیلنے کا خدشہ کافی حد تک ہے۔ کیوں انسان اس بات کو نہیں سمجھ رہا؟ کیوں اپنی انا کو اک طرف رکھ کرسوچے کہ وہ کیا کررہا ہے ۔ اس کے اس عمل سے لوگ بھی اس خطرہ کا حصہ بن جائیں گے کیونکہ ہم ایمان کے معاملے میں کتنے سخت ہیں ہم سب آپنے آپ کو جانتے ہیں۔مصر کی جامعہ الازہر کی جانب سے فتویٰ جاری ہوا کہ انسانی زندگیوں کے تحفظ کے لیے باجماعت نماز اور جمعہ کی نماز پر پابندی پر عمل درآمد کیا جائے،یہ فتویٰ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام انسانیت سے ہمدردی رکھنے والا مذہب ہے ناکہ انسان دشمن چیزوں کاحامی مزہب ہے۔

مگر یہ انسان کی فطرت ہے کہ اسے جس چیز سے روکا جائے وہ اسے غلط سمجھتا ہے پھر چاہے وہ اس کے لیے بھلائی کی ہی بات کیو نہ ہو۔ امید کرتا ہوںکہ ہماری عواماسلام کو سہی طرح سمجھے کیونکہ اسلام جزباتی مزہب بلکل نہیں ہے بلکہ انسانیت، حیوانیت، نباتات، سائنس، اور ہر وہ چیز جس سے انسان اور انسانی زندگی کا تعلق ہے کا مزہب ہے۔ تو خدارا انسانی ہمدردی والے مزہب اسلام کو اپنی انا کی خاطر بدنام نہ کریں اور اسلامی تعلیمات کے مطابق اس وائرس کا مقابلہ کریں۔ اللّٰہ ہم سب کو اس وباء اور تمام آفات سے بچائے آمین۔

جواب چھوڑ دیں