ترجیح بروقت اقدامات

 کہتے ہیں کہ جب جنگل میں آگ لگ جائے تو مشکیزوں کے نرخ یا بھائو نہیں پوچھے جاتے،بس پانی خریدا اور آگ بجھانے کے درپے ہو گئے۔اس وقت جب عالم ِ کل کرونا جیسی موذی مرض میں مبتلا ہے،اس مرض نے دنیا سے دو صد سے زائد ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے،گویا ہر سوُ اک آگ سی لگی ہوئی ہوئی ہے ایسے حالات میں وہ ممالک جن کی معیشت پہلے ہی دنیا کے مقابلے میں ابتر ہے۔

عوام الناس کا معیار زندگی پست اور کروڑوں کی تعداد میں نوجوان خطِ غربت سے کم کی زندگی گزار رہے ہوں تو ایسے میں قدرتی آفت آزمائش نہیں تو اور کیا ہے۔پاکستان کا شمار بھی ایسے ہی ممالک میں ہوتا ہے کہ جہاں لوگوں کا معیار زندگی پست اور معیشت بیرونی قرضوں پر منحصر ہے ایسے حالات میں کرونا جیسے مرض کا ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لینا کسی آزمائش سے کم نہیں ہے۔لیکن سلام ہے میرے وطن کے مخیر حضرات،اہل ِ ثروت اور صاحبِِ نصاب کو،خصوصا ایسے لوگ اور تنظیمیں جو بلا تشہیر مصیبت کی اس گھڑی میں اپنوں کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں۔

حکومت وقت بھی قابلِ ستائش ہے کہ ملکی معاشی حالات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے انہوں نے ایسے اقدامات اٹھائے جو بلاشبہ فلاحی ریاست کا فرض اولین ہوتا ہے،یعنی عوام کی فلاح اور مشکل حالات میں انہیں تنہائی کے احساس سے آزاد کروانا۔حکومت نے نہ صرف مصیبت کی اس گھڑی میں آٹھ ارب ڈالر کا ریلیف پیکج دیا ہے بلکہ انہوں نے پوری دنیا کے مخیر حضرات سے اپیل کرتے ہوئے کرونا ریلیف فنڈ کا بھی اعلان کیا ہے۔کیونکہ حکومت جانتی ہے کہ یہ ایک دو دن کی بات نہیں ہے بلکہ ایسے متعددی امراض جاتے جاتے بھی وقت لے لیتے ہیں۔

اب تو خیر سائنس ترقی کر چکی ہے اور لوگ بھی قدرے سمجھدار اور ذمہ دار ہو گئے ہیں وگرنہ پرانے وقتوں میں جب کبھی ایسے امراض پیدا ہوتے تو سالوں سال علاقہ کو اپنی گرفت میں لئے رکھتے،کیونکہ ان دنوں نہ تو کوئی مناسب ادویات تھیں اور نہ ہی کوئی ویکسین ایجاد ہوئی تھی۔انسان اپنی قوت مدافعت سے ہی تندرست ہوتا۔خدا کا شکر ہے کہ اس بیماری کے بارے میں عوام بہت جلد خبردار ہو گئےت اور احتیاطی تدابیر بھی مناسب وقت میں شروع کرنے سے حالات اس قدر بگڑنے نہیں پائے جتنا کہ اس بیماری کا شور تھا یا پھر جتنی تیزی سے اس بیماری نے چین میں تباہی مچائی۔

ہوتا کیا تھا کہ جو بھی حکومت ایسے اقدامات کا اعلان کرتی اس میں شفافیت نہ ہونے کہ ایک وجہ خیرات کا مختلف ہاتھوں سے ہو کر ضرورت مند اور حقدار تک پہنچنا ہوتا تھا لیکن اس حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ دستی خیرات کسی کو نہیں دی جائے گی بلکہ ڈیٹا کے حصول کے بعد تین ماہ کی ادائیگی ضرورت مند اور مستحق افراد کے اکائونٹ میں براہ راست ادا کر دی جائے گی تاکہ غریب عوام کی عزت نفس مجروح نہ ہو اور نہ ہی ڈیرہ داروں کے ڈیرہ کے باہر لائن میں لگے غربا میں احساس کمتری پیدا ہو۔داد تو حفیظ شیخ کو بھی بنتی ہے کہ جنہوں نے یہ اعلان کیا کہ وہ لوگ جو یوٹیلیٹی بل ادا نہیں کر سکتے وہ تین ماہ تک اپنے بل جمع نہ کروائیں،جب حالات ٹٹھیک ہو جائیں گے تو بلز کی ادائیگی کو ممکن بنا لیں۔اس وقت تک حکومت اس بوجھ کو برداشت کرے گی۔

اب آ جائیں اس پورے منظر میں حزب اختلاف کے کردار کی طرف،کہ وہ اپنا کردار ادا کر رہی ہے کہ روائتی جملہ بازی ،مخالفت برائے مخالفت یا تنقید برائے تنقید کے چکروں میں ابھی تک پڑی ہوئی ہے۔میڈیا اور سوشل میڈیا پر دیکھی جانے والی شہباز شریف کی آن لائن پریس کانفرنسز سے تو یہی بات سامنے آرہی ہے کہ میں نہ مانوں اور تنقید برائے تنقید۔بلکہ آج ہی میں ان کا ایک بیان پڑھ رہا تھا کہ اگر عوام نے مجھے ایک موقع اور دیا تو میں خدمت کروں گا،بھولے بادشاہ خیرات اور خدمت کا اجرِ عظیم تو اپنے پیسوں سے ہوتا ہے۔

خدا نے بیش بہا دولت سے نواز رکھا ہے تو حوصلہ کرو خدا کے راستے میں ،خدا کے لئے اپنی اس عوام پر کچھ خرچ کرو جو انہی کو بے وقوف بنا کر لوٹ رکھا ہے۔مگر ایسا نہیں ہے،سونے پہ سہاگہ تو یہ ہے کہ اب چھوٹے میاں صاحب نے بڑے مولانا فضل الرحمن کو اپنے ساتھ وزیر اعظم کی کردار کشی کے لئے ساتھ ملا رکھا ہے۔حضور کردار کشی،الزام تراشی چھوڑئے اور عوام کی خدمت،وطن کی محبت اور ووٹ کو عزت دینے کی خاطر اپنے تئیں کچھ کر دکھائیے کیونکہ یہی وقت ہے اپنے آپ کو ہیرو بن کر عوام کو دکھانے کا۔

دوسری طرف بلاول بھٹو صاحب نے اپنی حکومت کو سندھ تک اور اپنے آپ کو اپنے گھر تک ہی محدود کر رکھا ہے،تو جناب پاکستان صرف سندھ کا نام ہی نہیں ہے بلکہ اگر آپ نے پیپلز پارٹی کو پورے ملک کی سیاسی جماعت ظاہر کرنا ہے تو پھر گھر سے نکلئے اور پورے ملک میں چھا جائیں۔تاکہ عوام کو پرہ چل سکے کہ بھٹو کے نواسے نے اپنے نانا کی سیاست اور خواب،روٹی کپڑا اور مکان کو زندہ کر دیا ہے۔اگر پیپلز پارٹی کے منشور کا جائزہ لیا جائے کہ،اسلام ہمارا مذہب،جمہوریت ہماری سیاست،سوشلزم ہماری معیشت اور طاقت کا سرجشمہ عوام میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہے عوام یا جمہور۔لیکن اس مشکل گھڑی میں زبانی نعرہ بازی سے عوام کا پیٹ بھرنے والے یہ نہیں سوچتے کہ عوام کو آپ کے نعروں کی نہیں راشن،خوارک اور مالی امداد کی ضرورت ہے۔

لہذا میری حزب اختلاف سے استدعا ہے کہ یہ وقت متحارب ہونے کا نہیں بلکہ موافق ہو کر ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر حکومت کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہو کر عوام کو اولین ترجیح خیال کرتے ہوئے عملی طور پر ساتھ دیں۔تاکہ عوام کی نظر میں آپ کی بھی عزت بڑھے کیونکہ اب وہ وقت نہیں ہے کہ جب آپ الیکشن ہارنے کے بعد پانچ سال اپنے اپنے غیر ملکی فلیٹ میں گزار کر آئندہ الیکشن میں انگریزی فلم کے ہیرو کی طرح مکمل اسکواڈ کے ساتھ انٹری ماریں اور عوام کا ٹھاٹے مارتا سمندر آپ کو آنکھوں اور ہاتھوں پر بٹھا کر استقبال کرتے ہوئے آپ کے محلوں تک پہنچائے۔ابھی تو جو بیجو گے وہی کاٹو گے۔

ایسے حالات میں اگر ان مخیر حضرات،تنظیموں،اداروں،صاحبِ ثروت کو سلام پیش نہ کیا جائے جو شب وروز بلا کسی تعصب ،رنگ ونسل اور مذہب عوام کی خدمت کر رہے ہیں تو ان کے ساتھ زیادتی ہوگی۔اور کچھ نہیں تو ہمیں ایسے افراد کے ساتھ مل کر ان کی حوصلہ افزائی اور مالی معاونت کرنی چاہئے تاکہ وہ اور خلوص اور دلجمعی کے ساتھ اس کارِ خیر میں مستعد ہوں۔اس وقت میرے ملک میں آگ لگی ہوئی ہے اور جب آگ لگ جائے تو مشکیزوں کے بھائو نہیں پوچھے جاتے بلکہ ترجیحی بنیادوں پر آگ کو بجھانے کا بندوبست کیا جاتا ہے۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں