کرونا..شیعہ یا تبلیغی؟

کرونا اس وقت جدید دنیا کے لیے بہت بڑا چیلنج بن کر سامنے آیا ہے، جس نے تمام بڑی طاقتوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ہے، حقیقتاً یہ کیا ہے؟اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا، لیکن اس کے متعلق ہر دو قسم کی آراء موجود ہیں، جن کے اپنے اپنے دلائل ہیں۔ دنیا کے دو سو ممالک اس وبا کا شکار ہیں، وہ یا تو مکمل یا پھر جزوی طور پر بند ہیں، حکومتیں اپنی جگہ اور عوام گھروں میں الگ پریشان ہیں۔ ٹی وی چینلز نے الگ اودھم مچا رکھی ہے، جنہیں دیکھ دیکھ کر عوام نفسیاتی مریض بن رہے ہیں.

بہرحال یہ ایک الگ موضوع ہے، اب آتے ہیں اپنے اصل موضوع کی طرف پاکستان بھی ان ممالک میں سے ایک ہے، جہاں اس عالمی وبا نے اپنے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں. الحمدللہ پاکستان نے بہتر اور مؤثر انتظامات کیے ہیں، جس کے نتیجے میں زیادہ تر مریض صحت یاب ہوکر اپنے گھروں کو روانہ ہورہے ہیں۔لیکن جو سب سے زیادہ پریشان کن اورمزید خوف کی فضا ہموار کرنے کا باعث بن رہا ہے وہ کچھ اور ہے۔چینی اس وبا کا شکار ہوئے،وہاں کرونا بدھ مت نہیں تھا، یورپین اس کا شکار ہوئے وہاں بھی یہ ایک وبا ہی تھی،یہ نہ عیسائی ہے اور نہ یہودی، حتی کہ یہ ان عیسائی فرقوں سے بھی تعلق نہیں رکھتا جو ایک دوسرے کے جانی دشمن ہیں، لیکن جب یہ پاکستان آیا تو سب سے پہلے یہ شیعہ بنا، کیونکہ یہ ایک پڑوسی ملک میں جانے والوں کے ذریعے آیا۔

یہاں ٹھہر کر ہمیں اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ انہیں روکنا، چیک اپ کرنا اور اثر زدہ لوگوں کو آئسوليشن پہنچانا حکومتی ذمے داری تھی، جس میں حکومت ناکام ہوئی. اب دوسرا سوال یہ ہے کہ یہ لوگ کیوں گئے، کس لیے گئے اور کن کن سرگرمیوں میں ملوث رہے یہ بھی حکومتی ذمے داری ہے کہ ان کا سراغ لگایا جائے.سوچیں جب دو نگرانوں والا گھر نہیں چل سکتا تو ملک کیسے چلے گا، ہمیں نگران نہیں عوام بننا ہے.اب آئیےتصویر کے دوسرے رخ کی طرف، حالیہ دنوں جناب کرونا اہلیان پاکستان کے ایک بہت بڑے طبقے کے ساتھ چمٹ گیا یا پھر چمٹایا گیا ہے، کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا، دوسرے لفظوں میں کرونا صاحب آج کل تبلیغی بنا ہوا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ ہر ایکشن کا ری ایکشن ہوتا ہے، تو یہاں بھی وہی ہوا ہے. پریشان یا افسردہ ہونے کی ضرورت نہیں، اختلافات، نظریات کا الگ ہونا یہ موضوع بحث نہیں لیکن اگر ہم نے ان آنے والوں کے بہتر علاج کی طرف توجہ دی ہوتی اور ایک قوم ہوکر فی الحال ان کے ساتھ کھڑے ہوتے تو امید ہے ہمیں آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے، ان کی صحت یابی کے بعد حکومت سے مطالبہ کیا جاتا کہ جو لوگ ملکی سالمیت کے خلاف کام کرتے رہے ہیں، ان کا ٹرائل کیا جائے، انہیں کٹہرے میں لایا جائے۔

پہلے ٹرینڈ چلائے گئے، ٹی وی چینلز نے ہاہا کار مچائی، معاملہ سپریم کورٹ پہنچا. اور پوری قوم جو اس وقت گھروں میں بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی ہے، انہیں مثبت سوچ دی جاتی لیکن اس کے برعکس مخالفانہ فضا بنائی گئی، جس کا دوسرا دکھ بھرا پہلو ہمارے سامنے ہے۔آئیے ذرا ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی دیکھیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلتا ہے کہ مدینہ میں ایک یہودی بچہ بیمار ہوگیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوراً اس کی عیادت کے لیے پہنچ جاتے۔

ایک بڑھیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کچرا پھینکتی ہے، جب کچرا نہیں آیا تو اس کی عیادت کو چلے جاتے ہیں، یہودن کھانے کی دعوت کرتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی دعوت کو قبول کرتے ہیں۔آپ کا اعتراض اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ حکومت نے نااہلی کا ثبوت دیا تو میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں، کیا ہم نے بھی عقلمندی کا ثبوت دیا تھا؟کیا بہت سارے لوگ پتہ چلتے ہی سوشل میڈیا پر فرقہ وارانہ فضا بنانا شروع نہیں ہوگئے تھے؟کیا ہم نے انہیں روکنے یا مثبت رویہ رکھنے کا کہا تھا؟

اگر یورپ کا کرونا عیسائی، چین کا بدھ مت، اسرائیل میں یہودی اور انڈیا میں ہندو یا مسلمان نہیں ہےتو خدرا خوف و ہراس کی آگ میں مزید ایندھن نہ ڈالیں، وبا کا خوف، کاروبار کا خوف، اشیاء کی قلت کا خوف کیا کم ہے کہ فرقہ واریت کا کاروبار کیا جارہا ہے. وہ ایام جن میں پوری امت مسلمہ ہی نہیں بلکہ ساری دنیا پریشان، خوف زدہ ہے، کہ نجانے کیا ہوگا، اور کب تک ہوگا. ہم توبہ، رجوع الی اللہ کے بجائے کن چکروں میں پڑے ہوئے ہیں۔

میرے بھائی تھوڑا نہیں…ذرا نہیں… پوری طرح سوچیے !!.. اللہ ہمارے دلوں کو کھول دے اور ہمارے دلوں کو جوڑ دے، اللہ کے آگے گر کر اللہ سے توبہ کریں ، اللہ سے عافیت اور رحمت مانگیں۔

جواب چھوڑ دیں