کب تک کورونا کو رونا، تدبیریں کرونا

آج مجھے خواجہ میر درد بہت یاد آ رہے ہیں جنھوں نے زندگی کو ایک ایسے رنگ میں دیکھا تھا جس کو آج کی پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کا ہر فرد اپنی زندگی میں کسی نہ کسی ایسے دکھ یا درد کا شکار ضرور ہوتا ہے جو اس کے ماضی و حال کے سارے اچھے دنوں پر غالب آجاتا ہے اور اسے یوں محسوس ہونے لگتا ہے جیسے زندگی مجموعہ درد و غم کے سوا شاید کچھ نہیں۔ خواجہ میر درد کہتے ہیں ؎

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

آتی جاتی سانس کا عالم نہ پوچھ جیسے دہری دھار کا خنجر چلے

جوں شرر اے ہستی بے بودیاں بارے ہم بھی اپنی باری بھر چلے

کورونا نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ کیا نیک اور کیا بد، سب اس کی لپیٹ میں آئے ہوئے ہیں۔ کوئی بھی آفت یا اللہ کا عذاب کسی بستی پر ٹوٹ تا ہے تو وہ نہ مسٹر کو دیکھتا ہے اور نہ ہی کسی مولوی کو۔ سیلاب کی سرکش لہروں کی نظریں ہر امتیازِ نیک و بد سے ناآشنا ہوا کرتی ہیں۔ کچھ ایسا ہی اس وقت دنیا کے ساتھ معاملہ در پیش ہے۔ ہر ملک کورونا کی آفتِ ناگہانی کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے۔ دنیا کے 109 سے زیادہ ممالک اس کی لپیٹ میں آئے ہوئے ہیں اور دنیا کی پوری آبادی ایک خوف میں مبتلا ہے۔ وہ مقاماتِ مقدسہ جہاں نہ کبھی طواف رکا کرتا تھا اور نہ ہی عبادات کسی خلل کا شکار ہوا کرتی تھیں، وہاں بھی جیسے گردشِ زمانہ رک سی گئی ہے۔ ہر جانب ہو کا عالم ہے۔ جہاں ابھی زندگی بھاگتی دوڑتی نظر آ رہی ہے وہاں کب سناٹوں کا راج ہو جائے، کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

دنیا کے جن اہم ممالک میں کورونا کے کیسز سامنے آ چکے ہیں ان میں سے کچھ کی تفصیل یوں ہے۔ ایران میں اب تک 8042، اسپین میں 1574، فرانس میں 1660، ڈنمارک میں 262، سوئیزر لینڈ میں 497، جرمنی میں 1317، سوئیڈن میں 351، نیدر لینڈ میں 382، برطانیہ میں 373، جاپان میں 581، آسٹریلا میں 382، امریکا میں 754، ناروے میں 272، ساؤتھ کوریا میں 7513، بلجیم میں 267 اور چین میں 82000 افراد کورونا کا شکار ہو چکے ہیں۔

دیکھا جائے تو 7 ارب سے زائد آبادی کی اس دنیا میں یہ تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں لیکن خوفناک بات یہ ہے کہ اس وائیرس کی ابھی تک کوئی حتمی ویکسین نہیں بن سکی ہے۔ اس میں خوفناکیت کے دیگر پہلو یہ ہیں کہ یہ نہایت برق رفتاری کے ساتھ ایک انسانی جسم سے دوسرے انسانی جسم میں داخل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کا ایک سے دوسرے میں منتقل ہوجانا اتنا یقینی ہے جیسے دن کا دن ہونا اور رات کا رات کہلانا۔ یہ وائرس ہوا میں پھیل جانے کے علاوہ کسی بھی چیز، جیسے کرنسی یا کھانے پینے کی اشیا یا کسی بھی مصنوعی پیداوار کے جسم پر سوار ہونے کے بعد کئی گھنٹے اپنے آپ کو زندہ رکھ سکتا ہے۔

ایک خطرناک بات یہ بھی ہے کہ یہ فوری طور پر کسی انسان کو بیمار نہیں کر دیتا یعنی جس انسان میں یہ سما جائے اس کی بیماری کی علامات فوراً ظاہر ہونا شروع نہیں ہو جاتیں جس کی وجہ سے اس کے ساتھ رہنے، گزرنے اور بیٹھنے والے بھی اس بیماری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس طرح ان سب کی علامات ظاہر ہونے سے کہیں پہلے نہ جانے کتنے افراد اس کی گرفت میں آ جاتے ہیں۔ پھر ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اگر مرض لا علاج ہو جائے تو ایسے انسان کا زندہ رہنا زندہ انسانوں کیلئے ایک دہشت بن کر رہ جاتا ہے جس کی وجہ سے دنیا ایسے مریضوں سے مزید ہمدردی جتانے سے گھبرا نے لگی ہے اور ان سب کے خلاف نہایت سخت غیر انسانی اقدامات تک اٹھانے سے گریز کرتی نظر نہیں آ رہی۔

تصور کیجئے کہ خدا نخواستہ کسی کے گھر کوئی اس مہلک جراثیم کا شکار ہو جائے تو کیا وہ گھر کے تمام افراد کیلئے خطرے کی گھنٹی نہیں بن جائے گا۔ پھر اسی کے گھر کا ایک ایک فرد اڑوس پڑوس کیلئے ناقابلِ قبول نہیں بن جائے گا اور پھر اسی تسلسل میں کیا وہ بستی دیگر بستیوں کیلئے خوف کی علامت نہیں بن جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں بھی اس خوفناک وائیرس کا حملہ ہو چکا ہے، اس شہر کو چاروں جانب سے گھیر لیا گیا ہے اور پورے پورے شہر پر یہ پابندی لگادی گئی ہے کہ وہاں سے نہ تو کوئی کسی اور جانب سفر کرے اور نہ ہی اپنے گھروں سے باہر نکلے۔ وجہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ اگر وہ ابھی تک تندرست ہے تو کہیں بیمار نہ ہو جائے اور اگر وہ بیمار ہے تو کسی کی صحت کیلئے مسئلہ کھڑا نہ کر دے۔ چین کا ایک بڑا شہر “ووہان” تو پورا کا پورا سیل کر دیا گیا ہے اور پورے شہر پر جیسے موت کے بادل چھا کر رہ گئے ہیں۔ ایک بارونق شہر کسی ویرانے کا منظر پیش کرتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ سڑکیں، بازار اور گلیاں ویران ہو کر رہ گئے ہیں۔ چین کے دوسرے شہر بھی آہستہ آہستہ اس آفت کی لپیٹ میں آنے کی وجہ سے پورا چین دنیا سے کٹتا چلا جارہا ہے۔ تجارتی تعلقات اور ہر قسم کی آمد و رفت بند ہونے یا کم ہونے کی وجہ سے پوری دنیا کی معیشت کا بھٹا بیٹھتا چلا جارہا ہے۔

تازہ ترین خبروں کے مطابق ” امریکا اور سعودی عرب میں کورونا وائیرس کے پیش نظر لاک ڈاؤن کے اقدامات شروع کردیے گئے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برطانیہ کے سوایورپی باشندوں پر امریکا میں کورونا کے پھیلاؤ کا الزام عائد کرتے ہوئے ان کا 30روز کے لیے داخلہ بند کردیا۔ سعودی عرب نے اپنے شہریوں کی بیرون ملک روانگی پر پابندی عائد کرتے ہوئے خلیجی ممالک کے بعد پاکستان، بھارت، یورپی یونین سمیت مزید 12 ممالک کے ساتھ پروازیں معطل کرنے کے علاوہ اپنے شہریوں کو بھی 72 گھنٹوں کے اندر وطن واپس پہنچنے کی ہدایت کردی ہے جبکہ عمرہ اور سیاحتی ویزوں پر موجود غیر ملکی باشندوں کو بھی 72 گھنٹے کے اندر سعودی عرب چھوڑنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ سعودی حکومت نے اٹلی کی طرز پر لاک ڈاؤن کا فیصلہ کرلیا ہے۔ سعودی عرب کی وزارت داخلہ نے جمعرات کو علی الصبح ایک حکم نامہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یورپی یونین، سوئیزرلینڈ، بھارت، پاکستان، سری لنکا، فلپائنز، سوڈان، ایتھوپیا، جنوبی سوڈان، اریٹریا، کینیا، جبوتی اور صومالیہ کے ساتھ فضائی رابطہ 72 گھنٹوںکے بعد معطل کر دیا جائے گا”۔

یہ ساری خبریں اور نہایت سخت اقدامات اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں کہ معاملہ شاید اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے جتنا عوام کے سامنے پیش کیا جارہا ہے۔ اتنے بڑے پیمانے پر اقدامات کا اٹھایا جانا معاملات کی انتہائی سنگینی کی جانب واضح اشارہ ہے جو اس بات کی دعوت دیتا ہے کہ ہر عام و خاص اسے کسی بھی صورت ہلکا نہ لے بلکہ جس قدر بھی احتیاطی تدابیر ہو سکتی ہیں ان پر سختی کے ساتھ عمل کرے۔معاملات یقیناً ایسے نہیں جن کو ہماری آنکھیں دیکھ رہی ہیں۔ اسکولوں کا مزید ڈھائی ماہ کیلئے بند کر دیا جانا، نویں اور دسویں کے امتحانات کی منسوخی اور پی ایس ایل کے باقی تمام میچوں میں شائقین کے داخلے پر مکمل پابندی معاملے کی سنگینی کی جانب واضح اشارہ ہے اس لئے عوام الناس کو بھی اس جانب نہایت سنجیدگی سے غور اور احتیاطی تدابیر کو اختیار کرنے کی ضرورت محسوس کرنی چاہیے تاکہ اس آفتِ نا گہانی سے بچا جا سکے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس انداز میں شہر، کارخانے، ملیں، اسکول اوربازار بند کرکے اس وائیرس کے خطرناک حملے سے بچنے کی تدابیر اختیار کی جا رہی ہیں کیا یہ تحفظ کی جانب قدم ہے یا پھر مزید خرابی کی جانب پیش قدمی۔ جب تمام نقل و حرکت بند ہو کر رہ جائے گی اور ساری ترسیلات جامد ہو جائیں گی تو اس سے بے روزگاری، لوگوں کی آمدنی کے ذرائع، گھر کی ضرورتیں پوری کرنے کے اسباب اور ملک کی مجموعی معیشت تباہی کی جانب بڑھنا شروع ہو جائے گی۔ روزگاربند ہونے اور کھانے پینے کی عدم فراہمی افراد کو جرائم کی جانب لیجانے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ ہزاربار خدا نخواستہ، اگر ان اقدامات سے اسٹریٹ کرائم کے ساتھ ساتھ چوری چکاری اور ڈاکا زنی کی وارداتیں بے قابو ہو گئیں تو کیا ان پر قابو پانا مشکل سے مشکل تر نہیں ہو جائے گا؟۔

ان ساری باتوں کا اچھی طرح جائزہ لینے کے بعد یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ بے شک اس بڑی آفت کا جس طرح بھی ہو مقابلہ کیا جائے لیکن کوئی ایسا قدم بالکل بھی نہ اٹھایا جائے جس کی وجہ سے زندگی مزید مشکلات کا شکار ہو کر رہ جائے اور ہم وائیرس سے کم اور آپس کے خون خرابے سے زیادہ مرنے لگیں۔تمام تر احتیاطوں کے باوجود شہر کو بالکل سر بمہر نہ کیا جائے اور بازاروں کو بھی بالکل ہی بند نہ کر دیا جائے۔ اس پر بھی نظر رکھی جائے کہ ایسی آفت کا فائدہ بھیڑیا صفت منافع خور نہ اٹھا سکیں اور جو بھی ایسی آزمائش میں انسانوں کو لوٹ لینے کی جانب جاتا ہوا نظر آئے اس کے خلاف سخت تادیبی کارروائیاں کی جائیں۔

جہاں ضرورت ہر قسم کے ضروری اقدامات کی ہے وہیں قوم کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہو کر اپنے گناہوں کی معافی طلب کرے اور عذاب کی صورت بڑھتے چلے آنے والے اس طوفان کے ٹل جانے کی دعائیں کرے۔ اللہ تعالیٰ بہت غفورالرحیم ہیں وہ ضرور دعائیں قبول فرمائیں گے اور ہمارے لئے آسانیوں کی راہیں ضرور کشادہ کریں گے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں