بھیانک پہلو

آپ کمال ملاحظہ کریں۔ 2018 میں چین میں ایک ڈرامہ سیریز شروع کیا گیا اس سیریز کا نام “مائی سیکریٹ” تھا اور یہ سیزنز کی صورت میں شروع کیا گیا تھا۔ اس کے پہلے ہی سیزن کی پہلی قسط میں جو 2018 میں نشر کی گئی دکھایا جاتا ہے کہ ڈرامے میں موجود ہیروئن کو “کورونا وائرس” ہو جاتا ہے۔

 ڈاکٹر اس کی ایک رشتے دار کو اس کی میڈیکل رپورٹ تھماتے ہوئے کہتی ہے کہ ہم اس پر مزید تحقیق کر رہے ہیں لیکن یہ تو طے ہے کہ اس کے اندر پائی جانے والی علامات “کورونا وائرس” کی ہی ہیں۔ اسی گفتگو میں ڈاکٹر خاتون کو یہ ہدایت بھی دیتی ہے کہ آپ سب بھی اس سے دور رہنے کی کوشش کریں کیونکہ “کورونا وائرس” ایک سے دوسرے میں منتقل ہوتا ہے اور اس کے پھیلنے کی شرح 90 فیصد تک ہو سکتی ہے۔

 آپ اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات دیکھیں۔ اسی سیزن میں ہیرو بھی ہیروئن کو” گھر پر ہی رہنے” کی تاکید کرتا ہے تاکہ وہ جلد از جلد صحت یاب ہوسکے اور اس کی وجہ سے کسی اور کو  یہ وائرس منتقل نہ ہو جائے۔ اس سارے سیزن میں سب سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک مکالمے کے دوران ہیرو فون پر پر اپنے ساتھی کو بتاتا ہے کہ یہ وائرس انسانی تخلیق کردہ ہے اور اس کا مقصد کسی  پر حملہ کرنا ہے اور جلد ہی ہم اس پر قابو پا لیں گے۔

 یہ بات تو اپنی جگہ پر حقیقت ہے کہ” کورونا وائرس” پچھلی ایک صدی سے اس دنیا میں موجود ہے اور ہم سب بھی سال میں ایک آدھ دفعہ ضرور کورونا کا “شکار” ہو جایا کرتے تھے۔ نزلہ، کھانسی، بخار اور گلے میں سوزش موسم کی تبدیلی کے ساتھ ہر انسان کو سال میں ایک آدھ بار ضرور ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ تقریبا 70، 80 سال سے ڈیٹول کی پچھلی طرف واضح الفاظ میں لکھا ہوتا ہے کہ یہ “کورون”ا کیلئے بھی مفید ہے۔

کورونا وائرس کی موجودہ شکل جس کو سائنسدانوں نے  “نوول کورونا”  کا نام دیا ہے اور جس کے اندر پھیلاؤ کی شرح 90 فیصد تک ہو سکتی ہے، اس کا پہلا مریض جنوری 2020 میں چین میں ہی دریافت ہوا اور 23 جنوری سے چین نے یوہان میں کلی اور پورے ملک میں جزوی لوک ڈاؤن کرکے اس وبا پر قابو پا لیا۔

یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ دنیا میں بیماریاں تین قسم کی ہوتی ہیں: بیماریوں کی پہلی قسم وہ ہے جو آسمان سے نازل کی گئی ہیں اور ان بیماریوں کے لئے اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دنیا میں کوئی بیماری ایسی نہیں جس کا علاج اس کے ساتھ ہی زمین پر نہ اتار دیا گیا ہو۔  بیماریوں کی دوسری قسم وہ ہے جو انسانوں کی “غیرفطری” حرکتوں کے نتیجے میں وجود میں آ گئی ہے جن میں سرفہرست “ایڈز” ہے۔ انسان فطرت سے “پنگا” لیا اور اس کے نتیجے میں ایک بیماری وجود میں آ گئی۔

اب انسانوں نے اس بیماری سے “لڑنے” اور اس میں مبتلا لوگوں سے ہمدردی رکھنے کے لیے باقاعدہ دن منانا شروع کر دیا اور میڈیا کیمپین بھی لانچ کر دی، باقاعدہ اشتہارات کے ذریعے اس کی آگاہی مہم بھی شروع کر دی گئی لیکن بہرحال یہ جس “غیر فطری” رشتے کے نتیجے میں ہوتی ہے اس کے لیے راوی خاموش ہے اور چین ہی چین لکھتا ہے اور اب ضروری نہیں ہے کہ یہ بیماری کسی غیر فطری رشتے کی ہی وجہ سے وجود میں آئےبلکہ اب تو گہیوں کے چکر میں گھن بھی ساتھ ہی پس رہا ہے۔

 بہرحال انسانی بیماریوں کی تیسری قسم وہ ہے جو انسان  نے خود کو خدائی کا دعویدار اور ساری کائنات کے نظام کو چلانے اور روکنے کی غلط فہمی کا شکار ہوکر خود سے ایجاد کی ہیں۔ انسان کے انہیں لامحدود اختیارات اور قوتوں کی وجہ سے ہی فرشتوں نے اللہ سے عرض کی تھی کہ “کیا آپ زمین میں ایسی مخلوق بنانے والے ہیں جو زمین میں فساد برپا کرے گی اور خون بہائے گی؟” انسان نے اپنے اسی خدائی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے کسی موجودہ وائرس اور بیماری میں کچھ مزید ترامیم اور چھیڑ چھاڑ کر کے ایسی ہی کوئی بیماری ایجاد کی ہےجس کا نام “نوول کورونا وائرس” دے دیا گیا ہے۔

اہم سوال تو یہ ہے کی آخر کس نے اور کیوں ایسا کیا؟رابرٹ کیوسکی  نے اپنی کتاب “فیک” میں بہت تفصیل کے ساتھ “مینڈرکس میجکل شو” کا ذکر کیا ہے۔ مینڈرکس وہ شخص تھا جو جادو کی دنیا میں چیزوں کو کچھ کا کچھ کر کے دکھاتا تھا ایڈورڈ گلفن نے اپنی کتاب میں موجودہ نظام معیشت کو “مینڈرکس میکنزم” کہا  تھا  اور اسی کو رابرٹ نے ہر جگہ “میجکل شو” لکھا ہے۔ اپنی اسی کتاب کے صفحہ نمبر 103 میں وہ لکھتا ہے کہ غربت میں اضافہ، شرح سود میں بڑھوتری اور ڈالر میں اتار چڑھاؤ اس نظام کی بقاء ہے، جب تک غربت میں اضافہ ہوتا رہے گا اور دنیا کی معیشت اسی نظام کے مطابق چلے گی تب تک یہ “شو” چلے گا اور جس دن دنیا سے غربت ختم ہوگئی یہ “شو” بھی ختم ہو جائے گا۔

عین ممکن ہے کہ اس وائرس کے خالق وہی لوگ ہوں جو اس دنیا کو مزید غربت کا شکار دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس وائرس اور اس کے خوف کے نتیجے میں بڑے ممالک تو شاید سروائیو کر جائیں لیکن ترقی پذیر اور معاشی لحاظ سے کمزور ممالک مزید ان اداروں کے محتاج ہوجائیں گے۔ صرف پچھلے دو دنوں میں ڈالر کا ریٹ 8 روپے تک بڑھ چکا ہے، اور سونا فی تولہ 1600 سے 1800تک اوپر پہنچ گیا۔ ہم جیسے ممالک  “کورونا” کے نام پر مزید قرضے لینے کے لیے تیار بیٹھے ہیں جبکہ پچھلے قرضوں میں بھی ہر ڈالر پر 8 روپے بڑھ چکے ہیں۔

 ہوسکتا ہے یہ وائرس بڑی قوتوں کی آپس میں چپقلش کا نتیجہ ہو یہ بھی ممکن ہے یہ کسی تجربے کا غلطی سے بےقابو ہوجانے یا حد سے زیادہ بڑھ جانے کا نتیجہ بھی  ہو سکتا۔ بہرحال جو بھی ہے اب اس کے اثرات صرف معیشت تک محدود نہیں رہیں گے، بلکہ انسانوں کے ایک دوسرے سے فاصلوں تک بھی جائیں گے۔ سماجی رابطوں کا جو خوف لوگوں میں بیٹھ چکا ہے وہ اتنی آرام سے ختم نہیں ہوگا، لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملانے سے لےکر تعلق استوار کرنے تک 100 مرتبہ سوچیں گے اور اس مادہ پرستانہ دنیا میں انسانوں کا ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح زندگی  گزارنا اس دنیا  کورہنے کے قابل جگہ بنانے میں مزید مشکلات پیدا کر دے گا اور ہم چاہیں یا نہ چاہیں ایک دوسرے سے دوریاں پیدا کرنے پر مجبور ہوں گے اور یہ پہلو اس وائرس کا معاشی تباہی سے زیادہ خطرناک اور بھیانک پہلو ہو گا۔

جواب چھوڑ دیں