سیاسی وائرس یا کرونا وائرس،زیادہ خطرناک کون؟

عالمی سطح پر صحت عامہ کے حوالے سے اس وقت اہم ترین موضوع نوول کرونا وائرس ہے جسے”کووڈ19سےموسوم کیا گیا ہے ۔ بین الاقوامی برداری کی ساری امیدیں چین سے وابستہ ہیں کہ چینی حکومت اور عوام اس وائرس کے خلاف کب حتمی فتح کا اعلان کرتے ہیں تاکہ دنیا بھر کے عوام سکھ چین کی نیند سو سکیں۔

ایک ایسے وقت میں جب چینی حکومت کے ساتھ ساتھ ایک ارب چالیس کروڑ باشندے نوول کرونا وائرس کے سدباب کی کوششوں میں دن رات مصروف ہیں ، مغربی میڈیا کی جانب سے سنسنی خیز خبروں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

مغربی میڈیا میں غیر ذمہ دارانہ قیاس آرائیاں کی گئیں کہ نوول کرونا وائرس چین کے حیاتیاتی جنگی منصوبے” کی پیداوار ہو سکتا ہے اور اسے ایک تجربہ گاہ سے نکلا ہوا “حیاتیاتی کیمیائی ہتھیار ” قرار دینے سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔

اگرچہ عالمی ادرہ صحت نے ایسی خبروں کی فوری تردید کی اور عالمی برادی بالخصوص میڈیا سے مطالبہ کیا کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کریں اور ایسی قیاس آرائیوں سے باز رہیں جو دنیا بھر کے عوام میں بے چینی کا سبب بن رہی ہیں۔

صحت عامہ کے شعبے میں دنیا کے نمایاں ترین ستائیس سائنسدانوں نے مستند عالمی طبی جریدے ” دی لینسٹ ” میں ایک مشترکہ بیان کے ذریعے ایسی بے بنیاد خبروں کی سختی سے نفی کی ہے۔چین نے بھی مغربی میڈیا کے رویے کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ایسی خبروں کو مضحکہ خیز اور لا علمی سے تعبیر کیا ہے۔

میڈیا کا بنیادی مقصد عوام میں آگاہی کا فروغ ہے اور غیرجانبداری ،شفافیت اور حقائق پر مبنی درست معلومات تک عوام کی رسائی میڈیا کے ذریعے ہی ممکن ہے بشرطیکہ یہ ” سیاسی تعصب” سے عاری ہوں۔

ایسی خبریں جہاں چین کی جانب سے نوول کرونا وائرس کے خلاف جاری جدوجہد اور اس وقت تک حاصل ہونے والی نمایاں پیش رفت کی “نفی” ہیں وہاں دنیا بھر کے عوام کے لیے ذہنی اذیت اور تکلیف کا باعث بھی ہیں۔چین کے طبی عملے کی جانب سے نوول کرونا وائرس کے خلاف جاری جنگ میں اپنی جانوں کی قربانیاں دی گئی ہیں۔

چینی عوام رضاکارانہ طور پر اپنی حکومت کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور واحد مقصد نوول کرونا وائرس کو شکست سے دوچار کرنا ہے۔ایسے میں اگر چین کی حمایت میں ” دولفظ” نہیں بولے جا سکتے تو پھر”خاموشی”اختیار کرنا ہی بہتر ہے ناکہ منفی رویوں سے چینی عوام کو مزید تکلیف سے دوچار کیا جائے۔

چند مغربی میڈیا اداروں نے چین میں نوول کرونا وائرس کے مرکز شہر ووہان کی عارضی بندش کو بھی ہدف تنقید بنایا اور کہا کہ چینی حکومت کا یہ قدم سماجی نقل و حمل پر پابندی کی تاریخ میں سب سے بڑی مثال ہے۔

ایسا کہنا کتنا آسان ہے لیکن کیا کوئی بھی حکومت یا ملک یہ چاہے گا کہ اس کی لاکھوں افراد پر مشتمل آبادی محصور ہو کر رہ جائے ،یقیناً “نہیں” لیکن ووہان کی عارضی بندش ناگزیر تھی۔یہ ایک ایسا سخت اور مضبوط قدم تھا جس نے چین سمیت دیگر دنیا میں نوول کرونا وائرس کے مزید پھیلاؤ کی روک تھام کی “بنیاد” فراہم کی۔

آج ووہان شہر کی عارضی بندش کو ایک ماہ سے زائد ہو چکا ہے اور بلاشبہ عوام کو معاشرتی مسائل کا سامنا بھی ہے لیکن یہ بھی تو دیکھیں کہ چین نے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے عوام کو ہی آزمائش میں ڈالا ہے جس کا ایک واحد مقصد چینی عوام سمیت دنیا بھر میں صحت عامہ کا تحفظ ہے ۔

ایک مستند تجزیے میں کہا گیا ہے اگر چین ووہان شہر کو عارضی طور پر بند نہ کرتا تو صرف چھتیس گھنٹوں میں نوول کرونا وائرس دنیا کے چھ براعظموں تک پھیل چکا ہوتا ۔اس کا تصور بھی محال ہے کہ اگر چین بروقت یہ قدم نہ اٹھاتا تو آج دنیا بھر میں صورتحال کیا ہوتی۔ووہان شہر میں آمد ورفت اگرچہ عارضی طور پر معطل ضرور ہے مگر شہریوں کی امداد کے لیے سارے راستے کھلے ہیں۔

چین بھر سے بتیس ہزار سے زائد طبی عملہ اس وقت صوبہ حوبے اور ووہان شہر میں نوول کرونا وائرس کی روک تھام اور کنٹرول کی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔چین کے انیس مختلف صوبوں اور شہروں سے امدادی کارکن ماسوائے ووہان ، صوبہ حوبے کے دیگر سولہ شہروں اور علاقوں میں فعال ہیں۔

یہاں یہ سوال بھی ذہن میں آتا ہے کہ چین کے ان اقدامات سے اب تک کیا نتائج حاصل ہوئے ہیں ؟ یہ بات خوش آئند ہے کہ ان سطروں کی تحریر کے وقت چین بھر میں ماسوائے صوبہ حوبے ،دیگر تمام علاقوں میں نوول کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں نمایاں کمی آ رہی ہے۔

نوول کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں میں صحت یابی کی شرح مسلسل بلند ہو رہی ہے اور اب تک اٹھارہ ہزار سے زائد مریض صحت یاب ہو کر اسپتالوں سے فارغ کر دیے گئے ہیں ۔چینی ماہرین طب مختلف آزمائشوں سے اینٹی وائرس کی تیاریوں میں مصروف ہیں اور اس حوالے سے بھی اہم پیش رفت ہوئی ہے اور مختلف طریقہ علاج سے بہتر نتائج ملے ہیں۔

حفاظتی اقدامات سے حاصل شدہ بہتر نتائج کی بدولت اب چین کے مختلف علاقوں میں اقتصادی و سماجی سرگرمیاں بتدریج بحال ہو رہی ہیں۔ مختلف عالمی کمپنیاں چین میں اپنی کاروباری سرگرمیاں شروع کر چکی ہیں۔تعلیمی اداروں میں آن لائن تدریس کا سلسلہ کامیابی سے جاری ہے اور بہت جلد باضابطہ کلاسز بھی شروع ہو جائیں گی۔

یہاں اس حقیقت کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آج عالمگیریت کے دور میں دنیا بھر کے مفادات ایک دوسرے سے قریبی وابستہ ہیں اور کوئی بھی ملک تن تنہا نوول کرونا وائرس یا اس جیسے دیگر چیلنجز پر قابو نہیں پا سکتا ہے۔موجودہ صورتحال کا تقاضا ہے کہ نوول کرونا وائرس پر سیاست سے گریز کرتے ہوئے اتحاد و اتفاق اور عالمگیر اشتراک سے وبا کا خاتمہ کیا جائے تاکہ انسانیت کی عظیم خدمت کی جا سکے۔

جواب چھوڑ دیں