امریکا اور طالبان میں معاہدہ

دس سال سے کیمونسٹ روس یو ایس ایس آر کی طرف سے مسلط کر دہ جنگ کی سفاکیت اور روسیوں کی تاریخی شکست کے بعد تباہ شدہ افغانستان پرانیس سال سے جنگ مسلط کرنے والا امریکا، افغانستان میں اسلامی حکومت کے بانی اور اپنے ملک کو بیرونی فوجوں سے آزادی دلانے والے افغان طالبان سے شکست تسلیم کرتے ہوئے معاہدہ کرنے پر مجبور ہو گیا۔

یہ معاہدہ فاقہ مست افغانیوں کی تاریخی فتح ہے۔دہشت گردبھارت کے سوا ساری دنیا کے امن پسند حلقوں نے اس امن معاہدے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ اس سے افغانستان میں جاری چالیس سالہ جنگ کے خاتمے کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔ وہ امریکا جس نے فرعونیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے۴۸ ؍ملکوں کے نیٹو اتحاد کی فوجوں کے ساتھ مل کر ایک غریب پسماندہ اسلامی ملک افغانستان پر حملہ کیا تھا۔ افغان طالبان نے اپنے ملک کی آزادی کے لیے امریکا اورنیٹو اتحادی فوجوں سے مقابلہ کیا ۔

امریکا ان طالبان کو دہشت گرد کہتا تھا ،جب کہ حملہ آور امریکا خود دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد ہے۔ امریکا اب مجبور ہو کر برابری کی سطح پر بیٹھ کر طالبان سے امن معاہدہ کرنے پرمجبور ہواہے۔ یہ اللہ کی طرف سے اسلام کے شیدائی اور جہادی افغان طالبان کی فتح ہے۔ ہم نے روس افغان جنگ کے دوران’’ کہسارباقی! افغان باقی‘‘ کے عنوان سے ایک کالم میں ثابت کیا تھا کہ افغانوں سے کوئی جنگ نہیں جیت سکتا۔ افغانی کبھی بھی کسی قوم کے غلام نہیں رہے۔

پہلے برطانیہ جس کی سلطنت پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا، کو شکست دی تھی۔ پھر روس کو شکست دی۔ مگرکیا کیا جائے کہ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ غالب قوتیں تاریخ سے سبق حاصل نہیں کرتیں۔کمزوروں پر اپنے اقتدار کے نشے میں چڑھ دوڑتی ہیں،یہی کچھ امریکا نے بھی کیاتھا۔ اس میں شک نہیں کہ حتمی شکست امریکی مدد سے اسٹنگرمیزائیل اور اسلامی ملکوں کے مجاہدین کی بدولت ہوئی مگر یہ جنگ افغانیوں نے خود جہاد فی سبیل اللہ کی قوت سے جیتی۔

جب روسی تربیت یافتہ کامریڈببرک کارمل روسی ٹینکوں پر سوار ہو کر افغانستان میں داخل ہوا تھا تو افغانوں نے روسیوں کے ساتھ درے کی بندوکوں سے مقابلہ شروع کیا تھا۔پھر افغان مجاہدین وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹومرحوم کے پاس مدد کے لیے آئے تو بھٹو نے انہیں براہ راست مدد کرنے کے بجائے درے سے اسلحہ خریدنے کے لیے فنڈ دیے تھے۔ افغان طالبان نے دنیا کی سب سے بڑی مشین جوایٹمی اور میزائل کی قوت سے لیس تھی صرف جہاد فی سبیل اللہ کے زور پر شکست دی تھی اورروس ٹوٹ کر ماسکو تک محدود ہو گیا، راقم اس وقت کراچی میں مقیم تھا۔

مسلمانوں کی پشتی بان جماعت اسلامی کا ایک کارکن ہونے کی حیثیت سے افغان طالبان کی فتح پر اپنی بستی کے بازاروں میں مٹھائی تقسیم کی تھی۔ کیونکہ افغان طالبان کے خون کی وجہ سے سفید ریچھ سے افغانستان کے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اس جنگ کے نتیجے میں مشرقی یورپ کی کئی اسلامی ریاستیں آزاد ہوئیں۔

ترک عثمانیوں سے چھینے گئے وہ علاقے جن میں چھ اسلامی ریاستوںقازقستان،کرغیزستان،اُزبکستان،ترکمانستان، آزربائیجان ، اور تاجکستان کی شکل میں آزاد ہوئیں۔پاکستان کے مایا ناز جرنیل ضیاء الحق شہید نے روس سے بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کے دو ٹکڑے کرنے کا بدلہ بھی چکایا تھا۔جرمن قوم کو تقسیم کرنے والی دیوار برلن بھی ٹوٹی تھی۔اس دیوار کے ٹکڑے جرمن قوم نے جہاد افغانستان کے ہیروریٹائرڈ جنرل حمید گل مرحوم کو تحفے کے طور پر پیش کیے تھے۔

امریکا اور افغان کے درمیان معاہدے کی بنیاد پر افغان طالبان امریکی فوج پر حملے نہیں کریں گے،واپسی کے لیے محفوظ راستہ دیں گے۔ امریکا چار ماہ میں پانچ ہزار اور چودہ ماہ کے اندر اندر ساری فوج کو افغانستان سے واپس نکال لے گا۔قوم پرست افغان حکومت طالبان کے پانچ ہزار قیدیوں کو رہا کرے گی۔ افغان طالبان افغان حکومت کے ایک ہزار قیدیوں کو رہا کرے گی۔افغان طالبان کے امیر ہیبت اللہ اخونذادہ اور سیاسی ونگ کے ملا غنی برادرز نے امن معاہدے کو خوش آیند قرار دیا۔

امریکی صدر ٹرمپ نے جو امریکی قوم سے وعدہ کیا تھا وہ پورا ہونے جارہا ہے۔ نومبر ۲۰۲۰ء میں امریکا میں الیکشن کے دوران ٹرمپ امریکی قوم کو اس بے مقصد جنگ سے جان چھڑانے کی خوش خبری سنانے کے قابل ہو گیا۔ ٹرمپ نے افغان طالبان سے براہ راست ملاقات کا بھی عندیہ دیا۔ امریکا افغان طا لبان معاہدے کے بھارت کے سوا ساری دنیا نے تائیدکی۔

معاہدے کے مطابق افغان طالبان اوراشرف غنی افغان قوم پرست حکومت افغانستان میں مکمل امن کے لیے مذاکرات کریں گے۔ امریکی افغان طالبان معاہدے کے بعد نیٹو چیف اور امریکی سیکڑی دفاع کے ساتھ بیٹھ کر اپنی پریس کانفرنس میں امریکی پٹھو اشرف غنی نے کہا کہ ہم طالبان قیدی رہا کرنے کے پابند نہیں۔البتہ افغان طالبان اور افغان امریکی پٹھو قوپرست حکومت کے درمیان مکمل جنگ بندی کے مذاکرات کے ایجنڈے میں اس شق کو رکھ سکتے ہیں۔

اس لیے افغان طالبان کو بڑی عرق ریزی اور سمجھداری سے اس معاہدے کو دیکھنا چاہیے۔ امریکا چالباز ہے۔ کہیں وہ افغان طالبان معاہدے کی آڑ میں اپنی فوجیں نکال کر افغانیوں کو آپس میں لڑتا چھوڑ کر جانے کی سازش تو نہیں کر رہا۔ اس لیے ہوشیار رہنا ہوگا۔امن معاہدہ کرتے وقت افغان طالبان نے ضرور اس کو مد نظر رکھا ہو گا۔

قارئین! دنیا کو ایک غریب ملک کے عوام جو گزشتہ چالیس سال سے دنیا کی دو بڑی جنگی طاقتوں کے ۴۸؍ نیٹو اتحادی فوجوں کے ظلم و ستم اور سفاکیت کا نشانہ بنے رہے جس ملک میں لاکھوں ٹن بارود اور کارپیٹیڈ بمباری اور تباہ کن میزائیلوںسے ہر، حرکت کرنے والی چیزوں کو تباہ برباد کر کے تورا بورا بنا دیا گیا۔لاکھوں لوگ بے وطن ہوئے، شہید ہوئے اور زخمی اور آپاہج ہوئے۔

اس غریب ملک میں اب امن قائم ہونے میں مدد کرنی چاہیے۔ اس غریب ملک کی ترقی کے یے دل کھول کر مدد کرنی چاہیے۔قوم پرست امریکی پٹھو اشرف غنی حکومت کو معاہدے پر عمل کرنے پر مجبور کرنا چاہیے۔ خاص کر اسلامی ملکوں، پڑوسی ملکوں اور دنیا کے دیگر امن پسند ملکوں کو بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔اسی سے اس خطے اور دنیا میں امن قائم کرنے میں مدد ملے گی۔لوگ سکھ کا سانس لینے کے قابل ہو گے۔ مہاجرین اپنے گھروں کو واپس جائیں گے۔ یہ پر امن دنیا کاانسانیت پر ایک قسم کا احسان ہو گا۔ اللہ کسی قوم کو بھی بے گھر نہ کرے۔ آمین۔

جواب چھوڑ دیں