عزت کی نیلامی

کل اور پرسوں کسی کہ اسٹیٹس پہ نظر پڑی تو ایک جملہ پڑھنے کو ملا۔ ’’میراجسم میری مرضی‘‘

ایک۔لمحہ کے لیے تو حیران رہ گئی پھر سوچا ویسے ہی میڈیا کا کوئی پروپیگنڈا ہو گا یہ سوچ کہ اگنور کر دیا۔ دوسرے دن دوبارہ نظر سے ایک اسٹوری گزری۔ اس جملہ پہ۔کسی نے بڑے زبردست طریقہ سے جواب دیا تھا۔

اسی کہ ساتھ دیکھا تو بھائی کی طرف سے مرد کی برابری کرنے اور عورت مارچ کہ حوالے سے ایک کاپی شدہ تحریر ملی ،جب پڑھا تو حیران ہوئی کہ آخر یہ ’’عورت مارچ‘‘ ہے کیا؟

اس تجسس نے مجھے انٹرنیٹ پہ اس کی معلومات دیکھنے پہ مجبور کیا۔ تمام تر مکمل معلومات دیکھنے کہ بعد جو میرا ذہین بنا تو میں اس ’’عورت مارچ‘‘ کہ حوالے سے لکھے بغیر نہ رہ سکی۔میں بذات خود عورت مارچ کہ حق میں ہوں ہی نہیں۔

ہمارے اسلام اس طرح عورتوں کو گھر سے باہر نکل کر سڑکوں پر ڈانس کرنے کی اور پلے کارڈ اور بینرز نکال کر اپنا حق مانگنے کی اجازت ہی نہیں دیتا ،جو عورتیں اسلام کے نام پر عورت مارچ کرنے کے حق میں ہیں میں ان کے بالکل خلاف ہوں۔ گھر کہ اندر کی چیز گھر کے اندر ہی اچھی لگتی ہے اور جب کبھی گھر سے باہر نکلنے کی ضرورت کسی مجبوری میں پیش آئے تو وہ بھی اس طرح کے کام کریں کہ جو عورتوں کے حق میں بہتر ہوں نہ کہ ایسے فحاشی والے کام جس سے ہمارا سلام منع کرتا ہو۔

عورت مرد کی کونسی برابری کرنا چاہ رہی ہے وہ باہر جاکر کمانا چاہ رہی ہے تو عورت کو اس بات کیلئے بنایا ہی نہیں گیا ،عورت کو گھر کی چار دیواری کے اندر رہ کر اپنے گھر کی حفاظت کرنا اور اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کرنے کے لیے بنایا گیا ہے، جو کام مردکے کرنے کے ہیں وہ مرد ہی کریں اور جو عورت کے کرنے کے ہیں وہ عورت سے کروائے جائیں۔

کیا اب ہمارے گھر کے مرد چوڑیاں پہن کر گھر پر بیٹھ جائیں اور عورت جا کر کمائے اپنی عزت بھی نیلام کرے اور کما کر بھی لے کر آئے ایسی لبرل ازم کی اجازت صرف اور صرف غیرمسلم ہی دے سکتے ہیں۔

بینرز اور پوسٹرز میں جس طرح کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اور جس طرح کے پوسٹرز بنائے گئے ہیں میں نے تو صرف ایک نظر ہی دیکھے ہیں۔

خواہ اس کے پیچھے مقاصد اچھے ہوں یا برے الفاظ غلط ہیں اور غلط الفاظ استعمال کرنے کی اجازت نہ تو ہمارا معاشرہ دیتا ہے اور نہ ہی ہمارا دین دیتا ہے اس سے بہتر تو یہی ہے کہ ہم چولو بھر پانی میں ڈوب مریں۔

ہمارا اسلام ہمیں اس بات کی اجازت تو ہرگز نہیں دیتا کہ “ہمارا جسم ہماری مرضی” اس بات کا کیا مقصد ہو گیا؟ ہمارے جسم پر بھی ہمارا اختیار نہیں ہے، اللہ تبارک و تعالی نے ہمارے جسم کو بھی استعمال کرنے کے لئے طریقہ کار بتا دیے ہیں، ہمارا اتنا حق بھی نہیں ہے کہ ہم اپنے طریقے سے اپنے جسم کو استعمال کریں، اس کے اوپر پہننے کا طریقہ تک ہمارے اسلام نے بتا دیا ہے، ہم اپنی مرضی کسی چیز میں کر ہی نہیں سکتے، ہمیں تو اپنے اسلام کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلنا ہے جس طریقے سے اسلام ہمیں چلنے کا کہتا ہے ہم نے اسی طریقے سے کرنا ہے۔

جب ہمارے دین میں ہر چیز کو وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے تو یہ کون سا طریقہ کار ہے کہ آپ اس طرح کے پوسٹر بناکر سڑکوں پر نکلیں اور گانے لگا کر ڈانس کریں ،نہ آپ کو اپنے لباس نہ پردے اور نہ ہی محرم غیر محرم کا پاس رہے اور آپ کو پوری دنیا دیکھے ہمارا دین ہمیں اس بات کی اجازت ہرگز نہیں دیتا۔

اس کے علاوہ یہاں یہ کہنا ضروری سمجھتی ہوں کہ جو عورتیں،بچوں کے حقوق عورتوں سے زیادتی اور بچوں کے ساتھ زیادتی کے معاملات پر عورت مارچ کر رہے ہیں ، وہ ایک الگ مسئلہ ہے اور عورت مارچ ایک الگ مسئلہ ہے، عورت مارچ کا پس منظر کچھ اور ہے اور اسے ہم مسلمانوں نے ایجاد نہیں کیا یہ ایک غیر مسلم ملک کی ایجاد ہے اور اس کے پیچھے ان کے معاشرے کی کیا ضرورت ہے، وہ ان کے معاشرے کی ضرورت کے تحت بنایا گیا ہے۔ یہ ضرورت ہمارے معاشرے کی ہے ہی نہیں کیونکہ ہمارے معاشرے کو اسلام نے عورتوں کے مکمل حقوق اور رہنمائی پہلے سے دے دی گئی ہے، جہاں عورتوں کا ایک خاص مقام پہلے ہی طے پا چکا ہے۔ ہمارے معاشرے میں عورت ماں ہے ، بیٹی ہے، بیوی ہے، بہن ہے اور سب سے بڑھ کہ ایک عورت عورت ہے اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔

ہاں یہاں اس بات کی اجازت نہیں کہ عورت صرف گرل فرینیڈ اور وقت گزری کا ذریعہ بنے۔ ہمارے معاشرے میں پاکیزہ اور نیک رشتے ہیں جو امیتاز کرتے ہیں مرد اور عورت میں اور جو رتبے عطا کرتے ہیں ایک دوسرے کو۔

اور اگر مغرب کی بات کروں تو نہ وہاں عورتوں کی کوئی عزت ہے نہ کوئی رشتہ نہ کوئی مقام اور نہ ہی کوئی رتبہ تو وہاں کی عورتوں کو مرد کہ برابر لانے کے لیے اس لحاظ سے عورت مارچ ترتیب دیا گیا تھا کہ مرد عورت کو کوئی مقام دیں۔

ہم۔کیوں اپنے معاشرے میں مرد عورت کا موازنہ کرنے پہ تل گئے ہیں؟ ہمارے معاشرے میں مرد کا اپنا مقام ہے اور عورت کا اپنا مقام ہے۔

اب 2018 سے “عورت مارچ”جو ہمارے ملک میں آگیا ہے تو میرے خیال سے یہ بھی غیر مسلم لوگوں کی ایک چال ہے، جو کہ نہ صرف ہمارے ایمان بلکہ ہمارے نظریات پہ بھی ایک وار ہے، جس سے ہمارا دین اور ہماری روایات پر ایک بہت ہی برا اور غلط اثر مرتب کر رہے ہیں اور ہمیں ان چیزوں میں شامل کرنا چاہ رہے ہیں جو کہ ہمارے دین کا حصہ ہی نہیں۔

ابھی بھی وقت ہے۔اے مسلمانو! سمجھو یہ صرف حقوق کی لڑائی نہیں بلکہ ہمارے ایمانیات کو کمزور کرنے کی بھی سازش ہے جس سے معاشرتی اور اخلاقی برائیاں ہمرے معاشرے میں جڑ کر رہی ہیں اور ہم اندر سے کھوکھلے ہو رہے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں