کورونا اک سنگین وائرس

صدیوں سے اک کہاوت سنتے آرہے ہیں کہ ” اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت” یہ کہاوت مجھےڈرا رہی ہے کیونکہ اب مجھے بھی احساس ہو رہا ہے کہ مجھے اب تھوڑا گھبرا لینا چاہیے کیونکہ عالمی وبا بننے والا وائرس چین ایران اور اٹلی کے بعد پاکستان میں بھی سامنے آرہا ہے۔

کورونا وائرس کے پیش نظر دنیا بھر میں لاک ڈاؤن ہے، لوگ باہر نہیں نکل رہے، سرحدیں بند کردی گئیں ہیں، فضائی سفر معطل ہے مگر ہمارے ہاں الٹا ہی حساب ہے۔ ہمارے ہاں جہاں کورونا مریضوں کی تعداد 400 سے تجاوز کر گئی ہے۔ اور 3 اموات بھی سامنے آگئی ہیں اس سب صورتحال میں  وزیراعظم کی جانب سے پاک افغان سرحد کھولنےکے اعلانات کیے جا رہے ہیں۔

نیازی صاحب کی وہ غزل یاد آگئی کہ میں ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں۔ لیکن اب کی بار اگر دیر ہوئی تو سوائےنقصان کے کچھ نہ ملے گا۔ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے یہ بیان کہ پاک افغان سرحد تجارت کے لیے اور افغانستان کے عوام کے درد کو سمجھتے ہوئے کھولی جارہی ہے، اچھی بات ہے خان صاحب کو ہمسائے کا خیال رکھنا چاہیے لیکن مدد بھی اس وقت کی جاتی ہے جب آپ خود مدد کرنے کے قابل ہوں، یہاں یہ مثال بالکل صحیح آتی ہے کہ اک آدمی جسے کرنٹ لگ رہاہو اور وہ مدد کو پکار رہا ہے اور آپ اس کی مدد کو فورا  لوہے کا راڈ لے آئے مدد کےلیے کیونکہ آپ کے پاس کچھ اور نہیں تھا۔

آج کی رپوٹ کے مطابق صبح تک کورونا مریضوں کی تعداد 448 تھی، جن میں سندھ 238 کے ساتھ سر فہرست جب کہ بلوچستان 81، پنجاب 80، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں تعداد 24 اور خیبرپختونخوا میں 23 افراد سامنے آئے ہیں۔ مگر شام تک پورے پاکستان میں یہ تعداد بڑھ کر 464 تک پہنچ گئ تھی اور شام تک 16 نئے کیسز سامنے آئے تمام کا تعلق پنجاب سے تھا۔  اور یہ تمام کیسسز زائرین کے تھے۔

پاکستان میں کورونا کے کیسز کی تعداد 15 مارچ تک تو 30 کے قریب تھی، مگر ایک دم سے یہ تعداد 400 سے اوپر جا چکی ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ ہے زائرین کی ایران سے آمد۔ اب ظاہر سی بات ہے پاکستانی زائرین کو ایران سے پاکستان آنا تھا انہیں واپس تو نہیں بھیجا جاسکتا تھا۔ فیصلہ کیا گیا تھا کہ تفتان پہ زائرین کو روکا جائیگا اور وہیں چیک اپ ہوگا اور اس اہم وباء کو اک عام وبا سمجھ رہے تھے، یا حکومتی وسائل ناکافی تھے جو اس مسئلے نے آج بڑوں بڑوں کی بیٹھک لگادی ہے۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز اس بات کا ثبوت ہے کہ تفتان میں زائرین کے لیے قائم قرانٹین انتہائی ناقص حالت میں تھے، جہاں یہ وبا بآسانی دوسروں میں منتقل ہوسکتی تھی۔ آج عورت جو غالباً قرانٹین میں تھیں بلڈنگ سے باہر نکلیں روتی ہوئی چیختی ہوئی کہ یہاں کچھ بھی نہیں ہے میں اس جہنم میں نہیں رہونگی۔

تفتان کے مسئلے کو بھی اگر ان پاکستانی طلبا کی طرح دیکھا جاتا جو چین میں پھنسے ہوئے تھے، تو آج کورونا کیسز قدر کم ہوتے۔ اگرتفتان میں کورونا سے نمٹنے کی سہولیات مہیا کی جاتی جو بے شک کی گئی تھی جس سے انکار ممکن نہیں ہے لیکن ظاہر سی بات ہے کوتاہی ہوئی ہے کبھی تو زائرین کو سکھر اور دوسرے شیروں میں منتقل کیا گیا۔ اگر انتظامات کیے جاتے تو تفتان سے ہی ان افراد کو چھوڑا جاتا جنہیں کورونا نہیں تھا۔ ناکہ آپ بسیں بھر بھر کر شیروں میں لا رہے ہو۔

کراچی ابھی اس طرح متاثر نہیں ہوا ہے جس طرح دنیا کے باقی شہر ہوئے ہیں اور اس اللّٰہ کا شکر ادا کرنا چاہیے لیکن جس طرح کوتاہی پہ کوتاہی کی جارہی ہے صورتحال آنے والے دنوں میں سنگین ہوتی نظر آرہی ہے۔ اور اس تمام صورتحال میں ممکن ہے علاقائی کیسز بھی سامنے آنے لگیں۔ اس وقت کو غنیمت جانیے اور اقدامات کیجیے۔

اقدامات کیا کیجیئے؟ جو اعلان خان صاحب نے کیا ہے پاک افغان سرحد کھولنے کا تجارت کی غرض سے اور عوام کے مفاد میں اس اعلان کو واپس لیجئے۔ افغانستان کے اک اسپتال میں مریض اسپتال سے فرار ہوگیا ہے، یہ خبر خوف پھیلانے کے لیے نہیں دے رہا مگر واقعے کی سنگینی کو سمجھیے اور فیصلہ واپس لیجیے، خدارا  ہم ان ممالک میں شامل نہیں ہیں جہاں لاک ڈاؤن ہونے کے باوجود معیشت مستحکم رہے، او سوچیئے اگر خدا نخواستہ صورت حال لاک ڈاؤن تک کی ہوگی تو پھر بہت مشکل ہو جائے گی۔

بات کی جائے حکومتی سنجیدگی کی تو وزراء کے بیانات سے واضح پتہ چلتا ہے، اک وزیر فرماتی ہیں کہ پیناڈول سے کورونا کو ختم کیا جاسکتا ہے، جبکہ اک اور وزیر نے لاجواب کردیا کہتے ہیں کہ گرم پانی پینے سے کورونا خود بہ خود مرجاتا ہے۔ جبکہ پنجاب کی اک مشہور حکومتی شخصیت معصومانہ سوال کرتی ہیں کہ یہ کورونا کاٹتا کیسے ہے؟ تفتان میں بھی اگر انہیں 42ملین کا بجٹ دے دیتے جو خان صاحب آپ نے اپنی حکومت کے دفاع کیلئے رکھا گیا تھا تو آج کراچی کو لاک ڈاؤن نہ کیا جاتا اور صورتحال اس قدر حساس نہ ہوتی بہر حال اب گے دیکھنا ہے اور اب جاکر کچھ خیال آیا ہے حکومت کو جو ایکسپو سینٹر کراچی کو ہسپتال میں بدلنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور کئ اقدامات کیے جارہےسوال بہت ہیں مگر امید کرتا ہوں خان صاحب کی حکومت تمام سوالات کا جواب سنجیدگی سے کورونا جیسے عالمی مسئلے کا مقابلہ کرکے دیگی اور کامیاب ہوگی۔

               اللّٰہ پاک سے دعا ہے اس وبا سے ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں۔ رکھے اور پاکستان کی حفاظت فرمائے۔

جواب چھوڑ دیں