کرونا ،حقیقت کیا ہے؟

جب سے دنیا میں انسانیت وجود میں آئی ہے مختلف نوعیت کی بیماریوں سے بھی انسان کو واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے خطر ناک بیماریوں سے آگہی ہوتی رہتی تھی جن میں قابل ذکر بلڈ پریشر، دل کی بیماریاں اکا دکا لوگوں میں سننے میں آتی تھیں ۔بچوں کی بیماریوں میں کالی کھانسی، خسرہ اور پولیو وغیرہ ،ہمارے ملک میں شروع سے بچوں کو پیدائش کے بعد مذکورہ بیماریوں کے ٹیکے لگتے ہیں یہ سب ٹیکے اور ویکسین ہمیں بھی بچپن میں لگے تھے اور ہم نے اپنے بچوں کو بھی پابند ی سے لگوائے اور اب تو پولیو ویکسین اتنی پابندی سے لگائی جاتی ہے کہ کوئی اور کام اتنی پابند ی سے نہیں ہوتا۔

حالانکہ اس سے زیادہ خطرناک بیماریاں ہمارے ملک میں موجود ہیں، مثال کے طور پر بچوں میں کالی کھانسی اور ہیضہ وغیرہ اور اس کے علاوہ بھی بہت سی وجوہات کی بناء پر ہزاروں بچے پیدائش کے فوراً بعد ہلاک ہو جاتے ہیں ۔دنیا میں پہلے بھی خطر ناک وبائیں آئی ہیں لیکن آج کل جو وبا پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے جس کی وجہ سے دنیا بھر کے انسان خوف زدہ اور پریشان ہیں اس سے قبل اس طرح کی صورت حال کبھی نہیں پیش آئی۔جس کی ایک وجہ تو آجکل کا میڈیا ہے جس نے ہر ایک گھنٹہ بعد چیخ چیخ کر لوگوں کو خوف زدہ کردیا اور اس طرح اسکور بتایا جارہا ہے کہ جیسے الیکشن کے دنوں میں جیتنے والی سیٹوں کا رزلٹ بتا یا جاتا ہے۔

کرونا کے بارے میں مختلف لوگ ہر قسم کے تجزیہ کر رہے ہیں کوئی کہتا ہے کہ یہ وائرس قدرتی ہے کوئی کہہ رہا ہے کہ یہ انسان کا تخلیق کردہ ہے اسی طرح ایک ملک دوسرے ملک پر الزام لگا رہاہے جیسے امریکا نے چین پر الزام لگا یا کہ کیونکہ اس کی ابتداء چین سے ہوئی ہے اس لیے چین اس کے پھیلائو کا ذمہ دار ہے جبکہ چین امریکا پر اس کا الزام لگاتا ہے بہر حال یہ تو اللہ بہتر جانتا ہے کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح اب تو اللہ سے دعا مانگنی چاہیے کہ جلد از جلد اس خوفناک صورتحال سے نجات عطا فرمائے کیونکہ اس وقت پوری دنیا میں لاکھوں لوگ اس میں مبتلا ہیں اور ہزاروں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں،چین جس نے اس وبا پر قابوپالیا ہے اس کو چاہیے کہ باقی دنیا کی بھی اس خطرناک بیماری سے قابو پانے میں مدد کرے۔

ہمارے ملک پاکستان میں بھی اب تک چار ہزار سے زیا دہ لوگ اس بیماری میں مبتلا ہیں اور ساٹھ 60 لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اللہ کا شکر ہے کہ باقی دنیا کے مقابلہ میں ہمارے ملک میں کافی حد تک قابو میں ہے اس بیماری سے بچنے کے لیے دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی لاک ڈائون کیا گیا ہے ۔اور سارے ملک میں لوگ گھروں میں قید ہیں جس کی وجہ سے بہت سے مسائل جنم لے رہے ہیں جس میں سب سے بڑا مسئلہ معیشت کی بدحالی کا ہے ہمارے ملک میں لاکھوں ایسے مزدور پیشہ افراد ہیں جو روز کی بنیا د پر کماکر کھاتے ہیں جو کہ کاروبار بند ہونے کی وجہ سے مشکلا ت کا شکار ہیں حالانکہ بیسیوں تنظیمیں ایسے لوگوں کی مدد کر رہی ہیں اور انفرادی مخیر افراد بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں لیکن کب تک ؟

اس کے علاوہ انڈسٹریاں اور فیکٹریاں بھی بند ہیں اور ان میں کام کرنے والے ملازمین بھی اس وجہ سے پریشان ہیں کہ مالکان ان کو نوکری سے نکالنے کی باتیں کر رہے ہیں کہ جب کوئی پروڈکشن ہی نہیں ہو رہی تو وہ کیسے اپنے ملاززمین کو تنخواہیں دے سکتے ہیں اسی طرح پرائویٹ اسکولز کے مالکان بھی پریشان ہیں کہ حکومت ان سے کہہ رہی ہے کہ بچوں کی فیس میں رعایت دیں اور دوسری طرف اساتذہ کو پوری تنخواہیں دینے پر بھی زور ڈال رہی ہے۔اسی طرح چھوٹا کاروباری طبقہ بھی مشکلات کا شکارہے ۔چونکہ رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہونے والا ہے اور اس ماہ میں سارے ہی کاروبار کرنے والوں کا سیزن ہوتا ہے اور وہ بہت پہلے سے ہی اس کی تیاریا ں شروع کر دیتے ہیں لیکن اس دفعہ سب ہی پریشان ہیں ۔فی الحال حکومت نے 14اپریل تک لاک ڈائون میں توسیع کی تھی ، کاروباری طبقہ نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ 15اپریل سے کاروبار کھولیں گے اللہ کرے ایسا ہی ہو۔

جب لاک ڈائون کرنے کی بات آئی تو ہمارے وزیر اعظم صاحب اس کے لیے تیار نہ تھے کہ لاک ڈائون کیا جائے ان کو معلوم تھا کہ لاک ڈائون کی صورت میں مزدور اور کم آمدنی والا طبقہ بہت زیادہ متاثر ہو گا اور حکومت ان کی مدد کرنے کے قابل نہیں ہے مگر جب ان کے اوپر بہت زیادہ دبائو پڑا تو وزیراعظم صاحب نے یہ فیصلہ صوبوں پر چھوڑ دیا ،پھر ہمارے صوبے (سندھ)کے وزیر اعلی نے لاک ڈائون کا اعلان کر دیا جو کہ پہلے 19مارچ سے 5اپریل تک تھا جس میں 14اپریل تک توسیع کر دی گئی جس میں شروع کے پہلے ہفتہ کافی سختی کی گئی اور باہر نکلنے والے افراد کو سزائیں بھی دی گئیں اور گرفتار بھی کیا گیا مگر بعد میں عدالت کی مداخلت پر چھوڑ دیا گیا دوسرے ہفتہ میں حکومت کی طرف سے خدشات ظاہر کیے گئے (معلوم نہیں کس بنیاد پر) کہ وبا بہت تیزی سے پھیل سکتی ہے اور اموات میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے

اس طرح لوگوں کو خوفزدہ کر کے گھروں میں رہنے پر مجبور کیا گیا اور خاص کر مساجد میں لوگوں کے جانے پر بلاوجہ سختی کی گئی حتیٰ کہ جمعہ کی نماز بھی مساجد میں ادا نہیں کرنے دی گئی حالانکہ کچھ ایسے اسٹورز میں بے انتہا رش دیکھنے میں آیا جہاں لوگ بغیر کسی احتیاطی تدابیر کے مجمع لگائے ہوئے نظر آئے۔اس موقع پر عوام میں بے یقینی کی کیفیت پیدا ہو گئی کہ پتہ نہیں اشیاء خورو نوش ختم نہ ہو جائیں جس کی وجہ سے راشن کی دکانوں پر رش بڑھ گیا اور لوگوں نے دو تین مہینہ کا راشن خریدنا شروع کر دیا۔

جہاں تک مساجد میں جانے پر پابند ی اور نمازیوں کی تعداد 3سے 5تک محدود کرنے کا تعلق ہے یہ با لکل نہ سمجھ میں آنے والا فیصلہ تھا کیونکہ ایک مسلمان کا اس بات پر ایمان ہے کہ جب انسان پر کوئی آفت یا مشکل وقت آتا ہے چاہے وہ انفرادی ہو یا اجتماعی وہ اللہ کی طرف رجو ع کرتا ہے اور مسجد کا رُخ کرتا ہے ہمارے پیارے نبی ﷺ کی بھی یہ سنت رہی ہے کہ جب کوئی آفت آنے والی ہوتی یا تیز آندھی بھی آتی تو آپ ﷺ فوراً مسجد میں نماز میں مشغول ہوجاتے تھے ۔حکمرانوں کو بھی چاہیے کہ وہ خود بھی مسجدوں میں جاکر باجماعت نماز ادا کریں اور عوام کو بھی مساجد میں نماز با جماعت پڑھنے کی تلقین کریں ۔

کرونا کی بیماری سے محفوظ رہنے کے لیے لوگو ں کو گھروں میں رہنے کا حکم دیا جا رہا ہے اور راستوں میں رکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں ہیں تاکہ لوگ گھروں میں رہیں اور اس بیماری سے بچے رہیں حالانکہ کراچی شہر میں ایک عرصہ سے صفائی نہیں ہو رہی ،جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں، سیوریج کا پانی لوگوں کے گھروں کے پاس جمع ہے جس سے تعفن اُٹھتا رہتا ہے خاص کر کچی آبادیوں میں اور اکثر پس ماندہ علاقوں میں تو گٹر کے پانی میں لوگ کھانے پینے کی چیزوں کے اسٹال لگا کر بیچ رہے ہوتے ہیں مگر کبھی کسی حکمران کو خیال نہیں آیا کہ لوگوں میں خطرناک بیماریاں اور وبائیں پھیل سکتی ہیں کرونا میں ایسی کون سی خاص بات ہے کہ اتنی فکر ہو گئی لوگوں کی زندگیوں کی۔

اگر حکمران چاہیں تو شہر میں جگہ جگہ برائیوں کے اڈے اور شراب خانے قائم ہیں، ان کی طرف جانے والے راستوں پر بھی رکاوٹیں لگا کر عوام کو ان برائیوں سے بچا سکتے ہیں، رمضان المبارک میں اکثر وہ لوگ جو روزہ نہیں رکھتے اور کھلے عام کھاتے پیتے رہتے ہیں ان کو روک سکتے ہیں اور لوگوں کو اگر مساجد جانے سے روک سکتے ہیں تو ان کو باجماعت نماز پڑھنے کا حکم بھی نافذ کر سکتے ہیں۔

لہذا موجودہ صورتحال میں حکومت کو چاہیے کہ کاروباری طبقہ کے لیے کوئی بہتر صورت نکالے لاک ڈائون کا وقت محدود کر دے اوردن میں کچھ گھنٹوں کے لئے کاروبا ر کھولنے کی اجازت دے اور مساجد سے مکمل طور پر لاک ڈائون ختم کرے کیونکہ رمضان المبارک قریب ہے اور نمازیوں کو تراویح پڑھنے کی آزادانہ اجازت ہونی چاہیے۔

جواب چھوڑ دیں