اللہ کا احسان ہمارے محافظ ہمارے قوام

جنوری کی ایک یخ بستہ صبح تھی، ہفتے کا روز تھا گزشتہ رات ہی سے گہر ے بادلوں نے آسمان کو گھیر رکھا تھا ۔ صبح فجر کے وقت ہلکی ہلکی پھوار نے یکدم خنکی میں مزید اضا فہ کر دیا تھا ۔ آج میرے چھوٹے بیٹے کے اسکول میں Parents & Teachers Meeting تھی ۔

چونکہ اسکول صدر کے مصروف کاروباری علاقے میں تھا اسی لیے ہم نے صبح سویرے ہی نکلنا مناسب سمجھا تاکہ ٹریفک کے اژدھام سے بچا جا سکے ۔ جلدی جلدی ناشتہ کیا بیٹے کو ساتھ لیا اسکول کی جانب روا نہ ہوئے ۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی مجھے احساس ہوا کہ اچانک سے ٹھنڈی ہوائیں بھی چلنا شروع ہو چکی تھیں۔

لہٰذا میں نے اچھی طرح گرم شال کو اپنے چاروں طرف لپیٹا اور گاڑی کے شیشے اوپر چڑھا دیئے تا کہ ہوا کی ہلکی سی رمق مجھ تک نہ پہنچ پائے ۔ ابھی گلی سے نکل کر بڑی سڑک کی جانب بڑھے ہی تھے کہ سامنے کے ۔ ایم۔سی کے عملے کے افراد بڑی بڑی جھا ڑو لیے صفائی میں مصروف نظر آئے ۔

مجھے بہت حیرت ہوئی کیونکہ مین روڈ کے وسیع و عریض رقبے پر ہوائوں کی رفتار اور شدت بھی کافی زیادہ تیز تھی اور وہ خاکروب معمولی گرم کپڑ وں کے سہارے اس قدر یخ بستہ ہوائوں میں مستعدی کے ساتھ اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہے تھے میرے شوہر صاحب میرے فکرمند چہرے کو دیکھ کر مسکرانے لگے وہ میری پریشانی کا سبب بھانپ گئے تھے کیونکہ وہ میری عادت سے اچھی طرح واقف تھے ۔

میں کسی کو بھی پریشانی اور دقت میں دیکھ کر بے چین ہو جاتی ہوں ، انہوں نے مجھے سمجھاتے ہوئے کہا کہ ارے بھئی یہ تو ان کا رو ز کا کام ہے ۔ یہ اس ڈیوٹی کے عادی ہیں ،آپ تو گھر سے اس وقت نہیں نکلتیں اسی لیے حیران ہورہی ہیں میں تو روز انہیں ایسے ہی کام کرتے دیکھتا ہوں ۔

دل ہی دل میں میں ان کے لئے دعائیں کرنے لگی کہ اگر یہ خاکروب ہماری سڑکیں اور گلیاں صاف نہ کریں تو ہم بڑی پریشانی میں پڑ جائیں گے ۔ اب ہم گو لیمار چورنگی کی طرف رواں دواں تھے ۔ دھول اڑاتے خاکروب اب نظروں سے اوجھل ہوچکے تھے۔ قریبی پیٹرول پمپ پر ہم نے گاڑی رو کی تا کہ فیول بھروایا جا سکے ۔

غیر معمولی سردی کی وجہ سے پیٹرول پمپ بھی ویران پڑا تھا ۔ پیٹرول پمپ پر دو نو عمر دبلے پتلے لڑکے یونیفارم میں ملبوس کھڑے تھے ۔ انکی عمر 17 یا 18کے ہی لگ بھگ ہوگی ۔ اس عمر کے لڑکے اسکول کالج جاتے ہیں مگر لگتا ہے کہ حالات نے انہیں تعلیم کے زیور سے محروم کرکے پیٹرول پمپ کی ملازمت اختیار کرنے پر مجبور کردیا ہے۔

میرے شوہر صاحب نے کھڑکی کا شیشہ کھولا اور فیول بھروانے کے لئے ہدایات دینے لگے ۔ شیشہ کھلتے ہی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا گاڑی کے اندر داخل ہو گیا ۔ پچھلی نشست پر بیٹھے میرے بیٹے نے شور مچادیا “پاپا جلدی سے شیشہ بند کریں مجھے سردی لگ رہی ہے ” “پاپا جی” نے جلدی سے فیول کے پیسے لڑکے کے ہاتھ میں تھمائے اور شیشہ چڑھا لیا کہ مبادا ان نے لاڈلے بیٹے کو “فلو” نہ ہوجائے ۔

اتنے میں ایک اور گاڑی آگئی اور وہ لڑکے اس کی طرف متوجہ ہوگئے اور اپنی ڈیوٹی میں مصروف ہو گئے ۔ ہم بھی آگے روانہ ہوئے ۔ بے فکری کی عمر میں ان دونوں بچوں نے کس قدر حوصلے سے معاش کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھا رکھی تھی ۔ اللہ پاک نے انہیں کتنی ہمت اورکتنا صبر دے رکھا ہے ۔

میں انہیں سوچوں میں گم تھی کچھ ہی دیر میں ہم تیزی سے آگے بڑھ گئے اوراب آہستہ آہستہ دن کا اجالا بھی پھیل چکا تھامعمول کی زندگی رواں دواں تھی ۔ بہت سے موٹر سائکل سوار ٹفن باکس لٹکائے ہیلمٹ پہنے ہو ئے جیکٹس اور دستانے چڑھائے اپنے کام پر روانہ نظر آئے ۔ سڑک کے کناروں پر موجود فٹ پاتھوں پر بھی کچھ چہل پہل شروع ہو چکی تھی ۔ اب ہم گرومندر کے قریب پہنچ گئے ۔

سخت سردی کے باوجود بیکری اور “ملک شاپس ” کھل چکی تھیں اور دکاندار حضرات اپنی اپنی دکانوں کی صفائی اور قرآن پاک کی تلاوت میں مشغول نظر آئے ۔ نیو ٹا ئون کی مسجد کے سامنے ٹھیلے والے بھائی اپنے پھلوں کو سجا نے اور ترتیب دینے میں مشغول تھے ۔ قریب ہی ایک چھوٹا سا ڈھابہ تھا جہاں پرگرم گرم چائے پرا ٹھہ بنانے والے باورچی بھائی بھی گاہکوں کے لئے ناشتہ بنانے کا انتظام کر رہے تھے اور میزیں کرسیاں لگانے والے لڑکے بھی معمول کے فرا ئض سر انجام دے رہے تھے۔

اسکول پہنچے تو گیٹ پر موجود ادھیڑ عمر چوکیدار مستعدی سے ڈیوٹی دیتے نظر آئے ۔ کینٹین بھی کھل چکی تھی ۔ کینٹین والے انکل خوش دلی سے بچوں کو اشیاء فروخت کر رہے تھے ۔ آڈیٹوریم میں میٹنگ شروع ہونے والی تھی ۔ والدین کی بڑی تعدادپہنچ چکی تھی ۔ ہم نے Peonسے نمبر لیا اور اپنی باری کا انتظار کرنے لگے ۔ تمام Subject Teachers سے مل کر ان سے انکی رائے لینی ضروری تھی ۔

رش کی وجہ سے والدین کے لئے لگا ئی جانے والی کرسیاں کچھ کم پڑگئیں ۔ فوری طور سے کچھ مرد حضرات اپنی کرسیوں سے اٹھ گئے اور خواتین آرام سے کرسیوں پر بیٹھ گئیں ۔ مرد حضرات ایک طرف کھڑے ہوگئے ۔ کچھ ہی دیر میں ہمارا نمبر آگیا ۔ اپنے بیٹے کے تمام اساتذہ سے اچھے ریمارکس ملے اور ہم مطمئن ہو کر گھر کی طرف روانہ ہوئے ۔ تقریباً دن کے گیارہ بج چکے تھے ۔ ہلکی بوندا باندی شروع ہوچکی تھی۔

سڑک کے کنارے لمبی قطار میں غریب مزدور اپنی بیلچے کدالیں اور اوزار لئے کام ملنے کی آس میں سرد ہوائوں میں چپ چپ گہری سوچوں میں گم بیٹھے تھے شاید وہ یہی سوچ رہے ہوں کہ اگر انہیں مزدوری نہ ملی تو ان کے گھر کا چولہا کیسے چلے گا اور بیوی بچوں کے پیٹ کیسے بھریں گے۔ ٹریفک کانسٹیبل بھی برساتی پہن کر چوراہے پر موجود ٹریفک کو کنٹرول کرنے میں مگن تھے ۔ شدید سردی کے باوجود پبلک ٹرانسپورٹ چلانے والے رکشہ ڈرائیور، بس ڈرائیور اور کوچ والے بھائی سب تلاش معاش کے لئے سڑکوں پر موجود تھے ۔

ہمیں گھر پہنچا کر میرے شوہر صاحب نے پانی کا گلاس پیا اور جلدی جلدی اپنے کام پر روانہ ہو گئے کیونکہ وہ ایک کانٹریکٹر ہیں اور ہفتے کے ساتوں دن Site پر کام کرواتے ہیں کیونکہ مزدور ایک بھی دن چھٹی نہیں کرنا چاہتے کیونکہ جس دن وہ کام پر نہیں جاتے اس دن بچوں کو بھوکا ہی سونا پڑتا ہے ۔

گھر کے پر سکون گرم ماحول میں بیٹھ کر میری آنکھوں سے شکرانے کے آنسو نکل آئے ۔ ہم عورتوں کتنی خوش نصیب ہیں ہمیں گھر کا محفو ظ تحفظ دینے والے ہمارے لئے دن رات گرم سرد موسم کا سامنا کرکے ، دنیا کی تلخ و ترش باتوں کو برداشت کرکے اپنے آرام دہ گھروں کو چھوڑ کر سارا دن ، رزق حلال کما کر لانے والے ہمارے قوام ہمارے گھروں کے باپ بھائی ، شوہر اور بیٹے ہمارے لئے رب کائنات کا عظیم کا تحفہ ہیں ۔

مسلم مرد اپنے خاندان کے لئے رزق حلال کمانا عین عبادت سمجھتے ہیں ۔ گھروں میں موجود اپنی ماں بہن ،بیوی اور بیٹی کو ہر آسائش مہیا کرتے ہیں ۔ اپنی خواہشات اور ضروریات کو محدود رکھ کر اپنے خاندان کی کفالت کی بھاری ذمہ داری پوری رضا و رغبت کے ساتھ ادا کرتے ہیں اور اپنی خواتین کو قیمتی موتی کی طرح سنبھال کر رکھتے ہیں ۔

اسلامی نظام معاشرت نے عورت کو عزت و تکریم کے اعلیٰ درجات پر فائز کیا ہے۔ صدیوں سے رائج جاہلانہ اور فرسودہ رسم و رواج اور نسل درنسل چلنے والی تنگ نظری کا خاتمہ کیا ۔ جو مرتبہ و مقام اور عزت توقیر ہمیں مسلم معاشرہ اور اسلامی شعائر نے ساڑھے چودہ سو سال پہلے دی وہ 21ویں صدی کی بے چاری مغربی عورت کے لیے آج بھی صرف سہانا خواب ہے ۔

جس رب کا ئنات نے انسان کو تخلیق کیا وہ قرآن پاک میں خود ہی فرماتا ہے کہ کیا وہ ہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا ” بالکل بجا فرماتا ہے وہ پروردگار عالم ہے، وہ ہماری رگ رگ سے واقف ہے، وہ جانتا ہے کہ عورت جیسی نازک اور انمول ہستی کو مضبوط اور با اعتماد ساتھ کی ضرورت قدم قدم پر ہے اسی لئے ہمیں پیدائش کے ساتھ ہی باپ بھائی اور خاندانی نظام کے ساتھ ہی شوہر اور بیٹوں کے مضبوط اور خوبصورت رشتوں سے جوڑ دیا ۔

میری پیاری بہنوں آپ یقین جانیں جن معاشروں میں خاندانی یونٹ کی اہمیت ختم ہو چکی ہے اور آزادی نسواں کے نام پر عورتوں کو گھر کی محفوظ چار دیواری سے نکال کر برابری کے جھوٹے نعروں کی آڑمیں حوادث زمانہ کا سامنا کرنے کے لئے کھڑا کر دیا ہے، وہاں کی عوررت ہماری زندگیوں پر رشک کرتی ہیں ۔ کیونکہ مسلم عورت گھر کی ملکہ ہے اور مغربی عورت راستے میں پڑے کسی پتھر کی طرح ادھر ادھر لڑھکتی ہی جارہی ہے ۔

اصل میں تو استحصال کا شکار بے چاری مغربی مظلوم عورت ہے کیونکہ اسے تو اس کے اپنے ہی مطلبی خود غرض مردوں نے زمانے کی ٹھوکروں پر چھوڑدیا تا کہ وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کا بوجھ ان نازک کندھوں کے اوپر ڈال کر خود اپنی زندگی کو عیاشیوں میں گزار دیں ۔ اسلام رواداری اور مساوات کا داعی ہے ۔ ایسا ممکن نہیں کہ کسی بھی مشکل او غیر معمولی صورت حال سے نبرد آزما ہونے کے لئے اس میں احکام موجود نہ ہوں ۔ بعض اوقات گھروں کے قوام کسی بیماری یا معذوری یا قلت معاش کے باعث نا مساعد حا لات کا شکار ہوتے ہیںیا ہوجاتے ہیں ۔

ایسے میں اسلامی نظام معاشرت عورت کو اپنے “قوام”کا ساتھ نبھانے کے لئے کام کرنے کی رخصت اور حوصلہ وہمت عطا کرتا ہے ۔ ہمارے معاشرے میں بے شمار خواتین چادر اور چار دیواری میں رہتے ہوئے بھی حصول معاش کے لئے مشقت و محنت کر کے گھر والوں کا ہاتھ بٹا رہی ہیں ۔ ایک”مستحکم خاندانی نظام “اسلامی معاشرے کے لئے مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے کہ جس پر نظام عدل ایثار و محبت مساوات اور حسن اخلاق سے مزین پاکیزہ اسلامی معاشرہ قائم ہو تا ہے ۔

آج ہم دیکھتے ہیں کہ جن گھرانوں میں اسلامی تعلیمات کا حقیقی شعور موجود ہے اور فرسودہ روایات کی اندھا دھند تقلید نہیں ان گھرانوں میں عورت قدر و منزلت اور اعتماد پا کر زندگی کے ہر شعبے میں اپنے گھر کے قوام کے ساتھ شانہ بشانہ موجود ہے اور مل جل کر مفاہمت کے ماحو ل میں اپنی نسلوں کی بہترین تعلیم و تربیت میں مشغول عمل نظر آتی ہے ۔

لہٰذا جو بھی ذی شعور انسان عورتوں کے حقوق کی بات کرتا ہے اسے چاہئے کہ وہ اسلامی نظام معاشرت کا مطالعہ کرے

اور حقوق نسواں کے لیے “لانگ مارچ” اور” ریلی” نکالنے میں وقت ضائع کرنے کے بجائے اپنی توانائیاں اسلامی نظام شریعت را ئج کرنے کے لیے صَرف کریں۔

جواب چھوڑ دیں