پرانی روش پر قائم امریکا

موجودہ وقت میں پوری دنیا کا صرف ایک مسئلہ ہے،کورونا وائرس سے جنگ ۔اس وبا سے مقابلہ کرتے دوسو ممالک چور چور ہو چکے ہیں۔ابھی تک کسی کو کورونا کی جنگ میں فتح کا راستہ نظر نہیں آ رہا۔کیوں کہ یہ مسئلہ پوری دنیا کا ہے اس لئے سب اپنے تمام پرانے تنازیات،تحفظات بھلا کر ایک صف میں کھڑے ہیں،جہاں ممالک کے درمیان ہمدردی،احساس کا جذبہ نظر آ رہا ہے،بہت سے ممالک اپنی غلطیوں کو سدھارنے اور امن و سکون کے ساتھ دنیا میں رہنے کی سوچ اجاگر کر چکے ہیں۔

لیکن شیطان صفت امریکا کی قیادت ابھی بھی اپنی پرانی حکمت عملی پر گامزن ہے۔اس کا اشارہ اس وقت ملا جب امریکی وزارت دفاع نے عسکری قیادت کو حکم دیا ہے کہ عراق میں امریکی معرکہ آرائی کو بڑھانے کی منصوبہ بندی کرے اورعراق میں ایران کی ہمدردی رکھنے والے گروہ کو تباہ کرنے کی مہم شروع کرنے کا منصوبہ بنایا جائے۔ایسے وقت میں جب دنیا کورونا وائرس سے جنگ کی حالت میں ہے۔

امریکہ ایسی خرافات پر دھیان کیوں دے رہا ہے؟اس کی دو وجوہات ہیں،ایک؛ وہ ابھی بھی اپنا سپر پاور ہونے کا خول نہیں اتار رہا۔دوسرا؛ امریکہ کی بدقسمتی ہے کہ ان پر غیر سنجیدہ نا اہل اور بد دماغ قیادت مسلط کر دی گئی ہے۔جس کی وجہ سے امریکہ کو بار بار دنیا کے سامنے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔حالاں کہ اگر سچائی اور حقائق کی طر ف پلٹا جائے تو حیات کے در کشادہ ہو جاتے ہیں،مگر امریکا نے تکبر اور غیر حقیقت پسندانہ رویہ نہیں چھوڑا ہے۔

وہ غلطیوں سے سیکھنے کی بجائے باربار غلط فیصلے لے رہاہے۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکا،ایران اوراس کی فورسز کے خلاف نئے سخت اقدامات کرنے کے در پر ہے۔امریکہ سمجھتا ہے کہ ایران پر گہری ضرب لگانے کا یہ سنہری موقع ہے،کیوں کہ کورونا کی وبا کے سبب ایران قیادت انتشار کا شکار ہے،ان کی تمام تر توجہ کورونا کے بڑھتے ہوئے نقصانات کی طرف مرکوز ہے۔ایران میں 2700اور متاثرین کی تعداد 39 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔

کورونا سے بڑھتی ہلاکتیں ایران کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ،لیکن ایران امریکی عزائم سے بے خبر بھی نہیں ہے۔ایران امریکہ کی رگ رگ سے واقف ہے،انہوں نے پہلے بھی آٹھ سال تک امریکہ سے جنگ لڑی ہے۔جب کوئی قوم اپنی درست سمت کا تعین کر لیتی ہے تو گہری سے گہری چوٹ انہیں کمزور نہیں بلکہ طاقت ور ترین قوم بنا کر اٹھا دیتی ہے۔ایران کو امریکا نے بار بار گہری ضرب لگائیں ہیں،مگر ایران ہر بار امریکی چوٹ سے کمزور نہیں بلکہ طاقت ور بنا۔

آج اسے امریکا سے کوئی خوف،خطرہ یا دھچکا نہیں ہے۔ہاں امریکا کو ایران سے خوف اور خطرہ ہے،یہی وجہ ہے کہ ایران نے امریکا کو بھاری نقصان سے دوچار کیا ہے۔جنرل قاسم کے قتل کا بدلہ بھی امریکا کو بہت بھاری پڑا ہے۔عراق میں امریکا کے اڈوں پر مسلسل حملے ایران کا پلہ بھاری دکھاتے ہیں۔ایران کا امریکا سے عراق سے اپنی افواج کے انخلا کا مطالبہ غلط نہیں ہے۔امریکا نے عراق کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔

پہلے آٹھ سال تک ایران، عراق کو ’’پراکسی وار‘‘ میں الجھا کر برباد کیا،پھر وسیع پیمانے پر نیوکلیئر ہتھیار رکھنے کے الزام عائد کرتے ہوئے نیٹو اتحادیوں کے ساتھ عراق پر ہی حملہ کر دیا اوراپنے ہی صدام حسین کو عبرت کا نشان بنا کر قتل کر دیا اور وہاں سے کسی قسم کے نیو کلیئر ہتھیار بھی نہیں ملے۔بعد ازاں عراق پر الزام پر برطانیہ اور امریکا کو معافی مانگنا پڑی ۔یہ معافی تو نقصان کا مداوا نہیں کر سکتی ۔

ایران پہلے ہی مشکل حالات سے نبٹنے کا عادی ہے۔لیکن کیا امریکا جس مشکل میں پھنس چکا ہے،اگر اس صورت میں ایران کوئی رد عمل دیتا ہے تو امریکا اسے سہہ پائے گا؟افغانستان کی اندرونی کہانی سے ایران با خوبی آشنا ہے کہ افغانستان میں امریکا کو کیسے پسپائی کا سامنا ہے۔وہاں اپنی بنائی ہوئی حکومت انہیں آنکھیں دکھا رہی ہے۔اسی لئے پاکستان کوامریکا کے ساتھ اپنی خارجہ پالیسی پرنظر ثانی کرتے رہنا چاہیے ۔

آج بھی عوام کی اکثریت پاکستان کے زوال کا سبب امریکا کو سمجھتی ہے۔کیوں کہ پاکستان میں حکومتیں اور اسٹیبلشمنٹ امریکی پالیسیز پر چلتی رہی ہیں ۔امریکا کے مفادات کے لئے پاکستان کو برباد کر دیا گیا،آج بھی انہیں کے مفادات کی جنگ لڑی جا رہی ہے۔آج عوام بہت بڑے بحران سے گزر رہی ہے ۔یہاں عوامی ردِ عمل غیرمعمولی ہو سکتا ہے۔کیوں کہ ہمارا معاشرے کو نظم و ضبط والا نہیں بنایا جا سکا۔

جن سیاسی جماعتوں نے نظم و ضبط سکھانا تھا وہ خودمتحد منظم اور مستحکم نہیں ہیں ۔جاگیردارانہ سوچ اور خاکی کے ہتھے چڑھی سیاسی قیادتیں عوام کو کیا سنبھالیں گی ۔اس لئے ان حالات میں شدید ردِ عمل آئے گا،جسے روکنا نا ممکن ہو گا۔اس لئے موجودہ صورت حال میں پرانی رنجشوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستان کی سیاسی پارٹیوں میں جمہوری رویوں کی کمی ان کاعوام کی جڑوں تک رسائی نہ ہونے کے نقصانات سامنے نظر آ رہے ہیں۔

عوام پریشانیوں اور محرومیوں سے تھکاوٹ کا شکار ہیں،ان کے اعضا مکمل طور پر تھکن زدہ ہیں ۔یہ مقتدر اداروں اور حکمرانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے ۔عوام کو دبانے اور ان پر جبر کی خواہش ترک کی جائے،عوام کے حق میں بہتر فیصلے کیے جائیں ،عوام پر زبردستی اور ظلم کی بجائے ان کے دل جیتنے کی کوشش کی جائے۔عوام کو حقیقت بیان کی جائے ،کیوں کہ بے خبری اور غلط بیانی نے لوگوں میں نفرتیں اورانہیں ذہنی مریض بنا کر رکھ دیا ہے ۔آج بھی عوام بے بسی کی تصویر بنی بیٹھی ہے ،انہیں راستہ دکھانے اور منظم کرنے والا اور دشمنوں سے بچانے والا کوئی نہیں ہے۔

جاگیردارانہ ذہن رکھنے والے حکمران کو اپنے رویوں اور پالیسیوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔آج مذاق اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ اور عوام کو اپنے قابو میں کرنے کا وقت نہیں بلکہ اس تاریخی موقع پر حکمران ،سیاستدان اور مخیرحضرات شاندار اور یادگار کردار ادا کریں ،لیکن اس تشویش ناک حالات میں بھی اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے باخبر رہنے کی ضرورت ہے۔آنکھیں چاروجانب دیکھ رہی ہوں اور دماغ حاضر رہے۔

جواب چھوڑ دیں