کورونا اور پاکستانی عوام

ہمارے آفس میں میرے ایک دوست نے کہا کہ میری دعا ہے کہ کورونا وائرس پاکستان آجائے، اسے اتفاق کہیے کہ اگلے دن ہی ایک کیس پاکستان میں رپورٹ ہوا۔ ہم نے کہا کہ ایسا کیوں تو کہنے لگے کہ جو چیز پاکستان میں آجائے وہ ختم ہوجاتی ہے، پاکستانی عوام خود ایک کورونا ہیں۔

خیر یہ تو پاکستانی قوم کے بارے میں بننے والے تاثر کی بات تھی جو اس کے لاابالی پن کی وجہ سے بن گیا ہے۔ لیکن چار و ناچار اس بات سے اتفاق کرنا پڑے گا کہ دنیا میں جہاں بھی کورونا گیا بڑی تیزی سے پھیلا۔ اس کی بنیادی وجہ لوگوں میں خوف ہے، جس کی وجہ سے اموات ہوگئی ہیں، ظاہر سی بات ہے جب آپ کسی فرد کے سامنے صبح شام باربار ایک ہی چیز کو لائیں گے یا سنائیں گے تو وہ نفسیاتی طورپراس چیز کو اپنے دل و دماغ اور اپنے حواس پر حاوی کرلے گا۔

ہمارا میڈیا ایک ایجنڈے کے تحت ہر گھڑی چیخ چیخ کر بار بار یہ باور کرا رہا ہے کہ آپ کو اگر چھنک آجائے تو ہوسکتا ہے کہ آپ کو کورونا ہوگیا ہو، آپ کو بخار ہوگیا ہے تو ہوسکتا ہے آپ کوکرونا ہوگیا ہے۔

یہ ہی بخار، یہ ہی چھینک پاکستانی عوام کو اس سے پہلے بھی معمول کے مطابق آتی تھیں ، کیونکہ ہمارے شہر میں ماحول اتنا اعلی ہے، اتنا صاف ستھرا ہے کہ ہر بندہ ہی آگاہ ہے، ٹوٹی سڑکیں، ابلتے گٹر اور اگر کوئی شخص پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرتاہے تو وہ بخوبی واقف ہوگا کہ ٹوٹی پھوٹی بسیں اور ان میں بیٹھ کر چند منٹ کا سفر ایک ایک گھنٹے کا ہوجاتاہے۔ بات کہاں سے کہاں نکل آئی۔

اب اگرایک آدھ چھینک زیادہ آجائے یا بخار کا ٹیمپریچر زیادہ ہوجائے تو فوراً ایک ہی خیال آتاہے کہ کورونا ہوگیا ہے اور آس پاس کے افراد بھی فواً دور بھاگنے لگتے ہیں ان تمام حرکتوں کے باوجود لوگ وبا کے ڈر سے مریں گے نہیں تو کیا صحت یاب ہونگے؟

کورونا وائرس مانا ایک خطرناک بیماری ہے ،لیکن ہم بحیثیت مسلم اس بات سے آگاہ ہیں کہ ہر بیماری اللہ ہی دیتا ہے اور اس کے بعد وہی شفا بھی دیتاہے،کروناوائرس سے بچنے کے لیے ہر انسان کو حفظان صحت کے اصولوں (جوکہ قرآن و سنت ہی سے ماخوذ ہیں) کے مطابق احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہییں۔

حکومت کو جو کام کرنے چاہییں وہ کرنے سے قاصر ہے۔ سکھر میں ایک قرنطینہ قائم کیا جہاں کورونا متاثرین کو سہولیات فراہم کرنے کے بجائے شہر کو لاک ڈاؤن کیا گیا۔ اجتماعی طور پر استغفار کی محفل منعقد کرنے کے بجائے ،مساجد کو بند کرنے کی بات کی گئی ، جبکہ مسجد سے زیادہ پاک جگہ تو قرنطینہ بھی نہیں اور نہ ہی وہ آئسولیشن سینٹر جو ایکسپو میں قائم کیا گیا۔

مسجد ہی وہ دنیا میں واحد جگہ ہے جہاں انسان کا لباس بھی صاف ہوتاہے، جسم بھی صاف ہوتاہے، اور باطن بھی صاف ہوتاہے۔لیکن افسوس ہمارے حکمرانوں نے ہمیشہ سے ہی اسلامی روایات کو پس پشت ڈال کر تمام اقدامات کیے ہیں، جس کی وجہ سے شاید عارضی فائدہ تو ملاہو، لیکن کچھ وقت کے بعد وہ اقدامات عوام کے لیے ایک ناسور ہی بن کرر ہے۔

اب بھی وقت ہے اگر حکمرانوں نے اللہ کی زمین پر اللہ کے قوانین کے مطابق نظام قائم نہیں کیا تو وہ دن دور نہیں کہ جب ہر انسان ایک دوسرے کا دشمن ہوجائے گا۔ گنتی کے وہ چند ہی افراد ہونگے جو کہ دین پر چل کر دونوں جہان میں سرخرو ہونگے۔

جواب چھوڑ دیں