گریٹر اسرائیل اور ہماراجھکاؤ

آج دنیا میں مسلمان ممالک اور حکمران کیا کر رہے ہیں؟ اس سوال کے جواب کیلیے ہمیں کسی مسلکی عینک یا کسی ملک کے ترازو کی ضرورت نہیں، کسی مسلک کی عینک کے بجائے تحقیق کی عینک پہنیے اور کسی ملک کو ترازو بنانے کے بجائے عدل و انصاف کا ترازو اٹھائیے۔ آج ہم انفارمیشن ٹیکنالوجی کے زمانے میں زندگی گزار رہے ہیں، تحقیق کی دنیا میں ہم کسی ملک یا مسلک کے محتاج نہیں ہیں۔ہمیں اگر ساری دنیا کے نہ سہی تو کم از کم عالم اسلام کے مسائل کا تو صحیح علم ہونا چاہیے۔

ہمیں درست معلومات کے ساتھ اتنا تو پتہ ہونا چاہیے کہ آج مشرقِ وسطیٰ میں جو کچھ ہو رہا ہے ، یہ کس کی ایما پر ہو رہا ہے؟ کون کس کے حصے کی جنگ لڑ رہا ہے؟ آخر ہمارے ہاں یہ جاننا اور بیان کرنا کیوں جرم بن گیا ہے کہ بشارالاسد کا قصور کیا ہے اور کیوں ساری دنیا اس کے پیچھے پڑی ہوئی ہے؟ کیا سعودی عرب کے بادشاہ امریکی و اسرائیلی اسلحے کے ساتھ یمن اور شام میں جمہوریت قائم کرنے کیلئے لڑ رہے ہیں؟کیا بشارالاسد کا جرم اور گناہ یہ ہے کہ وہ ایک آمر اور ڈکٹیٹر ہے؟ اگر آمریت کی قباحت کی وجہ سے بشارالاسد کی تبدیلی ضروری ہے تو یہ قباحت تو سعودی عرب و امارات اور دیگر خلیجی ریاستوں کے بادشاہوں میں بدرجہ اولیٰ پائی جاتی ہے۔

کیا بشارالاسد کا جرم یہ ہے کہ اس نے اہل سنت پر کوئی ظلم کیا ہے، جیساکہ اس کے مخالفین کہتے ہیں؟ اگر مخالفین کا یہ بے بنیاد الزام مان بھی لیا جائے تو پھر بھی سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں نے جتنا ظلم اہل سنت پر کیا ہے اتنا تو بشارالاسد نے نہیں کیا؟ خلافت عثمانیہ کے خاتمے سے لے کر مکے اورمدینے میں اہلِ سنت کے اکابرین اور صحابہ کرام کے تاریخی و ثقافتی مقامات اور مقدس مزارات کو سعودی عرب نے مٹا کر رکھ دیا ہے۔

آج بھی سعودی عرب سمیت ان ساری عرب ریاستوں میں عیاشی کے اڈے، جوئے کےمراکز، شراب خانے، مندر اور چرچ توتعمیر ہوسکتے ہیں لیکن اہل سنت کسی صحابی یا ولیِ خدا کی درگاہ، مزار یا یادگار نہیں تعمیر کروا سکتے۔کیا بشارالاسد نے خلافت عثمانیہ کے خاتمے میں کوئی کردار ادا کیا ہے یا پھر آج تک اہل سنت کے اکابرین کے مزارات اور تاریخی مقامات کو نعوذباللہ منہدم کروایا ہے؟

تحقیق کرنے اور لائبریریوں میں وقت صرف کرنے والے احباب کو صرف اتنا سوچنے کی دعوت دیتا ہوں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہیں تو دونوں طرف بادشاہ، آمر اور ڈکٹیٹر، اگر شام کا حکمران بشارالاسد ڈکٹیٹر ہے تو مدقابل میں عرب ریاستوں کے حکمران بھی تو آمر اور ڈکٹیٹر ہیں؟ پھر کیا وجہ ہے کہ امریکہ و اسرائیل بشارالاسد کے تو مخالف ہیں لیکن دیگر عرب بادشاہوں کے اتحادی اورسرپرست ہیں! کوئی بھی باشعورمسلمان خواہ کسی بھی ملک اور مسلک سے تعلق رکھتا ہو وہ اتنا ضرور سمجھتا ہے کہ جوبھی امریکہ و اسرائیل کا آلہ کار اور مددگارہے وہ سو فیصد غلط ، باطل اور ملتِ اسلامیہ کا غدار ہے۔

اگر کوئی یہ سوالات پوچھے تو اس پر بشارالاسد کی طرف جھکاو کا الزام لگانے کے بجائے ہمیں خلیجی بادشاہوں اور بشارالاسد کی تاریخ اور دونوں کے اہل سنت پر جو مظالم ہیں انہیں سامنے رکھ کے خود یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ اہل سنت کا دشمن کون ہے!ہمیں خود یہ تحقیق کرنی چاہیے کہ اسرائیل کی آنکھ میں کانٹے کی طرح بشارالاسد کھٹک رہا ہے یا سعودی عرب اور اس کے اتحادی؟بشارالاسد تو آئے روز اسرائیلی حملوں کا سامنا کرتا ہے اورانہیں جواب بھی دیتا ہے لیکن کیا سعودی عرب کے بنائے ہوئے اس فوجی اتحاد نے کبھی اسرائیل کی طرف ایک پتھر بھی پھینکا ہے! کیا ہم اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ اگر امریکی و اسرائیلی لابی اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر شام کو شکست دے دیتی ہے تو پھر اسرائیل خود بخود گریٹر اسرائیل میں تبدیل ہوجائے گا۔

قارئین محترم ! موازنے کے بغیر تحقیق کا کوئی ثمر نہیں نکلتا!آپ تحقیق کے بعد سعودی عرب اور شام کا موازنہ کرکے خود فیصلہ کیجئے کہ آج مشرقِ وسطیٰ کو تباہ کرنے کیلئے کون لڑ رہا ہے اور مشرق وسطیٰ کے دفاع کیلئے اسرائیل کے سامنے کون چٹان بن کر کھڑا ہے؟آج اگر ترکی اور شام کی لڑائی ہے تو پھر بھی میزان وہی ہے! آپ ترکی اور شام کے اختلافات کی وجہ کو تحقیق کے ساتھ جانیے، پھر امریکا و اسرائیل کے ساتھ ترکی اور شام کے تعلقات کاموازنہ کیجئے اور فیصلہ کیجئے کہ شام کے خلاف سعودی عرب اور ترکی کس کے مفاد کی جنگ لڑ رہے ہیں؟۔آج ہمارے بچے بچے لیے تحقیق اور آگاہی کے ساتھ یہ جاننا ضروری ہے کہ گریٹر اسرائیل کے مقابلے میں ہمارا جھکاؤ کس طرف ہونا چاہیے۔

جواب چھوڑ دیں