میرا جسم میری مرضی، آخر مطلب بھی جانتے ہو؟

فیمینزم لفظ جب نگاہوں سے ٹکراتا ہے،یا سماعت کے دریچوں میں سرایت کرتا ہے،تو ایک نہایت ناخوشگوار احساس پیدا ہوتا ہے۔واضح رہے کے ماڈرنزم مذہب اسلام سے زیادہ کسی دوسرے مذہب میں نہیں،لیکن یہاں معاملہ عجیب ہے،اگر ماڈرنزم نام دیا جاتا ہے بے حیائ کو ،اسلامی اور انسانی قدروں کی پامالی کو،تو ہاں میرا مذہب ماڈرن نہیں ہے۔اگر لفظ ماڈرنزم اور فیمینزم کا صیح ترجمہ کیا جائے اسکا مفہوم دیکھا جائے تو اصل تحفظات، قدریں اور اور عزتیں مذہب اسلام نے دی ہیں عورت کےلیے اسلام سے زیادہ کوئی مذہب ماڈرن نہیں۔کسی مذہب میں عورت کے تحفظ، عزت، جائیداد اور رتبے پر بحث نہیں کی گئی سوائے اسلام کے۔

آئیے قارئین کرام ہم ماڈرنزم اور فیمینزم کے نام پر فحاشی اور بے حیائی میں فرق کرتے چلیں۔اسلام عورت کو انفرادیت بخشتا ہےعزت بخشتا ہے،لیکن یہ یورپین کلچر کی متعارف کردہ فیمینزم ٹرم عورت کو بے حیائی خود مختاری اور فحاشی پر اکساتی ہے۔اپنے سے منسلک رشتوں کو پامال کرتے ہوئے میرا جسم میری مرضی جیسے جملوں پر عمل درآمد کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔یاد رہے کسی بھی ملک کسی بھی زبان میں انسان کی مونث کو عورت ہی بولا جاتا ہےاور عورت کا معنی چھپی ہوئی، پوشیدہ، آنکھوں سے اوجھل، پردہ کے پیچھے ،غائب یا نہ نظر آنے والی چیز کا نام ہے۔

تو قارئین یہاں میں آپکی رائے لیتے ہوئےآگےبڑھوںگی ۔جب عورت کے نام کا مطلب ہی چھپی ہوئی چیز ہے توکیا یہ احمقانہ حرکت نہیں کہ ایک عورت ہی اٹھ کر اپنے متعلق بولے کہ میرا جسم میری مرضی اور مزید یہ کہ ہر چھپی ہوئی چیز کو پوشیدہ رکھنے والا کوئی ذی روح ہوتا ہے جو اس چیز کو آنکھوں سے اوجھل رکھتا ہے،اس تک کسی کی رسائی نہیں ہونے دیتااسی طرح عورت کو پوشیدہ رکھنے والی ذات مرد ہےتو جس نے تمہیں چھپا کے سنبھال کے رکھنا ہے،تم اسی کے خلاف نعرہ بازی اور پروٹسٹ کر رہی ہو،اسی کے ماتحت ہونے سے انکار کر رہی ہو۔ذرا ہوش کے ناخن لو،تم نہ صرف اپنے کردار اور اپنے نام کی نفی کر رہی ہو بلکہ صدیوں سے جو خواتین عورت نام کی پاسداری کرتی آ رہی ہیں تم انکی بھی کردار کشی کر رہی ہو۔

نا صرف عورت لفظ کے مطالبات کے برعکس چل رہی ہو بلکہ اپنے آبائو اجداد کی روایت بھی توڑ رہی ہوعورت کسی بھی دور کی کیوں نہ ہوکسی بھی ملک کی کیوں نہ ہو،کسی بھی رنگ نسل ذات یا مذہب کی کیوں نہ ہو،عورت ہمیشہ مرد کے ماتحت تھی ہے اور رہے گی۔آج کے دور میں بھی عورت اپنی زندگی کے ہر دوراہے پر مرد کے سہارے اور حفاظت کی محتاج ہے۔میں حیران ہوں کہ ماروی سرمد یہ انقلابی جملہ کیسے بول سکتی ہےاور احتجاج کیسے کر سکتی ہےجبکہ وہ خود کسی باپ کی بیٹی ہےاور باپ بھی ایک مرد ہوتا ہے۔پیدا ہونے کے بعد اگر اسکے والد اسے گھر مہیا نہیں کرتے،کھانے کو پینے پہننے اوڑھنے اور زندگی بسر کرنے کو اشیا میسر نہ کرتے تو کیا یہ معاشرہ اسے جینے دیتا،اسے معاشرے کے لوگ کچل کر گزر نہ جاتے۔

پڑھائی کیلئیے پیسہ اور رہنے کیلئیےا سٹیٹس دینے والا باپ بھی مرد ہی تھا،بچپن سے جوانی تک جس باپ کے حکم پر چلی وہ بھی مرد ہی تھا۔سکول و کالج کے رزلٹ کارڈ پر جسکا نام لکھا وہ باپ بھی مرد ہی تھاغرضیکہ اپنی زندگی کے ہر دور میں کامیابی کا ہر زینہ چڑھتے ہوئے جس کے کندھے پر پائوں رکھ کر یہ اوپر آئی وہ کندھا بھی ایک باپ ایک مرد کا ہی تھا۔جب یہ قرآن کا فیصلہ ہے کہ مرد کو عورتوں پر فوقیت حاصل ہے تویہ ماروی سرمد کون ہوتی ہے مرد کے ماتحت ہو کر زندگی گزارنے سے منع کرنے والی۔کیا یہ باپ کا اپنی زندگی میں کردار بھول گئی ،مرد دن بھر ان تھک محنت کرتا ہے،تا کہ انکی عورتوں کو باہر نکل کر کمانا نہ پڑےمعاشرے کی نظروں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔یہ مرد ہی ہے جو عورت کو چھپا کر خود زمانے کی دھوپ چھائوں کو برداشت کرتا ہے۔

کبھی سنا ہے بن باپ کی بیٹی کا حال ،کبھی سنا ہے بن بھائی کے بہن کا سسرال ،کبھی دیکھی ہے بن بیٹے کی تڑپتی ماںاگرا ن سب رشتون پر تم غور کرو تو تمہیں سمجھ آئے یہ سب مرد ہی ہیں جو کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی روپ میں ہماری زندگی میں بہار لاتے ہیںاور خزاں سے بچاتے ہیں۔یہ سب باتیں اگر تمہیں سمجھ آ جائیں تو شاید عورت مارچ سے پہلے تمہارا نظریہ بدل جائے،کیا دیکھا ہے تم نے کبھی غیرت کے نام پر بھائی کٹتے اور لڑتے،کبھی حفاظت کے نام پر سائیکل چلاتے ہوئے بوڑھے باپ کی ناتواں شل ٹانگوں کو تصور کیا ہے، جو سائیکل پر بیگ ٹانگےا سکول و کالج سے بیٹی کو لینے چھوڑنے جاتا ہے!!

میرا جسم میری مرضی بول کر اور مرد کی دسترس سے آزاد ہو کر جسم و لباس کی نمائش کرنے والی فیمینزم کو فروغ دینے والی ایک لڑکی ایک عورت بن کر ماں کے روپ میں کیسا کردار ادا کرے گی ،کیسی نسل تیار ہو گی ،کیسی قوم تشکیل پائے گی۔ اپنی بات کا اختتام کرتے ہوئے حکومت سے درخواست کرتہ چلوں کہ یورپ کے سزا یافتہ غنڈوں کی اس بے فکری اولاد کو لگام ڈالیں اور فحاشی کی علمبردار اس نسل کو جو کہ دین اسلام کی توہین کا مرتکب ہو رہی ہیں،پاکستان کے قیام کے مقصد کو جھٹلا رہی ہیں،نظریہ پاکستان کی دھجیاں اڑا رہی ہیں اور اپنے گلے میں یورپ کی غلامی کا طوق ڈال کر ان سے اسلام اور پاکستان مخالف سرگرمیوں کیلیے فنڈز لے کر پاکستان کی پاکدامن بیٹیوں کو فحاشی اور عریانی کے سمندر میں غرق کرنا چاہ رہی ہیں۔ایسا نہ ہو کہ انکی یہ اسلام دشمن سر گرمیاں کسی بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوں،جس کے نتیجے میں ملک پاکستان کا امن و سکون تہ و بالا ہو کر رہ جائے۔

جواب چھوڑ دیں