تم ڈوبتی کشتی کے نزدیک نہ آجانا

اس وقت کورونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا پر خوف و ہراس طاری ہے۔ ہر کسی کو یہ ڈر ہے کہ کہیں یہ مرض مجھ کو یا میرے گھر والوں کو نہ ہو جائے۔ اللّٰہ ہم سب کو تمام موذی امراض سے اپنی پناہ میں رکھے،… آمین۔میں بھی آپ کی طرح آجکل اسی مرض سے متعلق گفتگو اور میسجز دیکھ رہی ہوں۔اس کے پھیلاؤ کے لیے ہر ایک یہی بتا رہا ہے کہ یہ ایک مریض سے دوسرے صحت مند انسان کو لگتا ہے۔ جس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کون اس سے متاثر ہے۔ اس لیے سب کو یہ مشورہ دیا جا رہا ہے کہ کسی سے نہ ملو اور کہیں نہ جاؤ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مومن محتاط ہوتا ہے اور ہر خطرے سے نمٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ اور احتیاط کرنی چاہیے۔لیکن اس وقت جو کیفیت پوری قوم کی ہے، وہ میرے ذہن کو مسلسل جھنجھوڑ رہی ہے کہ ہم کدھر جا رہے ہیں؟؟؟اس سلسلے میں تمام سرچ انجنز ایک ہی بات دہرا رہے ہیں۔ بیشتر علماء بھی یہی رائے دے رہے ہیں کہ ایک دوسرے سے دور رہو۔ اور اس کے لیے حضرت عمر رض کی مثال دیتے ہیں جب کہ وہ ملک شام سے لوٹ آئے طاعون کی وبا کی وجہ سے۔

یقیناً انہوں نے درست کام کیا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق کیا تھا۔ لیکن اس سے نہ تو اس طرح کے قرنطینہ کے لیے کوئی جواز نکلتا ہے جو کہ ہمیں مغرب سکھاتا ہے۔ اور نہ ہی ان کا یہ عمل نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری حدیث سے ٹکراتا ہے۔ جس میں کسی بیماری کے چھوت نہ ہونے کے بارے میں کہا گیا ہے۔میں ایک ہومیوپیتھ ڈاکٹر ہوں اور جب میں پڑھ رہی تھی اس وقت ہماری ایک استاد نے بتایا تھا کہ لگنے والی کوئی بیماری نہیں ہوتی اور اس کو مثالوں سے سمجھایا تھا۔

پھر بعد میں میَں نے ایک جگہ ایک حدیث پڑھی اسی سے متعلق، مگر بہت زیادہ کوئی معلومات نہیں تھیں میرے پاس۔موجودہ حالات میں یہ بات مجھے مسلسل مجبور کر رہی تھی کہ میں اس کے بارے میں تحقیق کروں۔ لہٰذا میں نے صحیح بخآری میں تلاش کیا اور اس نیت کے ساتھ کیا کہ اے اللہ ! میری راہنمائی فرمائیے۔ اگر میں غلط ہوں تو مجھے سیدھے راستے پر ڈال دیں اور درست ہوں تو دوسروں کے نظریات کو درست کرنے والا بنا دیجئے۔کتاب الطب کھولتے ہی سب پہلی حدیث جو نظر آئی وہ یہ تھی حدیث نمبر: 5678 ترجمہ:

حضرت ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی بیماری نہیں اتاری جس کی دوا بھی نازل نہ کی ہو۔دل سکون سے بھر گیا۔ پھر یہ نظر آئی حدیث نمبر: 5717 ترجمہ: ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا، امراض میں چھوت چھات، صَفر اور الو کی نحوست کی کوئی اصل نہیں اس پر ایک اعرابی بولا کہ یا رسول اللہ ! پھر میرے اونٹوں کو کیا ہوگیا کہ وہ جب تک ریگستان میں رہتے ہیں تو ہرنوں کی طرح (صاف اور خوب چکنے) رہتے ہیں۔

پھر ان میں ایک خارش والا اونٹ آ جاتا ہے اور ان میں گھس کر انہیں بھی خارش لگا جاتا ہے تو نبی کریم ؐ نے اس پر فرمایا لیکن یہ بتاؤ کہ پہلے اونٹ کو کس نے خارش لگائی تھی؟ اس کی روایت زہری نے ابوسلمہ اور سنان بن سنان کے واسطہ سے کی ہے۔پھر اس کے بعد یکے بعد دیگرے 7 احادیث طاعون سے متعلق ہیں۔مضمون بہت طویل ہوتا جا رہا ہے اس لیے اب میں آپ کو ان احادیث کے نمبر بتانے پر اکتفا کروں گی جن میں چھوت چھات کے حوالے سے ذکر ہے۔حدیث نمبر5753, 5756, 5757, 5770, 5772, 5773, 5775, 5776.

یہ احادیث ظاہر کرتی ہیں کہ لگنے والی کوئی بیماری نہیں ہوتی۔ البتہ اس میں یہ بھی ہدایت ہے کہ صحت مند کو بیمار سے الگ رکھا جائے۔کیونکہ اگر وہ ساتھ رہے گا اور مشیت ایزدی سے بیمار ہو جائے تو لوگ اس وہم میں مبتلا ہو سکتے ہیں کہ بیمار، بیماری پھیلانے کا سبب ہے۔ جہاں تک طاعون زرہ علاقے سے الگ رہنے کا مشورہ ہے وہ اس لیے کہ وہاں چونکہ وبا موجود ہے تو کہیں باہر سے آنے والا اس میں مبتلا نہ ہو جائے۔ باہر جانے کے لیے اس وجہ سے منع ہے کہ اگر تندرست افراد وہاں سے نکل جاتے ہیں تو جو لوگ وہاں بیمار ہیں ان کی تیمارداری کون کرے گا؟

پھر اس میں شہادت کی بشارت بھی دی گئی ہے۔ اسلام ہم کو ذہنی طور پر پرسکون رکھتا ہے۔ وہ ہمیں سکھاتا ہے کہ اگر تم کسی مریض کو چھو لو گے تو ایسا نہیں ہے کہ تم بھی بیمار ہو جاؤ گے۔ جبکہ موجودہ صورت حال ہمیں سکھاتی ہے کہ اگر کسی کو مرتے ہوئے یا تڑپتے ہوئے بھی دیکھو تو دور سے اور جلدی سے گزر جاؤ کہیں تم کسی مصیبت میں مبتلا نہ ہو جاؤ۔ہاں دور سے کھڑے ہو کر اس کی ویڈیوز خوب بناؤ۔۔۔ بس مدد نہ کرنا۔

4 تبصرے

  1. صحیح معلومات۔۔۔اسلام میں انسانیت ہے اور اور یہ غمگسار دین ہے۔ بے شک آحتیاط کریں مگر نفسیاتی نہ ہو جائیں۔ جزاک اللہ

  2. بالکل درست کہا ہے. اگر ایسے ہی کنارہ کشی اختیار کرنے لگے تو مریض کا خیال کون رکھے گا… اس طرح تو صورتحال بہتر ہونے کے بجائے مزید ناساز ہوتی چلی جائے گی. جب بچے بیمار ہو جاتے ہیں تو کیا ان کی تیمارداری کرنے کے بجائے ان کو لاوارث چھوڑ دیا جاتا ہے؟

  3. بے شک درست بات ہے اور اسلام تو دین فطرت ہے ہمیشہ ہر پریشامی کا حل بھی اسی میں ہوتا ہے بہت اچھی تحریر ہے

جواب چھوڑ دیں