نیک لوگوں کی صحبت اورہماری قسمت

مولاناروم فرماتے ہیں کہ ،،اللہ کے دوستوں کی قربت اورصحبت سوسال تک بے ریاعبادت سے بہترہے۔کوئی شخص چاہے وہ سخت پتھرہویاسنگ مرمرہو۔جب صاحبان دل کی صحبت اختیارکرتاہے تووہ موتی بن جاتاہے کیونکہ نیک افرادکی صحبت انسان کونیک بناتی ہے اورکم نصیب وبدقسمت کی صحبت کم نصیب وبدقسمت بناتی ہے ۔اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی اورکامیاب زندگی کے حصول کے لئے انسان کواللہ تعالیٰ کے دوستوں کی ہی قربت وصحبت اختیارکرنی چاہیئے۔

مادہ پرستی ،نفسانفسی اوردنیاداری نے ہمیں اللہ کے دوستوں کی قربت اورصحبت سے دوربلکہ بہت دورکردیاہے۔مساجداورمدارس سے منہ موڑنے والوں کوبھلا اللہ کے دوستوں کی قربت اورصحبت کیسے نصیب ہوگی۔۔؟اللہ والوں سے رشتے ناطے توڑکرہم سمجھے تھے کہ ہم ان کے بغیرکہیں کامیابی،کامرانی اورخوشحالی کے منازل آسانی کے ساتھ طے کرلیں گے مگرحالات اورواقعات نے یہ ثابت کردیاہے کہ یہ ہماری بھول،نادانی اورخام خیالی کے سواکچھ نہیں۔

ہمارے پاس آج دنیاکی ہرنعمت اورسہولت موجودہے لیکن اس کے باوجودہماری زندگیوں میں چین ہے اورنہ سکون۔سب کچھ پاس ہونے کے باوجودبے چینی اوربے سکونی سے ایسالگ رہاہے کہ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں۔اس کے مقابلے میں اگر اللہ کے دوستوں کی چند سیکنڈز کی قربت اورصحبت بھی اختیارکرلی جائے توپھر ہمارے جیسے گنہگاربھی لمحوں میں خالی ہاتھ دنیاجہان کے سارے غم بھول جاتے ہیں۔مولاناروم نے بلاشک وشبہ بجافرمایا۔اللہ کے دوستوں کی قربت اورصحبت میں جومزہ اورنشہ ہے وہ دنیاکی کسی اورشے میں نہیں۔

یوں تودیگردنیاداروں کی طرح ہم بھی اس جہان میں مارے مارے پھرتے ہیں لیکن کسی کی دعاکاکوئی اثرہوگاکہ روزکے ان گناہوں اوراللہ کی نافرمانیوں کے باوجودپھربھی کبھی کبھار ہم گناہ گاروں کو اللہ کے دوستوں کی قربت اورصحبت نصیب ہوجاتی ہے۔یہ تمہاراکرم ہے آقا۔۔کہ بات ابتک بنی ہوئی ہے۔۔ورنہ میں تواس قابل نہ تھا۔واقعی یہ اللہ کاکوئی خاص فضل وکرم ہے ورنہ اس قابل توہم گنہگارکبھی نہ تھے۔کہاں مولاناقاضی اسرائیل گڑنگی اورکہاں ہم۔۔؟مولاناقاضی اسرائیل گڑنگی صاحب شیخ الحدیث،ایک عالم باعمل اورزہدوتقویٰ کے پیکراوردوسو کے قریب کتابوں کے مصنف ہیں۔

موصوف نے ساری زندگی دین اسلام کی خدمت اورقال اللہ اورقال رسول اللہ ﷺکی صدابلندکرتے ہوئے گزاری۔وقت کے بڑے بڑے ولی بھی قاضی صاحب کے علم وعمل اور زہدوتقویٰ کودیکھ کران کے ہاتھ اورماتھے کوچومتے ہیں ۔قاضی اسرائیل گڑنگی جیسے اللہ کے ولیوں کی زیارت،صحبت اورقربت یقینناًنصیب والوں کوہی ملتی ہے۔والدین یاکسی مظلوم کی کوئی دعاہوگی کہ جس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے قاضی صاحب جیسے اپنے برگزیدہ بندوں اور دوستوںکے دلوں میں ہم جیسے گناہ گاروںکے لئے بھی محبت ڈال دی ہے۔

قاضی صاحب کی سرپرستی میں اس وقت مانسہرہ کے اندرکئی مدرسے چل رہے ہیں حضرت خودجامعتہ البنات صدیقہ کائنات اپرچنئی جولڑکیوں کامدرسہ ہے اس کے مہتمم ہیں ۔اس مدرسے میں جب بھی بخاری شریف کاختم ہویاکوئی اوردینی محفل توحضرت ہمیں ضروریادکرتے ہیں۔روایت وعادت کے مطابق امسال بھی جب مدرسے سے دس طالبات نے درس نظامی کاکورس مکمل کیاتواس خوشی میں ختم بخاری شریف کااہتمام کیاگیاتھا۔اس پررونق اوربابرکت محفل میں شرکت کے حوالے سے جب قاضی اسرائیل گڑنگی صاحب نے ہمیں یادفرمایاتوہم نے فوراًحاضری کی حامی بھرلی۔

ختم بخاری ہو،قرآن شریف کاختم ہویاپھرکوئی اوردینی محفل یاکوئی تقریب۔یہ ہرشرکت کرنے والے کے لئے چین،سکون اورگناہوں سے نجات کاباعث اورذریعہ توہے ہی ۔لیکن ہمارے لئے ختم بخاری شریف کی یہ پروقارمحفل اس بارڈبل اورٹرپل خوشی کاباعث بھی بنی کیونکہ جس دن اس بابرکت محفل کااہتمام کیاگیاتھااس دن 8مارچ کوملک سمیت پوری دنیامیں خواتین کاعالمی دن منایاجارہاتھا۔اس دن جہاں ایک طرف کچھ دین بیزارلوگ میراجسم میری مرضی کے نعرے لگاکربنت حواکودنیاکے سامنے تماشااورنوالہ بنانے کی ناکام کوشش کررہے تھے وہیں ہم اس مبارک محفل ،تقریب اورپروگرام کاحصہ بنے ہوئے تھے جہاں حواکی پاک دامن بیٹیوں کے سروں پر چادریں ڈالی جارہی تھیں۔

چادرویسے بھی عورت کی جان اورمان ہے پھرجب چادرعلم کی ہو۔محبت کی ہو۔امن کی ہو۔خوف خداکی ہو۔واللہ کیساعجیب اوردلفریب منظرتھاوہ۔۔قرآن مجید،بخاری شریف ،ترمذی ،موطاامام مالک ودیگردینی کتب وعلوم کواپنے سینوں میں محفوظ کرنے والی ہماری وہ بہنیں کتنی خوش قسمت تھیں ۔۔؟علم کاسب سے بڑاحق بھی ان کواتفاق سے 8مارچ کوانہی کے عالمی دن کے موقع پرکیسے ملا۔۔دین کی سمجھ بوجھ اوراللہ کے دوستوں کی قربت وصحبت واقعی نصیب والوں کوہی ملتی ہے۔

کوئی بندکمروں میں قرآن شریف کوسینے سے لگاکرعزت پرعزت پائے اورکوئی میراجسم میری مرضی کاپلے کارڈاٹھاکرگلی محلوں میں ذلیل ورسواہوجائے۔مولاناروم نے تواسی لئے کہاتھاکہ کم نصیب وبدقسمت کی صحبت کم نصیب وبدقسمت بناتی ہے۔اللہ ہمیں کم نصیب کی صحبت وقربت سے بچائے ورنہ پھرہمیں بھی پلے کارڈ اورکتبے اٹھائے ماراماراپھرناپڑے گا۔خواتین کے حقوق میں تو سب سے پہلاحق اس کوعزت دیناہے اوریہ عزت عورت کواسلام نے ماں،بہن،بیوی اوربیٹی بناکردے دیاہے۔

مگرافسوس کچھ ناعاقبت اندیش اورپیسوں کے پجاری عورت کے سرسے عزت کی اس چادرکواتارپھینکناچاہتے ہیں۔اس ملک میںخواتین کے حقوق کی جب بھی بات آتی ہے تواشاروں اورکنایوں میں آنکھوں کارخ فوراًدین دارطبقے کی طرف موڑدیاجاتاہے۔حالانکہ عورت کوان کے حقوق کی فراہمی اورآگاہی میں جتنارول اورکرداریہ ،،ملا،،اداکررہے ہیں اتناغیروں کے ٹکڑوں پرپلنے والے یہ مارچ زادے بھی کبھی ادانہیں کررہے۔

یہ توپوری دنیاجانتی ہے کہ عورت کوسب سے زیادہ حقوق دین اسلام نے دیئے اب قرآن مجید،احادیث مبارکہ اوردیگردینی کتب وعلوم سے ناآشناء یہ انگریزی کے نیلے کالے حروف پڑھنے والے کیاجانیں کہ عورت کے حقوق کیاہیں ۔۔؟میراجسم میری مرضی یہ عورت کاحق ہوگامگرانتہائی معذرت کے ساتھ اس عورت کاجونہ کسی کی ماں ہو۔نہ کسی کی بہن ،نہ بیٹی اورنہ کسی کی بیوی۔ماں ،بہن،بیوی اوربیٹی جوہوتی ہے اس کانہ جسم اپناہوتاہے اورنہ وہ پھراللہ کی مرضی پرکسی کی کوئی مرضی چلنے دیتی ہے۔

دینی مدارس میں نہ صرف حواکی بیٹیوں کوان کے حقوق کے بارے میں آگاہی دی جاتی ہے بلکہ انہیں وہ حقوق پورے کے پورے دیئے بھی جاتے ہیں ۔یہی مدارس دین کے میناراوراسلام کے اصل قلعے ہیں ۔ان مدارس سے نہ صرف محبت،اخوت ،برکت اورخیرکی ہوائیں چارسوپھیل رہی ہیں بلکہ یہی مدارس تاریک راہوں اورویران گلیوں کوعلم کی شمع سے بھی روشن کررہے ہیں ۔ان مدارس میں ختم قرآن یاختم بخاری شریف کی کسی تقریب اورمحفل میں شرکت کے اثرات،برکات اورانوارات پھرسالوں تک باقی رہتے ہیں ۔گجرانوالہ کے شیخ الحدیث مولاناعبدالقدوس قارن اوربالاکوٹ کے مولاناخلیل احمدجیسے بزرگوں اورانسانی فرشتوں کی زیارت بھی ہمیں قاضی اسرائیل گڑنگی کی محبت اورشفقت کے طفیل نصیب ہوئی۔

بغیرکسی طمع،لالچ اورمفادکے مادہ پرستی اورنفسانفسی کے اس دورمیں امن،محبت اوراخوت کاگلی گلی اورمحلے محلے میں پرچاریہ قاضی اسرائیل گڑنگی کااس ملک اورقوم پربہت بڑااحسان ہے۔ہماری دعاہے کہ قاضی صاحب ہمیشہ قوم کوجوڑنے کی یہ جدوجہد اور فکرکرتے رہیں اوران دینی مدارس سے یونہی امن کی فضائیں اورحق کی صدائیں اسی طرح بلندہوتی رہیں تاکہ ہم جیسے گناہ گاروں کوبھی ان مدارس کی برکت سے اللہ کے دوستوں کی قربت،زیارت اورصحبت اسی طرح نصیب ہو۔

جواب چھوڑ دیں