خواتین کے حقوق کا پاسبان …اسلام اور صرف اسلام

جدید تعلیم یافتہ جنہیں پڑھے لکھے جاہل کہنا زیادہ مناسب ہو گا ان کی طرف سے یہ بات تواتر و تسلسل سے کہی جا رہی ہے کہ عورت معاشرے کا مظلوم ترین طبقہ ہے ۔ اس کے حقوق پامال کیے جارہے ہیں اور ساتھ ساتھ تہذیب یورپ کے زیر سایہ پلنے والے اور اس کی حیا باختہ اورمدر پدر آزاد تہذیب سے متاثر ہونے والے بے ضمیر انسانوں کی طرف سے یہ بات سننے کو مل رہی ہے کہ یورپ نے عورت کو آزادی دے رکھی ہے۔

اس کو زندگی کے ہر شعبے میں مردوں کے قائم مقام لاکھڑا کر دیا ہے ،جس کی بدولت عورت خوب ترقی کر رہی ہے ۔ اس کو مردوں کے مساوی حقوق دیے جا رہے ہیں لیکن یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ دنیا کے کسی بھی مذہب و قانون نے کسی تہذیب و تمدن نے کسی معاشرہ و سوسائٹی نے صنف نازک کو وہ مقام و مرتبہ نہیں دیا جو دین اسلام نے عورت کو دیا ہے۔

بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ مقام و مرتبہ دینا تو دور کی بات ہے غیراسلامی تہذیبوں میں عورت کی حق تلفی ہوئی ، اس کے ساتھ ناانصافی ہوئی اسے منحوس اور ذلیل سمجھا گیا، اسے شیطان کا ایجنٹ قرار دیا گیا،اسے شر اور فساد کی جڑ ثابت کیا گیا۔ مغربی اور یونانی تہذیب سے متاثر ہونے والے ذرا غور کریں کہ قدیم یونان میں صنف نازک کو شیطان کی بیٹی ،منحوس اور نجاست کا مجسمہ سمجھا جاتا رہا ،عورت غلاموں کی طرح بازاروں میں بکتی رہی اسے میراث سے محروم کر دیا گیا، رومیوں نے عورت کو جانور کا مقام دیا۔

اہل عرب زمانہ جاہلیت میں عورتوں کو زندہ درگور کرتے رہے ۔ یہودیوں کے نزدیک اس بات میں شک ہونے لگا کہ عورت انسان بھی ہے کہ نہیں بلکہ یہودیوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ عورت شیطان کی سواری اور اس کا بچھو ہے۔ ہندو اس کی جداگانہ حیثیت کو تسلیم نہ کرتے تھے حتی کہ عیسائیوں نے 582عیسوی میں یہ فتویٰ دے دیا کہ عورتیں روح نہیں رکھتیں اِسی پر بس نہیں بلکہ یوحنا کی طرف یہ قول منسوب کیا گیا کہ عورت شر اور فساد کی جڑ ہے۔ بعض کا یہ قول بھی ہے کہ عورت شیطان کا ایجنٹ، دوزخ کی چوکی دار اور امن کی دشمن ہے۔

عجیب اتفاق ہے کہ جس وقت 582عیسوی میں کلیسا کی مجلس کے عیسائیوں کی کمیٹی یہ فتویٰ صادر کر رہی تھی کہ عورتیں روح نہیں رکھتیں۔ اس سے چند سال پہلے جزیرۃ العرب میں اللہ تعالیٰ کے وہ آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہو چکے تھے ،جو تمام کچلے ہوئے انسانوں کے حقوق کے پاسباں تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آ کر عورت کو ذلت و پستی کی گہرائیوں سے اٹھا کر عظمت و رفعت کے بلند مقام پر فائز کرتے ہوئے یہ اعلان فرمایا کہ لوگو مجھے تمہاری دنیا میں سے عورت اور خوشبو پسند ہے۔

اسی طرح پیغمبر کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے متعلق باطل نظریات کا شیرازہ بکھیرتے ہوئے یہ اعلان کر دیاکہ:’’دنیا بہترین متاع ہے اور بہترین متاع نیک عورت ہے‘‘۔ دین اسلام نے یونانیوں کے غلط افکار کو حرف غلط کی طرح مٹاتے ہوئے ماں کے قدموں کے نیچے جنت رکھ کر عورت کو ذلت کےگڑھے سے اٹھا کر بام ثریا تک پہنچا دیا اور مزید امام کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے حقوق کو واضح کرتے ہوئے فرمایا:جو اپنی بیٹیوں کی اچھی طرح پرورش و تربیت کرے یہاں تک کہ وہ جوانی کو پہنچ جائیں تو قیامت کے دن وہ میرے ساتھ ہو گا جیسے دو انگلیاں ساتھ ساتھ ہیں۔

ان تمام حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ عورت مظلوم تھی دین اسلام نے اسے عظمتوں سے سرفراز کر دیا، یہ عورت پہلے گرد راہ تھی، اسلام نے اسے سرمہ چشم بنا دیا، یہ کانٹوں کے بستر پر تھی، اسلام نے اسے پھولوں کی سیج پہ بٹھا دیا، یہ پامال تھی اسلام نے اسے باکمال بنا دیا، یہ برباد تھی اسلام نے اسے شاد کر دیا، یہ موت و حیات کی کشمکش میں تھی اسلام نے اسے نئی زندگی عطا کر دی۔ کون کہتا ہے کہ اسلام نے عورت کو حقوق نہیں دیے؟

تہذیب یورپ کے ایجنٹ چاہتے ہیں کہ عورت کی مامتا کو گم کر دیں، عورت کے گھر کو برباد کردیں،بیٹی کو شفقت و محبت سے محروم کر دیں، اس کی جوانی کو کھلونا بنایا جائے اور اس کے جسم کو جنس ارزاں قرار دیا جائے ،اس کے حسن کو اُجاگر کر کے اسے شمع محفل بنایا جائے اور معاشرے میں بے راہ روی کی فضا پیدا کر دی جائے، ایسی بے حیائی کو فروغ دینے اور ایسا ذہن رکھنے والے نام نہاد سیاستدان ہماری بہن ،بیٹی کے سر سے آنچل چھیننا چاہتے ہیں۔

                                             میرے  وطن  کی مٹی  نیلام  ہونے لگی ہے

                                             بغاوت اس کے خلاف سرعام ہونے لگی  ہے

                                             یاالٰہی!بھیج دے امہات المومنین جیسی عورتیں

                                             کیونکہ کافروں کی خباثت عام ہونے لگی ہے

خدارا!میری اسلامی روحانی ،مائوں، بہنوں!اسلام نے جو تمہیں مقام و مرتبہ دیا ہے اسے سمجھنے کی کوشش کرو ۔ یورپی سراب کی گندی تہذیب پر چل کر اپنے خاندان، اپنی زندگی اور اپنے گھروں کو برباد نہ کرو کیونکہ دین اسلام تمہارے حقوق کا پاسبان ہے۔

حصہ
mm
امیر حمزہ بن محمد سرور سانگلہ ہل ضلع ننکانہ کے رہائشی ہیں۔انہوں نے عربی اور اسلامیات میں ماسٹرز کیا ہے۔ سانگلہ ہل کے نواحی گاؤں علی آباد چک نمبر112میں مستقل رہائش پذیر ہیں ۔ان دنوں فیصل آبادمیں ایک رفاہی ادارے کے ساتھ منسلک ہیں، ان کے کالمز روز نامہ’’ امن ‘‘ روزنامہ’’ قوت‘‘روز نامہ’’ سماء‘‘ روزنامہ’’حریف‘‘ میں شایع ہوتے ہیں۔اپنے نام کی مناسبت سے ’’امیرقلم ‘‘ کے زیر عنوان لکھتے ہیں۔ ماہ نامہ’’ علم وآگہی ‘‘اوراسی طرح دیگردینی رسائل وجرائدمیں مختلف موضوعات پرمضامین سپردقلم کرتے رہتے ہیں۔انہوں نے نیشنل لیول پرکئی ایک تحریری مقابلہ جات میں حصہ لیااورنمایاں پوزیشنیں حاصل کیں ۔شعبہ صحافت سے خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں ۔ ای میل:hh220635@gmail.com

جواب چھوڑ دیں