مرضی بھی کوئی مرض ہو گویا

ایسا نہیں کہ اسلام سے قبل عربوں کا کوئی ضابطہ اخلاق یا قانون نہیں تھا لیکن وہ ضابطہ اخلاق وہ قانون قبیلے کے سردار کی مرضی کیمطابق تھا، جو اسے اچھا لگا یا اسکے قریبی ساتھیوں کو اچھا لگا اسے ضابطہ اخلاق یا قانون کا حصہ بنادیا گیا، اس طرح سے جتنے قبیلے اتنے ہی قوانین اور قوانین بھی وہ جو انسانیت کی تذلیل و توہین کرتے دیکھائی دیتے ، محدود سوچ محدود ذرائع تو محدود طرز کے قوانین۔

اسلام جہالت کے اندھیروں میں ڈوبی دنیا میں سورج بن کر ابھرا ، جس نے پہلے اہل عرب اور پھر ساری دنیا کی آنکھیں کھولیں اور علم جو محدود لوگوں کے قبضے میں تھا عام کیا ۔ حقیقی خالق سے روشناس کرایا ، سب کن کا محتاج ہے اس سے آگاہ کیا ۔کائنات پر اللہ رب العزت کا احسان ِ عظیم ہمارے پیارے نبی ﷺ کا آخری نبی ہونا ، کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھاتی کائناتی سچائی کی پہچان کراتی تمام جہانوں کی نادر و نایاب کتاب قرآن پاک کا رہتی دنیا تک کیلئے بطور رہنماء ہمارے درمیان چھوڑکر محفوظ کردیا جانا۔

لفظ مرضی سے کراہیت سی آتی ہے کہ جیسے کوئی موذی مرض اور میں ایک ساتھ مل گئے ہوں ، شور کررہے ہوں کہ میں اس مرض کا علاج نہیں کرائونگا۔یقینا یہ ایک معیوب بات ہے ۔بنیادی طور پر یہ انا کی بیماری ہے کہ جس کے مریض شاذ و نادر اس بیماری کا اعتراف کرتے ہیں اور اسکے علاج کیلئے رجوع کرتے ہیں۔دیکھنے اور سننے میں آتا ہے کہ یہ لوگ بستر مرگ پر اپنی میں کے ہاتھوں روح کو فنا ہونے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

لوگوں کی قلیل تعداد برملا یا جان بوجھ کر کسی ایسے معاملے میں الجھتے ہیں کہ جس سے انہیں کسی قسم کی شہرت مل جائے لوگ انہیں دیکھیں تو پہچان لیں اور ہم تو سیلفی کے زمانے میں رہ رہے ہیں ۔الغرض کہ کس مکتبہ فکر کی شخصیت کیساتھ اپنے آپ کو سماجی ذرائع ابلاغ کی نظر کر رہے ہیں۔ہم اپنی سماجی اقدار کوروندتے جا رہے ہیں اور یہ بھی بھول گئے ہیں کہ ہمارا تعلق ہماری شخصیت کا تاثر قائم کرتا ہے ۔

پاکستان کو بنے ستر سال سے زیادہ گزر چکے ہیں لیکن آج بھی عوام کو اسی مشکل میں الجھائے رکھا گیا ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کس مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ یقین سے کہتا ہوں کہ بانی پاکستان کے اس اہم ترین پہلو کی کھوج میں بہت بڑے بڑے عالم فاضل شخصیات کی تحقیق ہوگی ، لیکن انہیں کسی نتیجے پر نہیں پہنچنے دیا گیااور اس معمے کو بغیر حل کئے رکھنے والے تاحال نسل در نسل کامیاب ہیں۔ ہم جیسے کم علم والوں کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ جس کے نام کیساتھ محمد لگا ہو اور ساتھ ہی علی بھی تو پھر اسکے مسلمان ہونے پر کیسے شک کیا جاسکتا ہے۔

ہماری رائے کیمطابق تو یہ سب سے مصدقہ دلیل ہونی چاہئے۔ دوسری بڑی دلیل مسلمانوں کیلئے ایک الگ ریاست کے قیام کیلئے اپنی زندگی وقف کردی ۔ یہ وہ واضح دلائل ہیں جوایک عام مسلمان کے عقلی تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے کافی ہیں اسکے علاوہ ایسے بہت سارے پوشیدہ واقعات جو نجی زندگی سے بھی وابسطہ ہیں مسلمانوں کی روحانی تسکین کیلئے بھی کافی ہوسکتے ہیں لیکن اسکے لئے ہمیں انفرادی کھوج بغیر کسی کی مداخلت کے کرنی ہوگی۔ قوم کو جس طرح سے اردو کو قومی زبان بنانے کیلئے دی گئی قانونی حیثیت کو چھپایا جاتا رہا ہے ایسے بہت سارے امور ہیں جنہیں بیرونی سازش کہہ کر اپنی جان چھڑائی بھی جاسکتی ہے۔

ہمارے ملک میں قانون کسی نا کسی کے ماتحت رہا ہے سوائے قانون نافذ کرنے والوں کہ، جس کا جیسا دل چاہا وہ کیا، پھر یاتو کیس چلتے رہے اور نامعلوم وقت سے چلے جا رہے ہیںاور کمزور ، کمزور ترین ہوتا چلا گیا ۔ پولیس اصلاحات کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ اسلیے کہ ادارہ اپنے بنائے گئے ضابطہ اخلاق سے بھٹک گیا اور ضابطہ اخلاق کو بھی بھٹکا دیا بلکہ کہیں بھلا دیا، اب پولیس یا تو کسی کے حکم کیمطابق چلے یا پھر جو اپنی مرضی ہو وہ کرے (زیادہ کھولنے کی یقینا ضرورت نہیں)، تقریبا اداروں کا ایسا ہی حال رہا ہے جسکا منہ بولتا ثبوت بدعنوانی کا بے قابو ہونا ہے کسی کے کہنے میں کچھ کا کچھ کردیا ، جس کا کام ہوسکتا تھا اس سے بھی مٹھائی منوائی اور جسکا نہیں ہونا تھا اس سے تو پورے محکمے کیلئے مٹھائی منگوالی گویہ دادا جی کی فاتحہ حلوائی کی دکان پر ہی کروا دی۔ ادارے بری طرح سے تباہ و برباد ہوگئے یا پھر یہ کہیں لیں کے میری مرضی کی نظر ہوگئے۔

انسان کو چاہئے کہ جب اسکی سوچیں بھٹکنے لگیں تواسے اپنی محتاجیوں پر نظر ڈال لینی چاہئے، جیسے کہ اللہ رب العزت نے فرمایا ہے کہ اللہ کی مرضی کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں ہل سکتا، غور کیجئے کتنی ہی آنکھیں ہمارے ارد گرد ایسی ہیں جو بظاہر تو کھلی ہیں لیکن بینائی سے محروم ہیں ، ایسا ہی حال سماعت کا بھی ہے ، ہم اپنی سانس کو کتنی دیر تک روک سکتے ہیں اور اگر خود ہی رکنے لگ جائے تو مصنوعی عمل تنفس بھی کام نہیں کرتابھلے کتنے ہی آکسیجن کے سلینڈر لا کر رکھ لیکں، درد میں تڑپتے ہیں لیکن کسی کو درد دیکھا ہی نہیں سکتے اور پھر کیسے اس درد سے نجات مل جاتی ہے یہ سب سمجھ سے بالا تر ہے (انکے لئے جو اللہ اور اسکی قدرت سے ناواقف ہیں)۔

ہم سب ایک ضابطہ اخلاق کی پیروی کرتے ہیں جو ہمارے پیارے نبی ﷺ نے اللہ کے بھیجے ہوئے قرآن کی روشنی میں ترتیب دیا۔ہم سب مختلف خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں ، مختلف زبانیں بولتے ہیں ، مختلف علاقوں میں رہتے ہیں ،کسی کی خاندانی وراثت کچھ ہے تو کسی کی کچھ لیکن ہم اپنے مخصوص برتائو کی بنیاد پر معاشرے میں اپنی پہچان بناتے ہیں جو کہ رہن سہن بھی ہوسکتا ہے ، میل جول بھی ہوسکتا ہے اور لڑائی جھگڑا بھی۔ یہ سارے وہ عوامل ہے جو ہمارے تعلق داروں کا پتہ دیتا ہیں اور آگاہ کرتے ہیں کہ آپ کا خاندان میں ضابطہ اخلاق نامی کسی قدر کا وجود ہے یا نہیں۔

ضابطہ اخلاق درحقیقت ایک کھونٹا (جس پر رسی کی مدد سے جانور کو باندھا جاتا ہے)ہے۔ جانور کو باندھنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے سامنے رکھا ہوا کھانا کھائے اور ادھر ادھر گند میں منہ نا مارے ، اگر جانور بندھا ہوا نا ہو تو پھر کہیں بھی منہ مارتا پھرتا ہے۔ حضرت انسان بھی اپنے اپنے معاشرتی ضابطہ اخلاق کے کھونٹے سے بندھے ہوئے ہیں لیکن کچھ سر پھرے عناصر اپنے مالک کی رسی تڑوا کر بھاگ گئے ہیںاور اب ادھر ادھر اپنی مرضی کا نعرہ لگاتے ہوئے منہ مارتے پھر رہے ہیں۔

حکومتِ وقت نے سماجی ذرائع ابلاغ کیلئے ضابطہ اخلاق ترتیب دینے کا اعلان کیا ، اس اعلان کے بعد سے جیسے کوئی بھونچال آگیا اور ایک بحث نے جنم لے لیا ابھی یہ بحث کسی منتقی انجام تک نہیں پہنچی تھی کہ اس سے باقاعدہ جوڑنے کیلئے ایک نئی بحث بعنوان میرا جسم میری مرضی چھیڑ دی گئی ۔ گوکہ یہ بحث نئی نہیں کیونکہ ہر دفعہ آٹھ مارچ کو عورتوں کا عالمی دن کے قریب آتے ہی ایک مخصوص طبقہ اس بحث کو کسی کی ایماء پر بھرپور انداز میں اٹھا دیتا ہے ۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا لیکن اس با ر اس گروہ کی نمائندہ ماروی سرمد کا واسطہ میرے پاس تم ہو والے خلیل الرحمن قمر صاحب سے پڑ گیا،جو ایسی کسی بھی تحریک جس میں کسی بھی طرح سے قابل احترام خواتین کا استحصال کیا جائے بھرپور سرکوبی کرنے کیلئے قمر بستہ ہیں۔

خلیل الرحمن صاحب نے تو جیسے معاشرے کی اکثریت کی زبان بول دی اور موقع کی نزاکت کو خاطر میں نا رکھتے ہوئے بھرپور بول دی (ہمارے خیال میں اگر اپنی حدود کا خیال نا ہوتا تو بہت کچھ بولنے کا ارادہ رکھتے تھے)۔شدت جذبات لفظوں کے چنائو میں آڑے آگئے جس پر تنقید بجا ہے مذمت بجا ہے، جسکی وجہ یہ ہے کہ عورت کے تقدس میں عورت کی توہین نہیں کی جاسکتی ہاں عورت کے عمل کی بھرپور مذمت کرنی چاہئے جوکہ کی جارہی ہے ۔ ہمیں یقین ہے کہ ہمارے معاشرے کی اسی فیصد خواتین کسی ایسے نعرے کی تائید نہیں کرنا چاہتی کہ جس میں ذہنی مرض جیسی مرضی کا سوال ہو۔ الحمدوللہ ہمارے معاشرے میں عورت کو اعلی ترین مقام حاصل ہے ۔ ہاں اس جہالت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ جہاں عورت کو آج بھی تذلیل کا سامنا ہے اور یقین سے لکھ رہا ہوں کہ تذلیل کرنے والے مرد بھی وہی ہیں جو مرضی والی عورتوں کہ حمائتی ہیں کیونکہ جو ان عورتوں کی مرضی ہے اس کا فائدہ ایسے ہی مرد اٹھاتے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان صاحب اور انکے وزیروں مشیروں سے خصوصی درخواست ہے کہ ایک ایسا ضابطہ اخلاق مرتب دیں کہ جس کی روح سے ریاست مدینہ کا تصور اجاگر ہو اور معاشرتی اقدار کو توڑ مڑوڑ کر پیش کرنے والوں کا قلع قمع ہو۔اسکے ساتھ ہی ہر اس فرد واحد سے درخواست ہے کو کچھ وقت اپنے معاشرے کے سدھار کیلئے نکالیں بغیر کسی چھان پھٹک کہ اس مرضی والے معاملے جیسے تمام امور کا بغور جائزہ لیں اپنی سی تحقیق کریں ، قران اور سنت سے رابطہ کرنا سب سے آسان اور مستند تحقیق ہوجاتی ہے ،بغیر کسی نظرئیے کو پرکھے کسی بھی قسم کی رائے قائم نا کرے اور نا ہی اس رائے کو آگے بڑھائے۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔

جواب چھوڑ دیں