آزادی عورت مارچ کی آڑ میں فحاشی ازم

بے پردہ کل کو آئیں نظر چند بیبیاں

اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا

پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا؟

کہنے لگیں کے عقل پہ مردوں کی پڑ گیا

(اکبر الہ آبادی)

آج کے اس دور کا المیہ اکبر کے اس دور سے کسی طور کم نہیں اس وقت بھی مغرب کی نئی نویلی تہذیب کو اپنانے کے شوق نے چند آوارہ مزاج اور مادر پدر آزاد لوگوں پر اپنی گہری چھاپ ڈالی تھی اور آج بھی دین اسلام اور مذہبی اقدار کو حبس بے جا اور غیر ضروری پابندی کا نام دے کر مغرب کی بے باک اور لادین آزادی کو مطمع نظر بنا کر کچھ لوگ عورت مارچ کے نام پر سڑکوں پہ نکلنے کا عزم لئے ہیں۔

عورت مارچ ذہنی فطور کے علاوہ کچھ نہیں ہے، عورتوں کے حقوق کی آڑ میں مغرب زدہ معاشرے کے چند بد دماغ اور بدقماش لوگوں کا رچایا کھیل ہے اور اس سب کا مقصد مسلم معاشرے میں فحاشی پھیلانے کے علاوہ کچھ نہیں،عورتوں کو دین اسلام سے پہلے اور دین اسلام کے بعد کبھی کسی اور دین نے اتنے مکمل اور جامع حقوق نہیں دیئے فقط اسلام ہی ایک ایسا دین ہے، جو خواتین کو مکمل تحفظ فراہم کرنے پر زور دیتا ہے، عورت کی بقا چادر اور چار دیواری ہی میں ہے۔

عورت مارچ اللہ اور رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پاک کے بتائے گئے احکامات کی کھلم کھلا نفی ہے۔

اللہ پاک قرآن کی سورۃ نور میں فرماتے ہیں:

*اے نبی اپنی عورتوں سے کہو کہ اپنی اوڑھنیاں اپنےسینوں پر ڈالے رہیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں *

یہ لبرز بیبیاں ننگے سر چست لباس اور بے حیائی کی اعلی مثال بن کر قرآن کی اس آیت اور اس جیسی تمام آیات جن میں عورتوں کو اپنے نسوانی وقار کا خیال کرنے،گھروں میں رکے رہنے اور زمانہ جاہلیت جیسی وضع قطع اختیار کرنے کی ممانعت فرمائی گئی ہے، کی کھلم کھلا اور ڈنکے کی چوٹ پر نفی کرتی نظر آ رہی ہیں۔

کلمے کے نام پر حاصل کئے گئے اس پاک وطن میں ان جیسے لب لرز کو ایسا بے ہودہ اقدام کرنے پر قانونی طور پر پابندی عائد ہونی چاہئیے،تمام پاکستانی قوم ان کے اس اقدام کی مذمت کرتی ہے۔

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ انڈیا ,پاکستان اور بنگلہ دیش میں بعض جگہوں پر عورتوں کے حقوق خصوصاً دیہاتی طبقوں میں پامال کئے جاتے رہے ہیں۔ان کی نامکمل تعلیم ،ان کا جائیداد میں حصہ نہ ملنا،ان کا جنسی استحصال،ناجائز جہیز کی ڈیمانڈ،بے جوڑ رشتے ,سسرالی مظالم،یہ اور ان جیسے اور ایسے مسائل جو واقعی حل طلب ہیں، مگر ان سب کے لئے جو طریقہ کار اپنایا جاسکتا ہے وہ غیر فطری اور غیر اسلامی ہر گز قابل قبول نہیں ہو سکتا۔

معاشرے کے سدھار کے لئے حلیہ بدلنے کی نہیں، سوچ اور مزاج بدلنے کی ضرورت ہے،اس بات کی ضرورت ہے کہ معاشرے کے سب افراد اسلام کے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں، قرآن و سنت کے اعلی احکامات پر عمل پیرا ہوں اور اچھے مسلم بننے کے لئے جدوجہد کریں۔

بقول اقبال!

*ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیئے*

*نیل کے ساحل سے لے کر تا بہ خاک کاشغر*

جواب چھوڑ دیں