کروناوائرس اورہمارے حکمران 

 مریض کے ہوش میں آنے کے بعدڈاکٹرنے مریض کومخاطب کرتے ہوئے کہا۔میرے پاس تمہارے لئے بیک وقت دوخبریں ہیں مگرمجھے افسوس ہے کہ ایک خبربری ہے اوردوسری اچھی۔۔یہ سنتے ہی مریض بڑے اشتیاق کے ساتھ ڈاکٹرکی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔پہلے بری خبرسنائو۔ڈاکٹرنے کہاکہ بری خبریہ ہے کہ حادثے میں تمہاری دونوں ٹانگیں کٹ گئی ہیں کوشش کے باوجودہم تمہاری ٹانگوں کوکٹنے سے نہیں بچاسکے۔یہ سنتے ہی مریض کے چہرے کارنگ بدلااب اس نے حسرت سے ڈاکٹرکی طرف دیکھناشروع کردیا۔

کچھ دیرخاموش رہنے کے بعدوہ پھرآہستہ سے دکھی لہجے میں بولا۔ڈاکٹرصاحب اچھی خبرکیاہے۔۔؟اچھی خبریہ ہے ،،ڈاکٹرنے جواب دیا،،میں تمہارے جوتے خریدنے کے لئے تیارہوں ۔پورے ملک میں ایک طرف کروناوائرس کی دہشت،خوف ،راج اوردوسری جانب حکومت کی نااہلی ،غفلت،لاپروائی اورخشک نعروں ودعوئوں کودیکھ کرلگتاہے کہ اس ڈاکٹرکی طرح ہمارے یہ حکمران بھی کہیں اس قوم کو،،ایک اچھی اوردوسری بری،،خبر سنانے کی تیاری اورپریکٹس کررہے ہیں ۔پورے ملک میں کروناوائرس نے دہشت پھیلادی ہے۔

تفریحی مقامات،گیسٹ ہائوسز،شادی ہالز،سکول،کالجز،یونیورسٹیزاوردینی مدارس کی بندش کے ساتھ سرکاری دفاتر،بازاروں اورمساجدمیں بھی ہوکاعالم ہے مگراس کے باوجودہمارے حکمران ٹس سے مس نہیں ہورہے۔کروناوائرس کے خلاف ہمارے اقدامات اورتیاریاں ابھی تک ،،چوہوں کی مجلس،،سے آگے نہیں بڑھ سکی ہیں۔کروناکے خلاف سرکاری مجلسوں،محفلوں اوربیٹھکوں کاآغازتوغالباًپندرہ جنوری سے ہوالیکن کروناکے گلے میں گھنٹی کون باندھے۔۔؟یاکس طرح باندھے۔۔؟اس بارے میں ابھی تک کوئی خاص فیصلہ ہوااورنہ ہی کوئی ٹھوس لائحہ عمل سامنے آسکاہے۔

حکمران ایک طرف سینہ چوڑاکرکے کہتے ہیں کہ کروناکے خلاف ہماری تیاریاں مکمل ہیں ہم نے پیشگی تمام تراقدامات اٹھائے ہیں لیکن دوسری طرف حالت یہ ہے کہ سوائے افراتفری،شورشرابہ اورعوام میں دہشت وخوف پھیلانے کے ملک میں کروناوائرس کی روک تھام کے لئے قدم تودورکوئی چھوٹاساپتھربھی نہیں اٹھایاگیاہے۔چاہیئے تویہ تھاکہ جن راستوں اوربلوں سے کروناوائرس کے نکلنے کے چانسزتھے ان راستوں کومکمل طورپرسیل اوربلوں کوسیسہ پلائی ہوئی دیوارکی طرح بندکیاجاتامگرافسوس ہم نے کروناکے آگے کوئی بندباندھنے کی بجائے اس کے لئے پاک افغان بارڈرسے لیکرایران بارڈرتک سارے راستے واہ کردیئے۔

ان راستوں سے اب تک کروناسے متاثرہ درجنوں اورسینکڑوں لوگ نہ صرف اس ملک کے کونے کونے میں داخل ہوچکے ہیں بلکہ   یہ سلسلہ آج بھی زوروشورکے ساتھ جاری ہے۔افغانستان اورایران کے لئے ہمدردیاں اپنی جگہ لیکن اپنے عوام کی حفاظت بھی کوئی چیزہے۔چندسولوگوں کی خاطر22کروڑعوام کی زندگیوں کودائوپرلگانا یہ کوئی عقلمندی ہے اورنہ ہی یہ کوئی ثواب کاکام ہے ۔ملک کوریاست مدینہ بنانے کے دعوے کرنے والے کیااس قسم کے حالات ،وباء اوربیماریوں کے بارے میں سرکاردوجہاں حضرت محمد مصطفی ؐ کے ارشادات،فرمودات اورتعلیمات بھول گئے ہیں۔۔؟

تاجدارمدینہ ؐ کافرمان اوراسلامی تعلیمات تویہ ہیں کہ اس قسم کی بیماری جووباء کی صورت اختیارکرجائے اس دوران پھرکوئی شخص وباء والی جگہ نہ جائے اورجوپہلے سے وباء کی جگہ پرموجودہوںوہ پھروہاں سے نکلے نا۔مگریہاں تومعاملہ ہی الٹ ہے یاہم نے خود الٹ کردیاہے۔زبان سے تواٹھتے بیٹھتے نعرے ہم ریاست مدینہ کے لگارہے ہیں ۔عشق مصطفی کے دعوئوں میں بھی ہم کسی سے پیچھے نہیں لیکن کام اوراعمال ہمارے نہ صرف سنت رسول ﷺکے سراسرخلاف ہے بلکہ یہ ریاست مدینہ سے بھی ذرہ بھی مطابقت نہیں رکھتے۔

چین کے بعدایران میں وباء پھوٹنے کے بعدبڑی بڑی گاڑیاں بھرکردرجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں کے حساب سے کروناوائرس سے متاثرہ افراداس ملک میں کس نے لائے۔۔؟یااب انہیں اس ملک میں کون لارہاہے۔۔؟ہرچیزکاایک طریقہ ہوتاہے مگرافسوس ہمارے ہاں طریقوں شریقوں والاتوکوئی رواج ہی نہیں۔ایران یاکروناسے متاثردیگرممالک سے اگراپنے شہریوں اورزائرین کولانابھی تھاتوکم ازکم ان کولانے سے پہلے ان کے لئے یہاں کوئی انتظامات توکئے جاتے۔مگرایساکسی نے کیااورنہ ہی کسی نے اس کے بارے میں سوچنے کی کوئی زحمت گوارہ کی۔

ایران سے آنے والے زائرین کودھڑادھڑابغیرکسی حفاظتی انتظامات کے تفتان سے گاڑیوں میں بھرکراس طرح ملک کے کونے کونے میں پہنچایاگیاجس طرح پورے ملک میں کہیں کروناوائرس تقسیم کرناکوئی فرض بن گیاہو۔زندگی اورموت تواللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ہمیں اس تلخ حقیقت سے نہ پہلے انکارتھانہ اب ہمیں اس کے بارے میں ذرہ بھی کوئی شک ہے لیکن جولوگ میڈیاسوشل میڈیااوراٹھتے بیٹھتے حفاظتی تدابیرکے نام پرچیختے ،چلاتے ہوئے نہیں تھکتے ایسے لوگوں کوپاک ایران بارڈرسے آنے والی گاڑیوں پرایک نظر ضرورڈالنی چاہیئے۔

نااہلی،غفلت اورلاپرواہی کی بھی آخرایک حدہوتی ہے لیکن کروناوائرس کے خلاف جنگ میں نااہلی،غفلت اورلاپرواہی کی بھی ہم نے کوئی حدنہیں چھوڑی ہے ۔مشکل کی اس گھڑی میں جنہوں نے قوم کے زخموں پرمرہم اورکروناکے خوف ودہشت سے کانپتے ولرزتے بدنوں کوحوصلہ دیناتھاانہوں نے ہی قوم کی پریشانیوں اورمشکلات میں اضافے کاسامان فراہم کرناشروع کردیاہے۔ایک طرف کروناکی وباء کے باعث شہروں اوراضلاع کولاک ڈائون کرنے کی باتیں ہورہی ہیں دوسری طرف حال یہ ہے کہ ابھی تک ملک کوباہرسے لاک ڈائون نہیں کیاجاسکاہے۔

بارڈرآج بھی کھلے ہیں،ایران اورافغانستان سے لوگ اب بھی آرہے ہیں ،بارڈرپرکروناوائرس سے بچائوکے لئے حفاظتی انتظامات اواقدامات کیاہیں۔۔؟ وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ایک طرف رونارویاجارہاہے کہ ہمارے پاس وسائل نہیں دوسری طرف مفت میں مسائل پرمسائل کوگلے لگایاجارہاہے۔کروناوائرس اگراتناخطرناک اوروسائل ہمارے پاس نہیں توپھرایران میں وباء پھوٹنے کے بعدگاڑیاں بھربھرکرزائرین کوواپس لانے اورپورے ملک میں تقسیم کرنے کی کیاضرورت تھی ۔۔؟ان زائرین کوحفاظتی نقطہ نظرسے بارڈرکے قریب یاآبادیوں سے دوربھی توکہیں رکھاجاسکتاتھا۔

حکمران اس معاملے میں مخلص اورواقعی سنجیدہ ہوتے توملک سے باہرجانے والے شہریوں اورزائرین کے لئے اس طرح کے انتظامات ہرگزکوئی مشکل نہیں تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کوزبانی تیرچلانے کے سواکسی چیزکی کوئی فکرہی نہیں۔اب ہماری اپنی ان غلطیوں اورکوتاہیوں کی وجہ سے آج کروناکے متاثرین پورے ملک میں پھیل چکے ہیں ۔حکمران توسنگ مرمرسے بنے محلات میں خراٹے مارلیں

گے لیکن جھونپڑیوں میں رہنے والے غریبوں کااب کیاہوگا۔۔؟

سرکاری ہسپتالوں میں توعام بیماریوں کا علاج بھی مشکل سے ہوتاہے پھریہ بے چارے کروناوائرس کے مریض کہاں جائیں گے۔۔؟حکومت کے ان زبانی اقدامات اورانتظامات سے یوں معلوم ہورہاہے کہ ہمارے حکمران بھی اس ڈاکٹرکی طرح بہت جلداس قوم کے سرہانے کھڑے ہوکرانہیں خوشخبری سنائیں گے کہ ہمارے پاس آپ کے لئے دوخبریں ہیں ۔ایک ا چھی اوردوسری بری۔یہ بھولی بھالی اوربدقسمت قوم بھی اس مریض کی طرح پھر کہے گی کہ پہلے اچھی خبرسنادیں پھربری ۔

یہ حکمران کہیں گے کہ بری خبریہ ہے کہ کروناوائرس آپ کے کئی علاقوں میں پھیل چکاہے۔کوشش کے باوجودہم کروناوائرس پرقابونہیں پاسکے۔اوراچھی خبریہ ہے کہ ہم آپ کے نام پرباہرکی دنیاسے امدادلینے کے لئے تیارہیں۔یہ جوہاتھ پرہاتھ رکھ کر اپنی تمام ترتوانائیاں صرف کروناکے مریضوں کے گننے پرصرف کررہے ہیں ان کوبس اسی دن کاانتظارہے کہ کب وہ دن آئے گاجب یہ اس قوم کو ،،ایک اچھی اوردوسری بری ،،خبروالی یہ خوشخبری سنائیں گے۔

جواب چھوڑ دیں