میں محترم ہوں، مجبور نہیں

آٹھ مارچ پوری دنیا میں عورتوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتاہے۔ اس دن حقوق نسواں کے چند ٹھیکیدار اپنی دکانداری چمکانے کے لیے ہمیں لفظ عورت کے نت نئے معنی سے روشناس کرواتے ہیں۔ لیکن وہ کیا جانیں کہ لفظ عورت اس کائنات کا سب سے خوبصورت لفظ ہے۔یہ وہ لفظ ہے جو ہمیں عزت و حرمت کے حقیقی معنی سے آگاہ کرتا ہے ۔ لیکن عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر عورت کے اعلی مقام کو اجاگر کرنے کی بجائے عورت کو مظلوم اور مجبور بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ عورت کی خدمت نہیں بلکہ اس کی تذلیل ہے جو ہمیں گوارا نہیں۔

الحمد اللہ میرے وطن پاکستان میں عورتیں زندگی کے ہر شعبے میں مثالی کردار ادا کر رہی ہیں۔مسلح افواج میں پاک وطن کی فضاؤں کی رکھوالی سے لے کر تعلیمی اداروں میں ذہنوں کی آبیاری تک، گھریلو انتظام و انصرام سے لے وزارت عظمی کے عظیم منصب تک عورتیں خدمات انجام دے چکی ہیں اور دے رہی ہیں۔مگر افسوس 8 مارچ ان بیگمات کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا، جن کے اپنے گھر میں گھریلو ملازماؤں کا چند روپے کے عوض استحصال کیا جاتا ہے۔

 

جن کی آنکھیں فنڈنگ کے لئے بیرونی این جی او ز اور اپنے ڈرائینگ روم کی کھڑکی سے آگے کچھ نہیں دیکھ سکتی۔ وہ خواتین مارچ کا اہتمام تو کرتیں ہیں مگر ان اپنی لینڈ کروزر سے اتر کر خواتین کے ہمراہ دو قدم نہیں چل سکتیں۔ جو ٹاک شوز میں عورتوں کی خاطر دنیا بھر کی بلائیں تو اپنے گلے کو لگانے کو تیار ہوتی ہیں لیکن غریب عورتوں کو اپنے پاس بھی نہیں پھٹکنے دیتیں۔دور حاضر کے حقوق نسواں اور اسلام میں عورت کو حاصل حقوق اب ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام میں عورت کو کیا مقام حاصل ہے۔

جب آج کی ترقی یافتہ اقوام کی عورتوں کے حقوق کی بات کی جاتی ہے تو زور و شور کے ساتھ یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ عورتوں نے اپنے حقوق کے لیے سینکڑوں سال تک جدو جہد اور آج کے یہ نام نہاد حقوق حاصل کئے۔ میں بصد ادب عرض کرنا چاہتی ہوں آپ نے تو یہ حقوق صدیوں کی جدوجہد کے بعدحاصل کئے لیکن میرے نبی محترم حضرت محمد صلّٰی اللہُ علیہِ وآلہ وسلم اور ان پر اترنے والا اللہ کا پاک کلام قرآن بہت پہلے عورتوں کو یہ مقام ،یہ عزت ، اور یہ رتبہ دے چکا ہے جو شاید آج بھی ان ماڈرن اقوام کی عورتوں کو حاصل نہیں۔

اسلام میں عورت کا مقام

آئیے دیکھتے ہیں مردو زن کی اس دنیا میں اسلام عورت کو کیا مقام دیتا ہے۔عورت کے مقام کا تعین اُسی وقت ہوگیا تھا جب حضرت حوّا کی تخلیق بطور حضرت آدمؑ کی شریک سفر کی گئی ،اصل میں یہی مرد و زن کا خوبصورت رشتہ ہے جو سب سے پہلے تخلیق پایا۔ اسکے بعد باقی رشتے بنتے چلے گئے۔ سورۃ بقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، عورتوں کیلئے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں، البتہ مردوں کو ان پر ایک درجہ حاصل ہے۔

یہ بات بہت پُرحکمت ہے کہ صرف ایک درجہ بلند کرکے مرد کو زیادہ ذمہ داریاں سونپ دی گئی ہیں۔ یہاں پر بھی عورت فائدے میں رہی کہ اس پر ڈائریکٹ کسی قسم کی ذمہ داری اسکے علاوہ نہیں ڈالی گئی ۔ قرآن میں حضرت مریم ؑ کا ذکر ہے، حضرت آسیہؑ کا تذکرہ ہے۔ اگر ہم حج کی با ت کریں تو سعی کو حج کے ارکان میں اس لئے شامل کر دیا گیا یہ ایک ماں کی سعی تھی ۔ اللہ کو ماں کی یہ سعی اتنی پسند آئی کہ وہ حج کا مستقل رکن قرار پائی ۔

اسلام میں عورت کے معاشرتی حقوق

جب معاشرے میں عورت کا مقام متعین کرنے کا وقت آیا تو اس کو اس قدر رتبہ دیا گیا اوراس قدر اسکے ناز اور لاڈ اٹھائے گئے کہ مردوں کو کہا گیا کہ اپنی نظروں کو جھکا کر رکھو اپنی نظروں سے بھی عورت کو ہراساں کرنے کی کوشش نہ کرو۔ شادی کے مقدس رشتے میں عورت کے مقام کو بنیادی مقام دیتے ہوئے اسکی عزت افزائی کی گئی ہے کہ مرد اس کو مہرادا کر یگا او راس کی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی ۔ عورت کا وراثت میں حصہ مقرر کر دیا گیا ۔ عورت کو اس کےحقوق دیئے جا رہے ہیں اور فرائض کے معاملے میں اس قدر نرم رویہ رکھا گیا ہے کہ اگر ماں اپنے بچے کو دودھ بھی پلانا نہیں چاہتی تو باپ معاوضہ دیکر اپنے بچے کو کہیں اور سے دودھ پلانے کا ذمہ دار ہے۔

الحمداللہ دنیا بھر میں میرے دین اسلام کو ماننے والی کوئی بھی عورت اسلام کی طرف سے نہ تو مجبور ہے اور نہ ہی بے بس، میرے دین میں عورت ہر روپ میں معزز و محترم ہے۔میں عورت کے حقوق کی بات کرنے والوں سے دست بستہ گزارش کروں گی کہ اسلام میں اگر ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کا مقام جاننا ہے توقرآن و احادیث اور سیرت صحابیات سے یہ بات باکل واضح ہے ۔

جواب چھوڑ دیں