کہاں ہیں ہمارے نگران ؟ 

ہاں وہی جو باتیں کرتے ہیں غریبوں کے حقوق کی , وہی جو یقین دہانی کراتے ہیں ان۔کی روزی کی ۔ آخر کہاں ہیں وہ ؟ ہمارے ملک میں غرض ساری دنیا میں جو حالات چل رہے ہیں اس کے پیش نظر اگر گفتگو کی جائے تو جو کہا جائے وہ کم ہے ۔ ملک بھر میں بہت سی جگہوں پر لاک ڈاؤن لگایا ہے ۔ صوبہ سندھ بھی ان ہی حالات سے آج کل دوچار ہے ۔ ہمارے ملک کے علاوہ جتنے ممالک ہیں انہوں نے اس وبا سے بچاؤ کا بہترین اقدام لاک ڈاؤن قرار دیا ۔ ہمارے ملک میں اس بات اور فیصلے کی ممانعت یہ کہہ کر کی گئی کہ غریبوں کا کیا ہوگا ۔ ان کی بھوک و افلاس کا کیا ہوگا ۔ وہ دو وقت کی روٹی کو ترسیں گے ۔ ہم کوئی فیصلہ اور انتہائی قدم لینے سے پہلے انتظامات مکمل کریں گے ۔ جی بالکل ٹھیک ایک طرف تو یہ فیصلہ ٹھیک ہے بھی کہ اگر کرفیو یا مکمل لاک ڈاؤن لگا دیا جائے تو غریب طبقے کا کیا ہوگا ۔

میرا سوال یہ ہے کہ جب مکمل پابندی نہیں لگائی گئی تو تب غریب طبقے کا حال کیا ہے ؟ کیا وہ بھوک سے نہیں بلک رہا ؟ کیا ان کے مرد اپنے گھر والوں کے لیے دو وقت کی روٹی کے انتظام کے لیے ایڑی چوٹی کا زور نہیں لگا رہے ؟اگر ایک چھابڑے والا جو کہ خدا نخواستہ اس مرض کا شکار ہے اور اس کے سامنے اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں جن کی کفالت کرنے والا اس کے سوا اور کوئی نہیں تو وہ دو وقت کی حلال کمائی کرنے نکلے گا یا انسانیت کا بھلا سوچ کر ہسپتال میں بھرتی ہو جائے گا؟ جس شخص خو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہوں اس کو اور کیا نظر آئے گا ؟

اب بات کرتے ہیں دوسرے مزدوروں کی جو لوگوں کے گھروں میں کام کرتے ہیں ۔ ۔ جیسے پلمبر ھوا، پینٹر ہوا، کارپینٹر ہوا ۔ اگر لاک ڈاؤن نا بھی لگا ہو تو وہ روزی روٹی کما سکتا ہے ؟ جہاں ملک بھر میں یہ حالات ہیں کہ اپنا اپنے کو پہچاننے اور ان سے میل ملاپ رکھنے سے انکاری ہے , جہاں افراتفری مچی ہوئی ہے کہ کسی طور “اپنی ذات” بچالی جائے ۔ ۔ وہاں ان کام کرنے والوں کو کون اپنے گھروں میں گھسائے گا کون ہے جو ان سے کام کرا کر ان کو معاوضہ دے گا کہ وہ دو وقت کا کھا لیں ۔ نقط نظر یہ ہے کہ دہاڑی دار طبقہ کرفیو ہو نا ہو فالوقت بھوکا ہے ویسے ہی جیسے آنے والے وقت میں ہوتا ۔

تو حکومت کو نظر ثانی کرنی چاہیے کہ یہ جو کورونا جیسا وبائی مرض آزمائش بن کر اترا ہے اس سے کس طرح جلد از جلد نکلا جاسکے اس کے لیے مل کر اقدامات کرے ۔ کہنا بہت آسان اور کرنا بہت مشکل ہے اس وقت ہمیں باتوں کے بجائے اعمال اور افعال کرنے کی ضرورت ہے ۔ آزمائش کچھ سیکھانے آتی ہے جتنا جلدی سیکھ لیں گے اتنا جلدی دور ہوگی جہاں تک مجھے لگتا ہے تو یہ آزمائش ہمیں یہ سکھانے آئ ہے خہ ہم امیر اور غریب کا فرق مٹا دیں ۔ ۔ ہم میرا اور تیرا کرنا چھوڑ دیں ۔ ہم اتحاد اور نظم و ضبط کا سہارا لیں ۔ ہم کرپشن کو چھوڑ دیں ہم برابری کے ساتھ ہر طبقے میں تقسیم کریں ۔

غریب ‘ غریب کیوں ہوتا ہے ؟ کیا غریب ہونے میں اس کا قصور ہے ؟ یا وہ سٹیمپ لگواکر آتا ہے تو وہ غریب ہوگا ۔ غریب کا قصور کیا ہے کہ وہ ایک کم آمدنی والے گھرانے میں پیدا ہوا ہے جہاں کوششوں اور محنت کے باوجود وہ اوپر نہیں آسکتے کیونکہ اوپر والے اوپر آنے کی راہ نہیں دیتے وہ ایسے پھیل کر بیٹھے ہوتے ہیں کہ غریب کھٹکھٹاتا رہ جائے مگر دروازہ نہیں کھلتا حتیٰ کہ وہ کسی بڑے اور امیر کا ریفرنس استعمال کرے ۔

امیر ‘امیر کیسے ہے ؟ یہ جس پیسے اور آسائشوں پر ان۔کو ناز ہے وہ ان کی۔کمائی ہے کہ اللہ کی طرف سے نعمت جس کو یہ بخل کرکے اپنے لیے آزمائش بنا لیتے ہیں اور اندھے ہوجاتے ہیں ۔

ہم مسلمان ہیں ۔ ۔ ہمیں ریاستِ مدینہ بننا ہے تو سب سے پہلے ہمیں مسلمان بننا ہوگا معذرت کے ساتھ ہم مسلمان ہیں تو مگر نامی گرامی ہم نے دین کا لبادہ تو اوڑھا ہے مگر اس لباس کی صفائی ستھرائی کا خیال چھوڑ دیا ہے جو کہ دینی تعلیمات پر چلنے اور عمل کرنے سے ہوتی ہے ۔ وہ جو مدینہ کی ریاست تھی وہاں مساوات تھی , بھائی چارہ تھا , ہمدردی تھی , رحم تھا , ایثار تھا , قربانی تھی , اتحاد تھا , ساتھ تھا ۔ اچھا بنانے کے لیے “اچھا بننا ” ہی ضروری ہے ۔ دوسروں پر الزام دینے کے بجائے اگر ہم پورے جوش و جذبے سے اپنی اپنی ذات پر توجہ دیں اور ذات کو بھتر بنا کر شروعات کریں تو یقینا ہو بھی جائیں گے ۔ جب اوپری درجہ ٹھیک ہوگا تو غریب یوں بھوک کے ہاتھوں نہیں مرے گا ۔

یہ جو واقعہ رونما ہوا ہے تکلیف کے ساتھ ساتھ شرمندگی کا لمحہ بھی لایا ہے کہ ہمارے “لوگ” بیماری کے بجائے بھوک سے اس فانی دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں ۔ اتنا مجبور ھوجاتے ہیں کہ خودکشی جیسی حرام۔موت لینے سے بھی خود کو روک پاتے ۔ جب انسان بیمار ہوتا ہے تو دواؤں سے ٹھیک ہوجاتا ہے ایک امید ہوتی ہے آس ہوتی ہے ۔ مگر جب بھوکا ہوتا ہے تو اندھیرے کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔میری دعا ہے اللہ ہم سب کو ہدایت دے اور ہمارے بڑے صرف کہدینے پر اکتفا کرنے کے بجائے کر گزرنے اور عمل پیرا ہونے پر بھی زوردیں۔

جواب چھوڑ دیں