آفتیں، عذاب، آزمائشیں اور ہمارا کردار

ایک زمانہ تھا کہ ملک میں اگر غیر معمولی بارشیں بھی ہونے لگتی تھیں تو ہمارا ٹی وی اور ریڈیو اپنا رویہ نہ صرف شائستہ کر لیا کرتا تھا بلکہ ہر قسم کی بیہودہ گوئی، ناچ گانے اور اخلاق باختہ اشتہارات کو بند کرکے یا تو دینی و اصلاحی پروگرام شروع کردیا کرتا تھا یا پھر ریڈیو اور ٹی وی سے ملی، قومی اور جنگی نغمے نشر ہونے لگتے تھے۔ لیکن اب یہ عالم ہے کہ قیامت کا صور ہی کیوں نہ پھونکا جارہا ہو یہ ابوجہل کی طرح یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ سر گردن سے نہیں چھاتی سے کاٹو تاکہ دنیا کو پتہ چلے کہ یہ کسی سر دار کا سر ہے۔

جنگ بدر میں دو نو عمر مجاہدیں کے ہاتھوں زخمی ہو جانے والا کافروں کا سردار ابو جہل، اپنے گھوڑے سے گر کر جاں کنی کے عالم میں میدانِ بدر میں اپنی روح پرواز ہونے کا انتظار کر رہا تھا تو ایک صحابی کی اس پر نظر پڑی۔ وہ دو نو عمر مجاہدین (بچوں) کے ہاتھوں اسے خاک چاٹتے ہوئے دیکھ چکے تھے اور ابوجہل کو ہلاک کر دینے کے عزم کے ساتھ شیروں کی طرح حملہ کرنے والے ان بچوں کی شہادت بھی ان کی نظر میں تھی اس لئے وہ نہایت برق رفتاری کے ساتھ ابو جہل کی جانب لپکے اور اس کے سینے پر سوار ہو کر جب گردن تن سے جدا کرنے کیلئے تلوار چلانا چاہی تو جہالت اور غرور کے اس پیکر نے نہایت تکبر سے تلوار اپنی گردن سے ہٹا کر اپنے سینے پر رکھتے ہو کہا کہ میرا سر یہاں سے جدا کرو تاکہ دنیا کو پتہ چلے کہ یہ کسی عام سپاہی کا سر نہیں ایک سردار کا سر ہے۔

وہ اُس عہد کا بو جہل تھا لیکن لگتا کہ کہ خون کی یہ تکبرانہ خباثت نسل در نسل منتقل ہوتے ہوے اب میڈیا کے تمام کرتا دھرتاؤں تک آن پہنچی ہے اور وہ بھی اللہ کے آگے ابلیس بنے ہوئے ہیں اور ایک ایسے عذاب کے ہوتے ہوئے بھی جو پاکستان سمیت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے، اپنی روش کو بدلنے کی بجائے، اپنے اپنے چینلوں سے خدا اور اس کے رسول کے فرمان اور زبان سے شستہ و شائستہ گوئی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے بوجہلانہ اکڑ کا مظاہرہ کرتے ہوئے خدائے برزگ و برتر سے معافی طلب کرنے کی بجائے یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ اگر ہمارے سروں کو تن سے ہی جدا کرنا ہے تو چھاتی کے ساتھ الگ کر تاکہ پتا چلے کہ ابھی ہزاروں لاکھوں ابوجہل زندہ ہیں جن کو جب جب بھی مہلت ملے گی وہ تیری دھرتی میں فتنہ و فساد برپا کرتے رہیں گے۔

پوری دنیا اس وقت سخت خوف و دہشت کا شکار ہے۔ تمام ممالک نے ایک دوسرے سے رابطے منقطع کئے ہوئے ہیں، مارکٹیں ویران ہو چکی ہیں اور نہ جانے کتنے ہنستے، مسکراتے اور جھمجھماتے شہر سنسان ہو کر رہ گئے ہیں۔ خود پاکستان میں اسکول و مدارس سر بمہر ہوچکے ہیں اور کسی وقت بھی بازار اور مارکٹیں بند کرنے کے احکامات جاری کئے جاسکتے ہیں لیکن میڈیا کو دیکھو تو ایسا لگتا ہے جیسے ملک میں اللہ کا عذاب نہیں رحمتوں کی برسات ہو رہی ہے۔ وہی بیہودہ گوئیاں جاری ہیں، وہی کٹا چھنی لگی ہوئی ہے، وہی ایک دوسرے پر تبرے بازی ہو رہی ہے، وہی سیاست دانوں کے لڑائی جھگڑے دکھائے جارہے ہیں، ٹی وی چینلوں پر بے لباسی کا مقابلہ کیا جارہا ہے، ہر قسم کی ڈرامہ بازی کی جارہی ہے اور اشتہاروں میں وہی برہنہ پن ہے جو ختم ہوکر نہیں دے رہا۔

کھیل کود کے میدان سجے ہوئے ہیں اور مسجدیں نوحہ خوانی کرتی نظر آ رہی ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کو اس بات کا جیسے کوئی غم ہی نہیں کہ خانہ کعبہ تک کا طواف کیوں روک دیا گیا ہے۔ اتنے بڑے سانحے کے باوجود کہ حرمین شریفین میں عبادتیں کیوں رکی ہوئی ہیں، کسی ایک مسلمان کی آنکھ بھی اشکبار دکھائی نہیں دے رہی جبکہ یہ عبادتیں روک دینے کا نہیں بلکہ حضور کے روضے کی جالیاں اور خانہ کعبہ کی دیواروں سے سر مار مار کر مغفرت طلب کرنے کا وقت تھا لیکن افسوس کہ امریکہ اور مغرب کی نقالی نے ہمیں ویسا ہی رویہ اور احتیاطی تدا بیر اختیار کرنے پر مجبور کیا ہوا ہے جیسا دنیا کر رہی ہے۔

اللہ کا فرمان ہے کہ “اے ایمان والو (جب کوئی مصیبت آئے تو) صبر اور نماز سے مدد لو، اللہ بے شک صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے” اور اہل کفر یہ کہہ رہے ہیں کہ خانہ کعبہ سے بھی دور ہوجاؤ اور نمازیں اور طواف بھی روک دو۔ یہ تو وہ وقت تھا جب تمام مساجد اور حرمین شریفین مسلمانوں سے گھچا گھچ بھر جانے چاہئیں تھے اور ان میں داخل ہونے والا ہر فرد زار و قطار رو رو کر اللہ سے بلا ٹل جانے کی نہ صرف دعا مانگتا بلکہ پوری دنیا کے انسانوں کو دعوت دیتا ہوا نظر آ رہا ہوتا کہ آؤ ہماری مساجدوں میں داخل ہو جاؤ اور اللہ کے حضور گڑ گڑا گڑ گڑا کر اپنے اپنے گناہوں کی معافی مانگو تاکہ دنیا میں عفریت کی طرح چھا جانے والا یہ عذابِ الٰہی ٹل جائے اور کاروبار زندگی معمول پر آ جائے۔

مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آ رہی کہ دکانیں اور بازار ویران کر دینے، گلیاں، کوچے، سڑکیں اور بازار بند کر دینے، ایک دوسرے سے گلے نہ ملنے، ہاتھ نہ ملانے اور گھروں سے باہر قدم نہ رکھنے سے کیا اللہ کا عذاب ٹل جائے گا؟۔ کیا کاروبار زندگی کو مفلوج کر دینا اس کا حل ہے، کیا بے روزگاری کے سیلاب کے پانی کو سروں سے بھی بلند کرنے سے کورونا وائرس پریشان ہو کر دنیا سے کوچ کر جائیں گے؟ میری تمام اہل اقتدار و اختیار سے اپیل ہے کہ خدا کیلئے امریکا اور مغرب کی پیروی کرتے ہوئے اس حد تک آگے نہ جائیں جس سے پورا ملک اور اس کے عوام کورونا سے بھی بڑی مصیبت کا شکار ہو جائیں۔ احتیاط بے شک بہت اچھی چیز ہے لیکن ہر وہ عمل جو اپنی حدوں سے تجاوز کر جائے وہ راحت و سکون کی بجائے دکھوں اور تکالیف میں اضافے کا سبب بن جایا کرتا ہے۔

کاروبار کو بند کرکے، شہروں کو سر بمہر کرکے، زندگی کو ویرانے میں بدل کر اگر پاکستان کے ارباب اختیار امریکا اور مغربی ممالک کو خوش کرنا چاہتے ہیں تو اس سے کہیں بہتر ہے کہ وہ اللہ کو خوش کرنے کی کوشش کریں۔ تمام چینل بیہودہ گوئی اور ایسے پروگراموں کو نشر کرنے سے باز آئیں جس کی اجازت اسلام اور ہمارا معاشرہ نہیں دیتا، میڈیا کی ساری اینکر پرسنز ساتر لباس پہنیں، اپنے جسموں کی نمائش سے گریز کریں، اپنے بالوں اور چہرے کو جس حد تک بھی چھپا سکتی ہیں چھپائیں، اپنے میک اپ کو سادگی کی جانب لے جائیں اور مردوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے سے اجتناب کریں۔

یہ بہت آزمائش کے دن ہیں، اپنے بہترین طرزِ عمل سے اس کو ٹالنے کی جو بھی سعی و جہد ممکن ہو کر گزریں۔ اللہ کے حضور روئیں، گڑگڑائیں، سر، ماتھا اور ناک رگڑیں تو کوئی وجہ نہیں کہ کہ اللہ تعالیٰ جو انسانوں سے 70 ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے، اس کی رحمت جوش میں آجائے اور اور اس کے چھائے ہوئے خوف و دہشت کے بادل رحمت کی باد و باراں میں بدل جائیں۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں