قومیانے سے نجکاری کی تگ و دو تک

ہر وہ کام جو کر گزرنا ہوتا ہے کر گزرا جاتا ہے اور جس کام کو انجام تک پہنچانا مقصود ہی نہیں ہوتا اس کو سیاستدانوں پر یا عوام کی رائے پر چھوڑ کر زندگی بھر کیلئے کٹا چھنی کا شکار بنادیا جاتا ہے اور یوں عوامی فلاح و بہبود کے بڑے بڑے منصوبے سیاست کا شکار ہو کر ملک کی تنزلی کا سبب بن جاتے ہیں۔ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ 1958 کے بعد سے اب تک جتنی بھی سول حکومتیں قائم ہوئی ہیں ان کے متعلق ایک عام رائے یہی ہے کہ یہ ساری کی ساری عسکری رضامندی یا ان کی آشیرواد کی دوش پر سوار ہو کر قائم ہوئیں۔

1958 کے بعد سب سے پہلی سول حکومت ذوالفقار علی بھٹو کی آئی تھی اور اس طرح وہ ملک کے پہلے سول حکمران تھے جو چیف مارشل لا ایڈ منسٹریٹر کے اختیارات کے مالک بنا دیئے گئے تھے۔ یہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ 11 سالہ فوجی آمریت کے بعد جو پہلا سویلین، چیف مارشل لا کی سیڑھیاں چڑھتا ہوا وزیر اعظم کے مرتبے پر فائز ہوا اسے بہر صورت افواجِ پاکستان کی حمایت حاصل رہی ہوگی۔

اسی طرح اب تک قائم ہونے والی ساری سول حکومتیں یا تو براہ راست ان ہی کی مرہونِ منت رہیں یا پھر ان کے دباؤ کا شکار ہو کر اپنی مرضی و منشا کے مطابق عوام کیلئے اپنے منصوبے بنانے میں سخت ناکام رہیں اور جن جن حکومتوں نے اپنی چادر سے زیادہ پاؤں پھیلانے کی کوشش کی وہ تمام حکومتیں اپنی مقررہ مدتیں بھی پوری نہ کر سکیں۔ جن حکومتوں نے بظاہر اپنی اپنی قانونی مدتیں پوری کی ہیں اس کے پسِ پردہ بھی کسی کی آشیرواد یوں کا سلسلہ رہا۔

اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ بطور سیاسی پارٹی، ان حکومتوں نے اپنی اپنی قانونی مدتیں تو ضرور پوری کیں لیکن ان کے وزیر اعظموں کو اپنی اپنی قانونی مدت سے کہیں پہلے اپنے اپنے عہدوں سے نہ صرف الگ ہونا پڑا بلکہ ان کے خلاف کچھ ایسے قانونی پہلو بھی پیدا کئے گئے کہ وہ نااہل قرار دیئے جانے کی وجہ سے الیکشن لڑنے کے حق سے بھی محروم کر دیئے گئے۔ ان سب باتوں میں دلچسپ بات یہ ہے ایسی حکومتیں جن کے عرصہ حکومت کو تو بہت نمایاں کر کے شمار کیا جاتا ہے لیکن کوئی اس بات کا تجزیہ نہیں کرتا کہ جو بھی سول حکمران، حکومتی تخت و تاج کا مالک بنا، کیا وہ “اقتدار” کا مالک بھی رہا؟

بات یہ ہورہی تھی کہ آخر تخت حکومت کے والی وارث بن جانے کے بعد سول حکمران بے بسی کی تصور نظر آنے اور بے دست و پا دکھائی دینے کے باوجود کبھی تو بڑے بڑے فیصلے کر گزرتے نظر آتے ہیں اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے عام عوامی فلاح و بہبود کے کام کے سلسلے میں بھی قدم اٹھانے سے پہلے ان کے ہاتھ پاؤں کانپنے لگتے ہیں۔ کوئی پاکستانی اس بات کو کیسے فراموش کر سکتا ہے ذوالفقار علی بھٹو نے راتوں رات پورے پاکستان کی ایک ایک انڈسٹری، بینک اور اسکول کو قومیالیا تھا اور ان کے اتنے بڑے فیصلے کے خلاف کسی نے “چوں” تک کرنے کی ہمت نہیں کی تھی یا اب وہی سول حکمران جب یہ چاہتے ہیں کہ قومیائی گئی ایک ہی مل، کارخانہ، بینک، اسکول یا ادارہ، واپس نجی تحویل میں دیدیا جائے تو ان کا ایسا کوئی ایک خواب بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو پاتا۔

اب تک پاکستان میں جتنی بھی سویلین یا فوجی حکومتیں ناکامی کا شکار ہو کر تختِ حکومت چھوڑنے پر مجبور ہوتی دکھائی دی ہیں اگر ان کی بنیادی وجوہات تلاش کی جائیں تو جو سب سے نمایاں بات سامنے آتی ہے وہ مہنگائی کا بے قابو ہونے کے علاوہ شاید ہی کوئی اور سبب رہا ہو۔ “بیس روپے من آٹا اور اس پر بھی سناٹا” کو بنیاد بنا کر شروع ہونے والی ساری تحریکیں حکومتوں کے خاتمے پر ہی تمام ہوتی رہی ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت کی نہایت بے قابو ہوجانے والی مہنگائی کے خلاف پورے ملک میں کوئی ایک تحریک بھی ایسی اٹھتی یا چلتی نہیں دکھائی دے رہی جو پاکستان کے سیاسی ماضی کا خاصہ رہی ہے۔

یہ بات غور و فکر کے کئی پہلو کھول دینے کیلئے کافی ہے اور اس بات کی غماز ہے کہ پاکستان میں فوجی حکومتیں رہی ہوں یا سول، ان کے خلاف چلائی جانے والے تحریکوں کے پیچھے بھی ان قوتوں کا ہاتھ رہا ہے جو اپنے ہاتھ سے ملک کی باگ چھوڑنے کیلئے رضا مند دکھائی نہیں دیتیں اور اس بات کیلئے تیار نہیں کہ کوئی بھی ایسی حکومت قائم ہو سکے جو ان کو کسی حد تک “حدود” کا پابند بنا سکے۔اس میں تو کوئی تعجب کی بات نہیں کہ دارالحکومت اسلام آباد اکثر “دھرنوں” کی زد میں نظر آتا رہا ہے، تعجب اس بات پر ہے کہ کبھی خادم حسین رضوی جیسے غیر مقبول رہنما عظیم قوت بن کر اسلام آباد کی دوڑتی بھاگتی زندگی کو جامد کر کے رکھ دیتے ہیں اور کبھی پی پی پی یا نون جیسی بڑی پارٹیاں بھی اسلام آباد میں پر مارنے کی جسارت نہیں کر پاتیں۔

حال ہی میں فضل الرحمن نے جس انداز میں اسلام آباد کا رخ کرکے عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا اور پھر اس کے بعد سمندر کا یہ طوفان جس انداز میں جھاگ کی طرح بیٹھتا چلا گیا، پوری دنیا کی آنکھوں میں کئی گہرے سوالات چھوڑ گیا۔ اسی طرح کبھی تو یہ ہوتا ہے کہ جماعتِ اسلامی پورے دارالحکومت کو جزیرہ بنا کر رکھ دیتی ہے اور کبھی ان کی ریلی راجہ بازار سے آگے جانے میں بھی کامیاب نہیں ہو پاتی۔ یہ سارے تماشے اس بات کے غماز ہیں کہ اس ملک میں جو کچھ بھی اب تک ہوتا آیا ہے وہ کسی کے اشارہ ابرو پر ہی ہوتا آیا ہے ورنہ پاکستان کی بڑی سے بڑی سیاسی پارٹی ہو یا سر پھرے دہشتگردوں کے اسلحہ و گولہ بارود کے ڈھیر پر بیٹھے گروہ، کسی کی یہ مجال ہی نہیں کہ وہ اپنی مرضی کر سکیں۔

ہمارے ملک میں وہ کونسے بڑے بڑے منصوبے ہیں جو حکومتوں نے عوام کی رائے لے کر بنائے ہیں۔ ایوب خان کے دور میں سات آٹھ بڑے بڑے ڈیم تعمیر ہوئے، پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کے بہت بڑے بڑے پروجیکٹ بنائے گئے، بھٹو نے راتوں رات پورے پاکستان کو قومی تحویل میں لے لیا، ملک میں کئی بار حکومتوں کے تخت الٹے گئے اور متعدد بار آئین کی دھجیاں اڑائی گئیں، کیا ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا قدم ہے جو عوام سے پوچھ کر اٹھایا گیا؟۔ گویا اگر کسی بھی حکومت کو کچھ کر گزرنا ہو تو وہ عوام تو عوام، اپنی بنائی ہوئی کابینہ یہاں تک کے مشیروں کی فوجِ ظفر موج سے بھی پوچھے بغیر کر گزرتی ہے لیکن جس کام کے نہ کرنے کا ارادہ ہو تو اسے عوام کی رائے کیلئے اٹھا رکھتی ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت کالا باغ کا منصوبہ تھا جو اب تک عوامی رائے کیلئے اٹھا کر رکھا ہوا ہے۔

موجودہ حکومت بھی اپنے سابقین کے نقشِ قدم پر عمل پیرا نظر آری ہے۔ خواہش تو یہی رکھتی ہے کہ ایسے تمام کارخانے، ملیں، صنعتیں، بینک، اسکول اور ادارے جو حکومت کو کما کر دینے کی بجائے حکومت کیلئے سفید ہاتھی بنے ہوئے ہیں، وہ نجی تحویل میں دے دیئے جائیں تاکہ وہ بھاری رقوم جو ان اداروں کے ملازمین کی تنخواہوں کی صورت میں ادا کی جاتی ہے اس کا بوجھ حکومت کے کاندھوں سے ہٹ جائے اور بچ جانے والی رقوم کو عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جاسکے لیکن وہ اب تک ایسا کرنے میں عملاً سخت ناکام نظر آ رہی ہے۔

اس سے پہلے کی ایک فوجی حکومت اور بعد میں آنے والی کئی سول حکومتیں بھی اس بات کیلئے کوشاں رہیں کہ وہ تمام ادارے یا ملیں اور کارخانے جو حکومت پر بوجھ بنے ہوئے ہیں ان کو نجی شعبوں کے حوالے کیا جائے لیکن کوئی ایک حکومت بھی اس میں کامیاب نہ ہو سکی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو حکومتیں پورے پاکستان کو راتوں رات قومیا سکتی ہیں، آئین و قانون کو پاؤں تلے روند سکتی ہیں اور جمی جمائی حکومتوں کو مکھن کے بال کی طرح کھینچ کر نکال سکتی ہیں وہ قومیائے گئے تمام اداروں، ملوں، کارخانوں، اسکولوں اور بینکوں کو نجی شعبے میں کیوں نہیں دے سکتیں؟۔ جب بھی اس نقطے پر آکر بات اٹک تی ہے تو معاملہ وہیں آکر رک جاتا کہ “جس کا جسم اسی کی مرضی”۔

جسارت میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق “وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ حکومتی خزانے پر بوجھ بننے والے سرکاری اداروں کی نجکاری قومی مفاد میں ہے۔ اداروں کی نجکاری، انضمام یا متعلقہ محکموں کو منتقلی کے عمل کا مقصد معاشی خسارے میں کمی لانا اور اداروں کی استعدادِ کار اور کارکردگی میں بہتری کو یقینی بنانا ہے”۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر ایسا ممکن ہوجائے تو حکومت پر کھربوں روپے سالانہ کے اخراجات میں کمی آ سکتی ہے لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا کوئی بھی سول حکومت اس پوزیشن میں ہوتی ہے جو عوام میں غیر مقبول فیصلوں پر عمل در آمد کرا سکے؟

اگر دیانتداری سے غور کیا جائے تو پورے پاکستان کو قومیالیا جانا ایک ایسا قدم تھا جو اس وقت کی حکومت کیلئے پیغامِ موت بن سکتا تھا لیکن کیا کوئی اس بات کی وضاحت کر سکتا ہے کہ اُس حکومت کا ایک غیر مقبول ترین قدم اس کیلئے کیوں غیر مقبولیت کا سبب نہیں بنا۔ اب اگر کوئی حکومت نجکاری کی جانب جانا چاہتی ہے تو اسے کس کا سہارا غیر مقبول ہونے سے بچا سکتا ہے؟حالات و واقعات کی تمام تر “چغلیوں” کے باوجود مجھے جو بات آج تک سمجھ میں نہیں آئی وہ یہ ہے کہ ہر وہ ساری کوتاہیاں اور ناکامیاں جو کسی بھی منتخب حکومت سے سرزد ہوجاتی ہیں اس کا تمام تر الزام صرف ان ہی کے سر کیوں باندھ دیا جاتا ہے۔

جب ہر سیاسی پارٹی ہر مخالف پارٹی کا “جد” ملک میں “مقتدرہ” کو ہی ٹھہراتی نظر آ تی ہے تو پھر “پسِ آئینہ” والے کا ذرہ برابر بھی قصور شمار کرنے سے کیوں گریزاں دکھائی دیتی ہے؟موجودہ وزیر اعظم نے جس جوش و خروش کے ساتھ قومیائے گئے اداروں اور صنعتوں کو نجی تحویل میں دینے کا اعلان کیا ہے، خوش کن سہی، لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ “اپنی” مرضی سے ایسا کر پائیں گے، یا بقول مرزا غالب ؎

                               دوست غمخواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا

                               زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ جائیں گے کیا

                               یا پھر کچھ یوں دیکھنے میں آئے گا کہ

                               بے “نیازی” حد سے گزری بندہ پرور کب تلک

                               ہم کہیں گے حالِ دل اور آپ فرمائیں گے، کیا

جواب چھوڑ دیں