اب عورت ہو گی آزاد

اس دنیا میں اللہ پاک نے انسان کی بقا اور تحفظ کے لیے مرد اور عورت کے نام سے دو جنسیں پیدا کیں اور ہر جنس کو دوسری جنس کی طلب کا تقاضا رکھا گیا ،حقیقت میں تو دونوں کی زندگی ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہے، اسی وجہ سے مرد کامل مرد ہوتے ہوئے بھی عورت سے بے نیاز نہیں ہے اور عورت بھی عورت کے لباس میں رہتے ہوئے مرد کے بغیر مطمئن زندگی بسر نہیں کر سکتی، مگر مغربی تہذیب نے جہاں اسلام کے ماننے والوں میں لا دینیت حرص اور مادہ پرستی پیدا کی ہے، وہی مغربی تہذیب نے مسلمان عورت کو اپنے جال میں ایسے پھنسایا کہ عورت کی آزادی کے نام پر اس کی عفت و عصمت بھی داؤ پر لگا دی، تاریخ کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ مغرب کی عورت کیوں آزادی مارچ کے لیے اٹھی؟ اس کی کیا وجوہات تھیں ؟

پہلی دفعہ 1909 میں عورت کے آزادی مارچ کی ابتداء ہوئی 8 مارچ کو آزادی مارچ منانے کا فیصلہ 1913 کو ہوا1908 کو چند مخصوص عورتیں اپنے حق کے لیے آزادی مارچ کے لیے نکلی ان عورتوں پر کارروائی کرتے ہوئے ان کو گرفتار کیا گیا 1909 کو امریکن سوشلسٹ پارٹی نے آزادی مارچ کی قرار داد منظور کی 1910 کو پہلی بار عورت کی آزادی کا عالمی دن منایا گیا، آزادی مارچ میں مغربی عورت اپنے معاشی معاشرتی اور سیاسی حقوق کے لیے اٹھی کیونکہ غیر مسلم عورت ہمشہ اپنے مرد کا شکار رہی ہے ،مرد نے اس صنف نازک کو جنگلی درندہ ہی سمجھا ہے ،گھر کے سامان اور جانوروں کے برابر عورتیں بیچی اور خریدی جانے لگی، اسلام سے پہلے حالات میں عورت کو صرف نسل انسانی کی ترقی کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا، اس کے علاوہ عورت ان کے لیے شرمندگی کا باعث تھی۔

یونانی عورتوں کو ہمشہ کم درجے کی مخلوق سمجھتے تھے۔ اگر کسی عورت کا بچہ خلاف فطرت پیدا ہوتا تھا تو اسے مار ڈالتے تھے”۔”اسپارٹا میں اس بد نصیب عورت کو جس سے قومی سپاہی کے پیدا ہونے کی امید نہ ہوتی مارڈالتے تھے ۔ جس وقت کسی عورت کے بچہ پیدا ہوتا تو اسے فوائد کی غرض سے کسی دوسرے مرد کی نسل لینے کے لیے اس کے شوہر سے ادھار لے لیتے تھے”۔

عہد قدیم میں واضح لکھا گیا کہ “جو کوئی خدا کا پیارا ہے وہ اپنے آپ کو عورت سے بچائے ہزار آدمیوں میں سے ایک پیارا پایا ہے لیکن تمام عالمی عورتوں میں ایک عورت بھی ایسی نہیں جو خدا کی پیاری ہو”۔

روم میں مرد کی اپنی عورت پر جابرانہ حکومت تھی، جس کا معاشرے میں کوئی حصہ نہیں تھا اور شوہر کو اس کی جان پر پورا حق حاصل تھا۔

ہندو کے نزدیک تقدیر طوفان موت جہنم زہریلے سانپ کوئی ان میں سے اتنے خراب نہیں جتنی عورت ہے ۔

عیسائیوں کے نزدیک وہ شیطان کے آنے کا دروازہ ہے، وہ شجر ممنوع کی طرف لے جانے والی خدا کے قانون کو توڑنے والی اور خدا کے تصور اور مرد کو غارت کرنے والی ہے ۔

کرائی سوسٹم کے نزدیک”ایک ناگزیر برائی ایک پیدائشی وسوسہ ایک مرغوب آفت ایک خانگی خطرہ ایک غارت گر دلربائی ایک آراستہ مصبیت ہے ۔

روسی مثل مشہور ہے”دس عورتوں میں ایک روح ہوتی ہے”۔

اسپینی مثل ہے“بری عورت سے بچنا چاہے اچھی عورت پر کبھی بھروسہ نہیں کرنا چاہے۔

اطالیون کا قول ہےگھوڑا اچھا ہو یا برا اسے مار کی ضرورت ہوتی ہے عورت اچھی ہو یا بری اسے بھی مار کی ضرورت ہوتی ہے۔

یہ تھے حقوق عورت مغربی اور دوسرے مذاہب کے معاشروں میں مگر اسلام اسلام میں تو عورت کی شان و شوکت ہی بہت ہے اس کا ہر دن ہی آزادی کا دن ہے، مسلمان عورت کی اہمیت تو اس کے مذہب نے بہت پہلے بتا دی تھی ۔

ارشاد ربانی ہے۔

یایھا الناس اتقو ربکم الذی خلقکم من نفس وحد و خلق منھا زوجھا وبث منھما رجالا کثیرا ونساء

اے لوگو اپنے رب سے ڑرو جس نے تم سب کو ایک جاندار سے پیدا کیا اور اس جاندار سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں ۔

اس کا مطلب مرد اور عورت ایک ہی سرچسمہ ہیں انسانیت کی حد تک دونوں میں کمی بیشی نہیں ہے عورت کوئی الگ کم تر یا کوئی اور مخلوق نہیں ہے بلکہ وہ بھی انسان ہی ہے جیسا کہ مرد انسان ہیں پھر مرد کو اللہ پاک نے کوئی حق نہیں دیا کہ وہ عورت کو زلیل اور کم تر سمجھے اسلام نے جب عورت کے حقوق اور اس کی قدو منزلت کا تعین کر دیا ہے کہ یہ صرف مرد کی خدمت گزار نہیں بلکہ دنیا میں عروج اور قدرو منزلت بھی رکھتی ہیں تو پھر مسلمان عورت کو چاہے کہ وہ اسلامی حدود کی پابندی کریں اپنی عفت کی حفاظت کریں آزادی مارچ میں اپنی عظمت کا جنازہ مت نکالیں۔

جواب چھوڑ دیں