کرونا وائرس، مذہبی رہنماؤں کی ذمہ داریاں

دسمبر2019ء میں چین کے شہر ووہان سے پھوٹنے والی بیماری کے بارے میں کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ 180ممالک کے کاروبار زندگی کو معطل کرکے رکھ دے گی۔ ابتداء میں نزلہ زکام سے شروع ہونے والی بیماری خطرناک نمونیا کی شکل اختیار کرلیتی ہے، بعض اوقات پھیپھڑوں سے خون ٹپکنے لگتا ہے۔ چینی ڈاکٹرز کی دن رات کی تحقیق سے نتیجہ یہ نکلا یہ ایک وائرس ہے جو بڑی تیزی ایک انسان سے دوسرے انسان میں پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے، کرونا وائرس جسے کویڈ19بھی کہتے ہیں، عالمی ادارہ صحت کے مطابق 14دن کے اندر علامات ظاہر کرتا ہے، اور بعض محققین نے 22دن کا بتایا۔

اس وائرس سے متاثرہ 40ہزار افراد پر کی جانیوالی تحقیق کے بل بوتے پر عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ 81فیصد افراد میں اسکی ہلکی پھلکی علامات ظاہر ہوئیں، 14فیصد میں شدید علامات جبکہ5فیصد وینٹی لیٹر پر جاپہنچے، اب تک کے اعدادوشمار ہمیں بتاتے ہیں کہ آدھے ملین سے زائد افراد اس کا شکار ہوئے اور ہزاروں اموات ہوئیں، جو دن بہ دن بڑھ رہی ہیں۔ اب چونکہ یہ وبا پاکستان میں بھی پنجے گھاڑ رہی ہے، اسلئے اس نازک کیفیت میں سب سے اہم ذمہ داری وارثان منبر و محراب اور درگاہوں کے سجادہ نشینوں کے سر آتی ہے کہ وہ کیسے عوام کے اندر شعور کی شمعیں جلاتے ہیں۔

چین کے تجربے سے یہ تو ثابت ہوچکا کہ محض حکومت اس کو روکنے کی جتنی بھی کوشش کرے ایسا ممکن نہیں ہے جب تک پوری قوم کے تمام طبقات اپنے حصے کی ذمہ داری پوری نہ کریں، وارثان منبر ومحراب کے پاس مسجد کےا سپیکرز کی جو طاقت ہے اس سے انکار اسلئے بھی نہیں کیا جاسکتا ہے کہ انہیںا سپیکرز سے عوام کو جس جانب دھکیلنا چاہیں، عوام اسی جانب جانے کو تیار رہتی ہے۔ ہمارے ہاں مذہبی جنونیت کا بھی انکار ممکن نہیں ہے اور ہر ذی نفس مذہب کیلئے اپنے جذبات رکھتا ہے،یہ علماء کے ہاتھ میں ہے کہ وہ ان جذبات کو کیسے بروئے کار لائیں۔

کرونا وائرس کی وباء کے آنے کے بعد ہمیں کہیں کہیں سے یہ آوازیں بھی سننے کو ملیں کہ یہ سازش مسجد و منبر کے خلاف ہے، حالانکہ مسجد و منبر تک بات پہنچے سے پہلے چرچ و گرجے ویران ہوچکے تھے، اٹلی ہی کی مثال لے لیں جواس وقت پوری دنیا کے نشان عبرت ہے، اٹلی مسیحی دنیا کے مذہبی مقامات کا گڑھ ہے جہاں کی رونقیں قابل دید تھی اور ا ب جنازوں کیلئے کندھے ہیں نہ ہی قبروں کیلئے گنجائش، اٹلی کے سیاسی و مذہبی رہنماؤں نے بس اتنی غلطی کی کہ چند دنوں کی تاخیر کردی اور یہ تاخیر قیامت بن گئی۔

مسلم دنیا میں ایران کی مثال ہمارے سامنے ہے، ایرانی علماء اور انتظامیہ نے بھی ابتداء میں اسے امریکا کی سازش سمجھا مشھد کے ایک امام نے بیماری کو نظرانداز کرتے ہوئے ووٹ نہ ڈالنے والے کیلئے کفر کا فتوی دے ڈالا، اٹلی والی تمام غلطیاں دہرائی گئیں نتیجہ یہ نکلا کہ ایران اب بے بسی کی تصویر بن چکا ہے، ان مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ مذہبی طبقات کی ذمہ داری سب سے بڑھ کر ہے، پاکستان میں بھی کچھ علماء اپنا سخت موقف رکھتے ہیں، تاہم اس تحریر کے ذریعے میری دردمندانہ اپیل ہے کہ یہ وقت متحد ہوکر حکومت کی جانب سے بنائے گئے لائحہ عمل پر من و عن عمل کرنے کا ہے۔

میں یہاں ذکر نہ کروں تو یہ تحریر ادھوری رہے گی کہ بھیرہ شریف کے سجادہ نشین پیر امین الحسنات شاہ نے صدر مملکت سے اپنی گفتگو میں اپنے 350اداروں کو قرنطینہ سنٹرز کیلئے وقف کیا ہے، انکے350اداروں میں 10ہزار کمرے موجود ہیں، اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے حکومت کو آفر کی کہ 40ہزار طلبہ کسی بھی ہنگامی حالت کیلئے حکومت کے شانہ بشانہ ہوں گے، میرے والد گرامی ذی وقار پیر سید زاہد صدیق بخاری نے بھی اپنے ادارے کو قرنطینہ سنٹر کیلئے آفر کیا ہے اور اپنے متعلقین کو حکومتی ہدایات پر سختی سے عمل کرنے کی ہدایات جاری کررکھیں ہیں۔

علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے بھی شعور دینے کیلئے بہترین کاوشیں کیں، ایسے ہی تمام علماء کرام، مشائخ عظام، پیران کرام، اساتذہ،مبلغین، مدرسین اور معلمین اپنا کردار ادا کریں، تاکہ پاکستانی قوم کم از کم 20دن گھروں سے نہ نکلے اور حکومت کے بتائے ہوئے ہدایت نامے پر عمل کرے، اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو یقین کیجئے ہمارے پاس استطاعت کم ہے کہ ہم اس وائرس کا مقابلہ کرسکیں، اللہ کریم ہم سب پر اپنا کرم فرمائے۔

جواب چھوڑ دیں