اخلاقیات اور انسانیت کا جنازہ، میرا جسم میری مرضی

چند ماہ قبل سوشل میڈیا کے توسط سے “میرے پاس تم ہو” کے بارے میں کافی کچھ نظروں سے گزرا۔ ویسے تو ٹیلی ویژن دیکھنے کا وقت ہی نہیں ملتا جب کبھی فرصت ملے بھی تو اسپورٹس چینل پر کرکٹ دیکھ کر دل کی منشاء پوری کر لیتا ہوں، یا کبھی کبھار نیوز دیکھ سن لیں۔

“میرے پاس تم ہو” کا طوفان بد تمیزی ہر سو پھیلا دیکھ کر تجسس بڑھا اور اس سیریل کا جائزہ لینے کے لیے سرسری نظر ڈالی تو معلوم ہوا کہ ایک شادی شدہ خاتون مادی لالچ میں آ کر اپنے چھوٹے سے بچے اور خاوند کو چھوڑ کر موسمی آشنا کے پاس چلی گئی۔ جبکہ اس کا خاوند محبت کے نام پر نہ صرف اس کے سامنے سرنگوں ہوا بلکہ موت سے قبل تک “مہوش” نامی کردار کا رسیا اور دلدادہ بھی رہا۔

ایک مسلم ریاست اور مشرقی روایات کے حامل معاشرے میں اس کہانی کو دیکھانے کا مقصد بے راہ روی اور بے حیائی کو فروغ دینے کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس ڈرامے کے خالق مشہور شاعر اور کہانی نویس “خلیل الرحمان قمر” ہیں۔ جو اس سے پہلے بھی اپنے لکھے ڈراموں میں کئی متنازعہ کردار اور جملوں کی بدولت شہ سرخیوں میں رہے ہیں۔

ایک انٹرویو میں موصوف نثر نگاری میں ننگ زبان “منٹو” اور شاعری میں بدنام زمانہ “جون ایلیا” کو اپنا پیرو مرشد تسلیم کر چکے ہیں۔ “خلیل الرحمان قمر” کے اس تعارف کا مقصد قارئین کی توجہ اس نقطہ کی جانب مبذول کروانا مقصود ہے کہ ان دنوں ایک خالص لبرل آدمی (خلیل الرحمان قمر) کی گفتگو ہر طرف موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔

دراصل چند روز قبل یہ شخص ایک ٹیلی ویژن ٹاک شو میں نام نہاد انسانی و خواتین کے حقوق کی نام لیوا ” ماروی سرمد” نامی بد زبان عورت سے الجھ بیٹھا۔ وجہ فساد ایک نعرہ “میرا جسم میری مرضی” بنا جو خلیل الرحمان قمر کی گفتگو کے درمیان یہ عورت لگا رہی تھی۔ بارہا ٹوکنے کے باوجود جب “ماروی سرمد” باز نہ آئی تو یہ صاحب گالم گلوچ اور بد زبانی پر اتر آئے، یہ تصویر کا ایک رخ ہے دوسرا بھی ملاحظہ فرمائیں۔

ہم جنس پرستی کی وکیل اور ملحدین کی ساتھی “ماروی سرمد” انتہائی بدتمیز اور اخلاقیات سے کوسوں دور (شاید انسانیت سے بھی) ایک ایسا کردار ہے جو اس سے پہلے بھی مختلف اسکینڈل کی وجہ سے خبروں کی شہ سرخیاں بنتا رہا ہے۔

“ماروی” جیسی چند فیمنسٹ، بعض این جی اووز، کچھ صحافتی لبادہ اوڑھے کالی بھیڑیں اور مخصوص ٹیلی ویژن چینلز ایک خاص ایجنڈے کے تحت مملکت خداداد پاکستان میں خواتین کی آزادی اور حقوق کے نام پر اسلام اور نظریہ پاکستان کے خلاف ایک منظم مہم اور غلیظ پروپیگنڈے کے ذریعے اپنا اپنا گندہ دھندا چلا رہے ہیں۔ لبرل ازم کے نعرہ کی اوٹ میں چھپے اس بد کردار اور انتہا پسند ٹولے کی بد اخلاقی سے اب پوری قوم آگاہ ہو چکی ہے۔

دو تین سال پہلے جب خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے اس گروہ نے “عورت مارچ” نامی ایونٹ کا انعقاد کیا تو ان کی اصلیت عام عوام کے سامنے عیاں ہونا شروع ہوئی۔ لیکن پچھلے سال اس “عورت مارچ” میں جس طرح کے حیاء باختہ پوسٹر سامنے آئے اس سے پورے ملک میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ عورت کی آزادی اور حقوق کے نام پر بے راہ روی کی دعوت دیتے ایسے نعرے، تحریریں، تصویریں اور پلے کارڈز دیکھ کر لبرل بھی شرمندہ ہوئےبغیر نہ رہ سکے، خلیل الرحمان قمر اس کی روشن مثال ہے۔

پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا دور تقریبا گزر چکا اب سوشل میڈیا کا زمانہ ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے جہاں منٹوں سیکنڈوں میں خبروں تک رسائی ممکن ہے وہیں عام آدمی کو اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کا موقع بھی ملا ہے اور یہی میڈیا پبلک کے خیالات و رائے کے برملا اظہار کا ذریعہ بھی بنا۔ یہی وجہ ہے کہ مذکورہ بالا واقعے پر پورے ملک میں ہر کوئی ماروی سرمد اور خلیل الرحمان قمر کی بحث پر اپنا اپنا نقطہ نظر بیان کرنے میں مگن ہے۔

خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک ہو یا ان کے دیگر حقیقی مسائل جیسے تعلیم، صحت، انصاف، گھریلو تشدد یا جنسی ہراسگی، وراثت میں حق ہو یا جہیز جیسی لعنت سمیت دیگر معاملات، ہر ذی شعور انسان ان مسائل کے حل کے لیے خواتین کا ہم آواز و ہم نوا بننے میں فخر محسوس کرے گا۔ مقبوضہ کشمیر میں خواتین دہائیوں سے ہندی افواج اور ریاستی تشدد کا سرعام شکار ہیں۔

حالیہ چند ہفتوں پر ہی نگاہ دوڑائیں تو جواہر لال نہرو یونیورسٹی، جامع ملیہ اور دِلی سمیت پورے ہندوستان میں بنت حوا کو ریاستی جبر کا نشانہ بنتے پوری دنیا نے دیکھا لیکن اس ظلم پر کسی فیمنسٹ، عورت یا حقوق کے نام پر مداری گروہ کو ظلم کی مذمت تک کرتے نہ سنا۔

فرانس میں حجاب پر پابندی کا معاملہ ہوا تو آزادی اور مرضی کے قصیدے پڑھنے والے اسی حجاب کو نوچتے دکھائی دیئے۔ یعنی ایک عورت اپنی مرضی اور منشا سے پردہ کرے تو ناقابل برداشت اور پابندی کا شکار مگر ننگ دھڑنگ ہونے کا مطلب آزادی ٹھہرا۔ واہ رے آزادی کے منصفو!

فلسطین، شام، برما سمیت کرہ ارض پر جہاں کہیں بھی اسلام کی بیٹیاں ظلم کا شکار ہوں وہاں ان جسم کے کاروباری فیمنسٹوں کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ درحقیقت ان چند “آنٹیوں” اور ہوس کے پچاری ان کے ساتھی “انکل” حضرات کو خواتین کے مسائل سے کچھ سروکار نہیں، جسم کے تاجر ان “گوشت خوروں” کو عورت کی آزادی کے نام پر عورت تک رسائی کا راستہ چاہیے۔

عورتوں کے حقوق، ان کی آزادی اور تحفظ کا جتنا خیال اسلام نے رکھا دنیا کا کوئی فیمنسٹ یا کوئی دوسرا مذہب اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اسلام کو عملی طور پر اپنائیں۔ اس بات کو سمجھیں کہ مرد اور عورت ایک ہی گاڑی کے دو پہیے ہیں جن کا اپنا اپنا کردار ہے۔

بیٹی رب کریم کی رحمت ہوتی ہے لہذا بیٹے اور بیٹی کے فرق کو مٹائیں اپنی بہنوں بیٹیوں کو اچھی تعلیم و تربیت فراہم کریں، زندگی کے اہم فیصلوں میں ان کی پسند و ناپسند کا خیال کریں، اللہ رب العالمین نے وراثت میں صنف نازک کو جو حصہ دیا ہے وہ ان کا حق ہے اور اسے کامل ادا کریں۔ جہیز کی لعنت کا قلع قمع اور شادیوں میں دیر نہ کریں۔ اگر ایسا ہو جائے تو یقین مانیں نہ ہمیں “خلیل الرحمان قمر” کی اخلاق سے گری گفتگو سننے کو ملے گی اور نہ ہی “ماروی سرمد” یا دوسرے فیمنسٹ “میرا جسم میری مرضی” جیسے ناپاک ایجنڈے میں کامیاب ہوں گے۔

جواب چھوڑ دیں