انسانیت منتظر ہے

ستاروں پہ کمندیں ڈالنے اور مستقبل میں سو سال آگے سوچنے والا انسان دنیا کے بازار میں اچانک نمودار ہونے والے جرثومے کے سامنے بے بسی سے ہاتھ مل رہا ہے،نہ رکنے اور نہ تھمنے والی ترقیوں کی چکاچوند میں سینہ چوڑا کرکےچلتا ہوا انسان آج تنہائی میں بیٹھا گزرے کل کا حساب لگا رہا ہے،ایسا معلوم ہو رہا ہے ،تازہ سیاہ تار کول کی چمکتی سڑک پر سرپٹ دوڑتا ہوا انسان اچانک ٹھوکر کھا کر منہ کے بل آ گرا ہواور انگشت بدندا ں ہو کہ یہ 5Gٹیکنالوجی میں قدم رکھتے رکھتے اچانک اس کا پیر وبائی بارودی سرنگ پر پڑ گیا ہے جس کی تباہی کو روکنا اس کے بس میں نہیں۔

زمین کا سبزہ انسان کے چھوئے بنا بھی لہلہا رہا ہے،شوریدہ سر دریاؤں سے گنگناتی ہوئی ندیاں وادیوں کو اسی طرح سیراب کر رہی ہیں،زمانے کے سارے سردوگرم موسم خطہء ارض پر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں،اور ان سب کے بیچوں بیچ بس ایک انسان ہے جو سہما ہوا ہے،کیمرہ اسکرینوں پر سپرپاورز رہنما اپنے آنسو پونچھ رہے ہیں،مرضیاں چلانے ،من مانیاں کرنے اورزمین کو فساد سے بھر دینے کے بعد آج ہر طرف ایک آہ و بکا کا منظر ہے،خلق خدا آج سراپا سوال اور دست بدعا ہے اپنے خالق کے حضور شرمندہ اور ہاتھ پھیلائے نظریں اس کی رحمت اور “کن “کی منتظر ہیں۔

ہر رنگ اور مذہب کو ماننے والے آج خالق سے مدد کے سوالی ہیں،کیا ظالم کیا مظلوم ،کیا امیر کیا غریب،کیا حاکم کیا محکوم، کیا توانا کیا کمزور ،کیا حسین کیا بدصورت ،کیا نفیس کیا چمار ،کیا تاجر کیا مزدور،کیا آقا کیا غلام ،کیا مالک کیا نوکر سب اس چھوٹی قیامت کے مظاہرے سے لرزاں و ترساں ہیں ،آج بازاروںمیں اجناس کی سیلیں مک گئی،ڈیلیں اور خوشیاں منسوخ و ویران ہیں،انسان کا ذوق لباس و خوش خوراکی کے دن گویا پن گئے،آج انسان مڑ کر سوچ رہا ہےآخر پیچھے کیا غلطی ہوئی ہے،اپنی موج میں اس نے کیا کچھ روند ڈالا کہ زمین کا نظام درہم برہم ہو گیا ،گردش ایام کی باگیں جس رب کے ہاتھوں میں ہیں،اسی نے آخر اس ننھی مخلوق کو بھی پیدا کر کے انسانیت کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے ۔

غلطی،پچھتاوے اور ازالے کے بیچ تڑپتی انسانیت دست سوال دراز کرتی ہے ۔۔۔ہے کوئی ایسا جو اسے رب سے ملا دے ۔۔نظام ہستی چلانے والے ۔۔خیر وشر کی کشمکش کا فیصلہ کن موڑ بنانے والے خالق کی جانب رخ موڑ دے ،سسکتی انسانیت کے زخموں پر حیات کا مرہم رکھنے والے کا تعارف پیش کرے , کون ہے جو مخلوق کو خالق سے ملا دے ،اس کے صحیفے قرآن کی تعلیمات کو کھول کر انسانیت کے سامنے پیش کر دے ۔۔یہی ہے راہ نجات غم والم اور اس کے ذکر سے ہے بیمار انسانیت کے لئے شفا ء کاملہ..۔

جواب چھوڑ دیں