کرونا وائرس کی تباہ کاریاں 

اٹلی کے شہر میلا ن اور چین کے شہر ووہان سے اٹھنے والا کرونا وائرس دنیا کے 124 ممالک میں پھیل چکا ہے۔ اس خاموش وائرس سے لڑنے کے لیے پوری دنیا میں ہنگامی صورت حال ہے۔ دیکھا جائے تو کرونا کے پھیلاؤ اور اس کے کنٹرول میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن میں توازن نہ رکھتے ہوئے پوری دنیا میں اس کے شدید تر ہونے کا اعلان کر دیا گیاہے ۔

عالمی ادارہ صحت نے تمام متاثرہ ممالک کی حکومتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے ہیلتھ ڈیپارٹمنٹس کو ہائی الرٹ رکھے ، اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کرے اور بیرونی دنیا خا ص طور پر کرون سے متاثر ممالک سے رابطے منقطع کرے۔ اس لیے یورپ سمیت مشرقی ممالک بشمول عرب دنیا میں کرونا وائرس کا خوف پایا جاتا ہے جس کے بعد وہاں کے ائرپورٹس ،ہوٹلوں ، ملٹی نیشنل کمپنیوں، اسٹاک ایکسچینج مارکیٹوں میں ہو کا عالم ہونے سے عالمی معیشت کو کھربوں ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔

عالمی تجارت رینگ رہی ہے اور اگر یہی صورت حال رہی تومعیشت کا جنازہ پڑھنا پڑے گا۔ پاکستان نے چند دن قبل چین سے آنے والا تجارتی بحری جہاز کراچی بندرگاہ سے دور روک دیاتھا کہ اس سے پہلے بھی زہریلی گیس سے کئی شہریوں کو شدیدمشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

اس وقت کرونا وائرس کی شدت اگرچہ کم ہورہی ہے مگر عالمی دنیا میں کھلبلی میں کوئی نہیں ہورہی اور بدستور ایسے اقدامات کیے جارہے ہیں جس کی وجہ سے کرونا لوگوں کے لیے وہم بن چکا ہے۔ جبکہ چین جہاں سے یہ وائرس پھیلا وہاں پیشتر متاثرہ مریض صحت یاب ہوچکے ہیں۔ دنیا میں سات ارب سے زائد افراد میں سے 1 لاکھ 29 ہزار 771 افراد کو کرونا ہوا، جن میں سے 4,751 وائرس کا شکار ہوئے اور 68,335 مریض صحت یاب ہو کر کرونا کو شکست دے چکے ہیں۔

امریکہ، یورپ ، ایران ،سوویت ریاستوں اور عرب ممالک ،جن میں دبئی،سعودی عرب اور کویت شامل ہیں ،وہاں مریضوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ اس لیے موجود ہے کہ ان ممالک میں آنے والے چینی یا اٹلی کے باشندوں میں کرونا وائرس ہو سکتا ہے ،اس لیے وہاں عوام کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنا حکومتوں کا فرض منصبی ہے۔ پاکستان میں اب تک کوئی موت تو واقع نہیں ہوئی، لیکن جس طرح سے کروناکے کیس سامنے آرہے ہیں یہ بہت بڑی پریشانی کا پیش خیمہبن سکتی ہے۔

اس حوالے سے وزیر اعلیٰ سندھ کا پی ایس ایل کے باقی میچز بغیر شائقین کرانے کا فیصلہ بروقت ہے، جسے سنجیدہ حلقوں میں پسند کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ میڈیا بھی عوام میں مثبت آگاہی کا فروغ یقینی بنائے کہ پاکستان ایسا ملک ہے جہاں ناخواندگی کرونا کے بڑھنے میں مدد گار ثابت ہوسکتی ہے۔

عالمی دنیا میں گردشی خبروں میں یہ بات کہی جارہی ہے کہ کرونا وائرس پر جون کے آخری ہفتے تک کنٹرول کر لیا جائے گا،مگر اس وقت تک ایسے ممالک جہاں کرونا وائرس اپنا کام کرچکا ہے مریضوں کی صحت یابی تک احتیاطی تدابیر ہی بچا سکتی ہیں۔ پاکستان میں ایران سے آنے والا کرونالوگوں کے اعصاب پر اس لیے سوار ہے کہ ایران میں کئی سیاست دان اس سے متاثر ہوئے اور کئی ایک کی موت بھی ہوئی ہے،ایران کی موجودہ صورت حال میں کرونا سے متاثرہ مریضوں میں جن میں وزیر صنعت رضا رحمانی، وزیر سیاحت،علی اصغر منسان اور ایرانی صدر حسن روحانی کے نائب اسحاق جہانگیری بھی کرونارپورٹس مثبت آنے پر زیر علاج ہیں۔

دنیا میں اگرچہ کرونا کا پھیلاؤ کم ہو رہا ہے اور وبائی صورت حال نچلی سطح پر ہے لیکن اس کے باوجود جن ممالک میں ایمرجنسی کا اعلان کیاگیا ہے وہاں کے عوام میں شدید اضطراب کی کیٖفیت ہے۔ سعودی عرب میں ایک دن میں 24 نئے کیس سامنے آئے جن میں مکہ سے 21 کرونا مریضوں کی تشخیص کے بعد سعودیہ نے پاکستان سمیت39 ممالک سے سفری آمد ورفت پر پابندی لگادی ہے اور اردن کی سرحد کو مکمل سیل کر دیا ہے۔

ایسے ممالک جن میں کرونا وائرس کے نئے کیسز سامنے آرہے ہیں ان میں لبنان، الجزائر ،گیانا، یونان،عراق، آسٹریااور جاپان شامل ہیں۔ پولینڈ میں کرونا کی پہلی ہلاکت ہوئی۔ اسی طرح کویت میں کرونا سے بچاؤ کے لیے کویتی حکومت نے تمام سرکاری اداروں میں پندرہ یوم کی عام چھٹی کا اعلان کردیا ہے۔ یواے ای میں بھی ملازمین کو کہا گیا ہے کہ وہ گھر میں بیٹھ کر آفس کا کام کریں۔

کرونا نے جہاں پوری دنیا کی معیشت کو کریش کیا وہیں یہ کئی عالمی طاقتوں کے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ہے۔کرونا نے چین کی معیشت کا اتنا برا حال کیا ہے کہ اقتصادی ماہرین کے مطابق چین اگلے دس سال تک کوئی بڑا پروجیکٹ شروع کرسکے گا،نہ چلنے والے پروجیکٹس کو مکمل کرنے کا سوچے گا۔ پاکستان کے لیے تشویش ناک بات یہ ہے کہ اگرچین سی پیک پر مزید سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے تو پھر سی پیک کے مستبل پر سوالیہ نشان لگ جائے گا۔ کیونکہ سی پیک ہی پاکستان کے روشن مستقبل کی نوید ہے۔

کرونا نے امریکی صنعت کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے، ایک ہی دن میں عالمی منڈی میں تیل کے ریٹس میں زبردست کمی سے کئی کمپنیوں کے حسس گرے اور پاکستان سمیت دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹس اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکیں۔پاکستانی مارکیٹس میں اگرچہ مصنوعی طور پر حسس کو کنٹرول کیا گیا لیکن مجموعی نقصان سے بچنے کی کوششیں کارگرنہ ہوسکیں۔ پاکستان میں کرونا سے جنگ کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’’فیس بک‘‘

کا کردار بہت اہم ہے اس لیے کہ پاکستان میں فیس بک صارفین کی کثیر تعداد موجود ہے۔ فیس بک انٹرنیشنل کے نمائندہ اینڈوکیسی جولن زو نے کہا کہ فیس بک پاکستانیوں کو اس امتحان کی گھڑی میں اکیلا نہیں چھوڑے گااورہم فیس بک کے ذریعے عوام میں آگاہی مہم میں حکومت پاکستان کا ساتھ دینے کے ساتھ غلط مواد کواپنے پلیٹ فارم سے ہٹا ئیں گے۔

جواب چھوڑ دیں