ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ قرآن میں بیان کیا گیا وہ زمانہ ابھی بہت دور ہے، آنے والا ہے یا بس آہی گیا ہے جب ایک “زمینی” جانور زمین سے نکل کر انسانی آواز میں اللہ کا پیغام سنا کر انسانوں پر اللہ کی حجت تمام کرے گا اور اس کے بعد ایک صور کی آواز پوری کائینات کو روئی کے گالوں میں تبدیل کر کے رکھ دے۔
گی لیکن موجودہ صورت حال اور “کورونا” کے خوف و دہشت کے پیشِ نظر دنیا اپنے بچاؤ کے جو اسباب کر رہی ہے وہ ضرور یہ کہتے نظر آ رہے کہ اب عذاب کی صورت میں ظاہر ہونے والے “وئیرس” بھی نہایت تعلیم یافتہ، مہذب، پڑھے لکھے، علم والے اور دنیا پھر کے آئین و قانون کے پاسدار بن کر پوری دنیا کے تمام سول ایوی ایشن کے قوائد و ضوابط کا خیال رکھتے ہوئے جس ملک میں بھی داخل ہوتے ہیں وہاں کے پاسپورٹ اور ویزے کے قوانین کی تمام قانونی شرائط پوری کرنے کے بعد ہی داخل ہوتے ہیں۔
اگر کوئی ملک انھیں پاسپورٹ اور ویزا جاری کرنے سے انکار کردے یا جاری کرنے کے سلسلے میں لیت و لعل سے کام لے تو پھر یہ انسانوں، ان کے لباسوں، جہازوں کی گدیوں، جسموں اور ہر قسم کی قدرتی یا مصنوعی اشیا کی دوش پر سوار ہوکر کسی بھی ملک کی سرحدوں میں داخل ہو کر تباہی و بربادی پھیلانے کیلئے داخل ہو جاتے ہیں۔
بس اسی خوف اور دہشت کی وجہ سے دنیا کے ہر چھوٹے بڑے ملک نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ تمام سرحدیں، خواہ وہ فضائی، بحری یا زمینی ہوں، ان کو بند کردیا جائے تاکہ دنیا کے یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ، پڑھے لکھے، ذہین، سمجھدار، تہذیب یافتہ اور قوانین کے پاسدار وائیرس ان کے اپنے اپنے ممالک میں داخل نہ ہو سکیں اور ملک میں تباہی و بربادی نہ پھیلا سکیں۔
پہلے پہل تو پاکستان اور پاکستان کے اہلِ اختیار و اقتدار اسے ایک مذاق ہی سمجھتے رہے اور نہ صرف ویزے اور پاسپورٹ کا اجرا دھڑا دھڑ کرتے رہے بلکہ خوش آمدید کرتے رہے۔ ویسے بھی ہمارے جتنے بھی اہلِ اقتدار و اختیار ہیں ان کو اگر کسی چیز سے کوئی مطلب ہوتا ہے تو وہ صرف اور صرف “چمک” سے ہوتا ہے۔
“چمک” پر مجھے یاد آیا کہ اپنے بچپن میں ایک مرتبہ مجھے کیماڑی کے راستے منوڑا جانے کا اتفاق ہوا۔ جہاں لانچ روکنے کیلئے “دھکا” بنایا ہوا تھا اسی کے قریب ایک اونچی سی مچان بھی تھی جس پر نو عمر لڑکے نیکر پہنے بیٹھے تھے۔ اس مچان کا ایک رخ سمندر کے ایسے پانی کی جانب تھا جو بہت گہرا لیکن اتنا ٹھہرا ہوا تھا جیسے کسی تالاب کا پانی ہوتا ہے۔ اس پانی کی کافی گہرائی تک دیکھا بھی جا سکتا تھا۔
ابھی میں یہ سب کچھ سمجھنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ ایک صاحب نے ایک “چونی” یعنی 25 پیسے کا ایک سکہ پانی میں پھینکا دیا۔ ان کے سکہ پھینکنے کی دیر تھی کہ کافی بلند مچان پر بیٹھے بچوں میں سے ایک بچے نے سمندر میں چھلانگ لگائی اور سکے کو پانی کی تہہ میں جانے سے قبل ہی پکڑ لایا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ایک “چونی” بھی ایک انسان کے ایک وقت کے کھانے کا بند و بست کرنے کے بعد بھی 6 پیسے بچا لیا کرتی تھی۔
ایک چونی کی “چمک” کیلئے جس طرح مچان پر بیٹھے بچے اپنی زندگیوں کو داؤ پر لگانے سے بھی گریز نہیں کر رہے تھے ٹھیک اسی طرح ہمارے اہلِ اختیار و اقتدار کو کبھی اس سے کوئی غرض نہیں رہی کہ قوم کے بیٹے اور بیٹیوں کی عزت و غیرت کے سودے ہو رہے ہیں یا دھرتی ماں کے دل گردے فروخت کئے جا رہے ہیں، انھیں اگر غرض رہی ہے تو آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی اس “چمک” سے رہی ہے جو پونڈوں اور ڈالروں کی صورت میں ان کی آنکھوں کے سامنے بجلی کی مانند کوندا کرتی ہے۔
دنیا کافی عرصے سے “کورونا” کا رونا رو رہی تھی لیکن پاکستان پی ایس ایل کی دھما چوکڑی میں مصروف تھا اس لئے کہ اس کے پیچھے بھی “چمک” ہی کی کار فرمائیاں کوند رہی تھیں۔ بات جب خلیج کی ریاستوں، ایران سے گزرتی ہوئی “مائی باپ” سعودیہ کے سروں تک آن پہنچی تب بھی پی ایس ایل کی دھما چوکڑی تو بند نہ ہو سکی البتہ ہلڑ بازی کم کرنے کیلئے لونڈوں لپاڑیوں کا میدان میں داخلہ ضرور بند کردیا گیا۔
بات ہو رہی تھی کہ ہم آخر اتنے “زود پشیمان” کیوں واقع ہوئے ہیں۔ جب پانی سر سے بلند ہونے لگتا ہے اس وقت ہمیں کیوں ہوش آتا ہے اور اگر پاکستان میں کسی طبقے یا حکومتوں میں سے کسی صوبے کو کسی معاملے کی سنگینی کا احساس بر وقت ہوجاتا ہے تو ہم اسے ان کی حماقت کیوں خیال کرنے لگتے ہیں۔
اب تک کی تحقیقات کی روشنی میں کورونا پاکستان میں سب سے پہلے براستہ ایران داخل ہوا جب شیعہ زائرین ایران سے پاکستان لوٹے۔ کیا پاکستان اس بات سے غافل تھا کہ کورونا ایران پر حمہ آور ہو چکا ہے اور وہاں کئی اموات بھی واقع ہو چکی ہیں۔ کیا اس صورت میں حفظِ ماتقدم کے طور پر اول تو زائرین کے جانے پر ہی پابندیاں عائد کر دی جانی چاہئیں تھیں ورنہ ان کے واپس آنے پر ان سب کی اسکریننگ کا انتظام کر لیا جانا چاہیے تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت بلوچستان نے کورونا کے خلاف سب سے پہلے تدابیر اختیار کیں اور زائرین کو دونوں جانب روک لئے جانے کا انتظام کیا لیکن ایسا سب کچھ کافی کچھ ہوجانے کے بعد کیا گیا۔ ابھی بلوچستان حکومت کے اس اقدام کو تنقیدی نگاہوں سے دیکھا ہی جارہا تھا کہ سندھ حکومت نے تعلیمی اداروں کے بند کئے جانے کا قدم اٹھا لیا۔
بے شک یہ قدم وفاق کو پسند نہیں آیا اور کہا گیا کہ یہ صوبہ جاتی فیصلہ ہے اس لئے ہم اس پر خاموش ہیں (یعنی خوش نہیں)۔ آج پورے ملک میں “کورونا ایمرجنسی” اس بات کی گواہ ہیں کہ بلوچستان اور سندھ کی تشویش اور ان کے اقدامات نہ صرف بر وقت اور درست تھے بلکہ پورے پاکستان کو اسی قسم کے اقدامات بہت پہلے کر لینے چاہیے تھے۔
معاملہ یقیناً اتنا سنگین رہا ہوگا کہ اس پر غور کرنے کیلئے قومی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کرنا پڑ گیا جس کے فیصلوں کے مطابق “یوم پاکستان کی پریڈ منسوخ کردی گئی ،مغربی سرحدیں اور تمام تعلیمی ادارے بند کرنے کا اعلان کردیا گیا”۔ تفصیل کے مطابق جمعہ کو وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا خصوصی اجلاس ہوا جس میں کورونا وائرس کی صورتحال پر غور کیا گیا اور اس کی روک تھام کے لیے اہم فیصلے کیے گئے۔
اجلاس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اجلاس میں تینوں مسلح افواج کے سراہان ، ڈی جی آئی ایس آئی ، وفاقی وزرا اور سیکرٹریز نے شرکت کی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ایران اور افغانستان کی سرحدیں 2 ہفتوں کے لیے بند رہیں گے۔ پی ایس ایل کے جو میچز لاہور منتقل کیے گئے ہیں ان میں تماشائیوں کو شرکت کی اجازت نہیں ہوگی اور وہ بند اسٹیڈیم میں کرائے جائیں گے۔ قومی سلامتی اجلاس میں ائر پورٹس اور سرحد پر نگرانی کا عمل سخت کرنے جب کہ لاہور، کراچی اور اسلام آباد کے علاوہ باقی ائر پورٹس پر انٹرنیشنل فلائٹس معطل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
میں اس مقام پر تو نہیں جہاں پر کھڑا ہو کر میں وہاں تک دیکھ سکوں جہاں تک بلند و بالا شخصیات، حکومت کے اعلیٰ عہدیداران اور سلامتی کونسل کے ممبران دیکھ سکتے ہیں لیکن پھر بھی اپنی عقل اور بساط کے مطابق میں یہ ضرور کہنے کی جسارت کرونگا کہ میرے نزدیک سر حدوں کی بندش، زمینی، بحری اور فضائی راستوں کو مسدود کرنا اور ہر قسم کی نقل و حرکت اور ترسیلات کو روک دینا کورونا سے بچاؤ کا حل نہیں۔ ابھی کورونا اتنے تمیزدار نہیں ہوئے ہیں کہ وہ سرحدوں کے ان ہی راستوں سے داخل ہوں جن کو ایک دوسرے ملک میں آنے جانے کی سہولیات کیلئے بنایا گیا ہے۔ یہ بد لحاظ وائیرس کہیں سے بھی اور کسی کی دوش پر سوار ہوکر دنیا کے کسی بھی ملک میں داخل ہو سکتے ہیں۔
سرحدیں اور آنے جانے کی راہیں ضرور بند کی جائیں لیکن پابندی صرف انسانوں کے آنے جانے پر لگائی جائے۔ رہا تجارتی سامان کی ترسیل کا معاملہ تو اب تک کی تحقیق کے مطابق اس وائیرس کی زندگی انسانی جسم سے باہر صرف 4 گھنٹوں کی ہے اور یہ بھی کہ یہ 32 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ حرارت برداشت کرنے کے قابل نہیں۔ گویا اگر تجارتی قافلوں اور سامانِ تجارت کو 4 سے 6 گھنٹوں کیلئے روک لیا جائے اور ان کو 40 یا پچاس ڈگری سینٹی گریڈ حرارت سے گزارا جائے تو اس بات کا کوئی بھی امکان باقی نہیں رہ جائے گا کہ یہ سرحدوں کے اِس پار یا اُس پار جا سکے۔
بے شک جو ایمر جنسی نافذ کی گئی ہے وہ ضروری رہی ہوگی لیکن کبھی چھوٹے منھ سے نکلی بات بھی بہت بڑی ہو جایا کرتی ہے اس لئے اگر مجھ ان پڑھ اور کم عقل کی بات پر بھی غور کر لیا جائے تو ممکن ہے کہ جو مکمل سرحدی بندشوں کے سبب معاشی صورت حال ابتری کا شکار ہوتی نظر آ رہی ہے اس کا کوئی حل نکل آئے۔
امید ہے کہ میری اس تجویز پر ضرور غور کیا جائے گا اور ملک کو مزید مشکلات کا شکار کرنے کے بجائے سادہ سی حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کے سلسلے میں کوئی بہتر قدم اٹھا لیا جائے گا۔