عورت معاشرے کا حصہ

‘بھئی ہم خاندانی لوگ ہیں ، کسی اچھے خاندان سے تعلق لگتا ہے یا اپنے خاندان کا نام روشن کرے گا ،

یہ وہ جملے ہیں، جنہیں ادا کرتے ہوئے آج بھی لوگ فخر سے پھولے نہیں سماتے اور یہ فخریہ کلمات لوگ صدیوں سے ایک دوسرے سے کہتے چلے آرہے ہیں ۔آخر اس ایک لفظ ” خاندان ” میں ایسی کیا تاثیر ہے؟ اور ایسی کیا قوت ہے ؟جو ہر شخص اس جھومر کو اپنے ماتھے پر سجائے پھرنا چاہتا ہے۔ کسی سے تعلقات رکھنا ہو یا کوئی رشتہ جوڑنا ہو تو سب سے پہلے اس کا خاندانی پس منظر دیکھا جاتا ہے ۔خاندان کی اس اہمیت اور حقیقت کو جاننے کے لیے ہم ایک نظر اپنی گذشتہ اور موجودہ زندگیوں پر کر لیتے ہیں ۔

اللہ تعالی کی پیدا کردہ مخلوق میں اگر دیکھا جائے تو خاندان کی سب سے زیادہ ضرورت انسان کو پڑتی ہے، کیونکہ انسان اشرف المخلوقات ہے، اللہ نے دوسری مخلوق کی نسبت اسے تمام حسیات اور جذبات کے ساتھ پیدا فرمایا ہے، لہذا جہاں اللہ نے انسان کے دوسری ضروریات کا خیال رکھا، وہیں اس کے مزاج اور فطرت کے مطابق ماحول عطا فرمایا اور خاندان کی صورت میں وہ تمام رشتے عطا کیے جن کے درمیان رہ کر وہ مکمل سکون اور آسودگی محسوس کر سکے، یہی وجہ ہے کہ ابتدا سے لے کر اب تک دنیا کی کوئی بھی تہذیب ایسی نہیں جہاں خاندان کا تصور موجود نہ ہو، بحیثیت ایک مسلمان اسلامی نقطہ نظر سے خاندان کی تشکیل ایک اہم اور بڑے مقصد کے لیے ہے، اس سلسلے میں قرآن کہتا ہے کہ !

ترجمہ” اپنے اہل وعیال کو نماز کا حکم دیتے رہو اور خود بھی اس پر قائم رہو ” ( سورہ طہٰ132)

نبیؐ نے بھی اسے آدھا دین قرار دیا ہے ۔ ان ارشادات کی روشنی میں معلوم یہ ہوا کہ! ‘خاندان ایک ایسا مضبوط قلعہ ہے، جس میں رہتے ہوئے آدمی اپنی پیدائش کے عظیم مقصد کو باآسانی حاصل کر سکتا ہے۔

خاندان کو مضبوط مستحکم اور جوڑے رکھنے کی ذمہ داری اس کے ہر فرد پر عائد ہوتی ہے، مگر بحیثیت حاکم اور نگران کے ماں باپ اسے قائم رکھنے کے زیادہ ذمہ دار ہیں اور اس میں یہ بھی کہ باپ بیرونی معاملات اور نان نفقہ کا کفیل ہے، تو عورت اندرون خانہ تمام معاملات کی ذمہ دار ہوگی یہ اللہ کا بنایا ہوا قانون ہے اور اس میں کسی بھی طور تحریف کی گنجائش نہیں ۔

اب ہم اگر پچھلی چند دہائیوں میں جھانک کر دیکھیں تو ہمارے معاشرے کی خاندانی صورتحال کیا تھی؟ایک خاندان کے تمام معاشی ضروریات و مسائل ایک مرد کی تنخواہ میں پورے ہوجایا کرتے تھے، یہ نہیں تھا کہ جب خواہشات نہیں تھی بلکہ اصل بات یہ تھی کہ اس وقت کی عورت میں اندرون خانہ کی ذمہ داریوں کے سبب وفا شعاری، خدمت گزاری اور قربانی اس کی اولین ترجیحات تھیں۔جب کسی لڑکی کی شادی ہوتی تھی تو ‘تجسس محبت کو اور مستحکم کرتا تھا، کہ جو ساتھی بنے گا کیسا ہو گا؟ اس کا غصہ کیسا ہوگا؟ محبت کیسی ہوگی ؟لڑکی کے دل میں تجسس کے ساتھ احساس ذمہ داری بھی پروان چڑھتا تھا، یہ احساس اور سلیقہ ایک ماں لڑکی کے دل میں اتارتی تھی کہ اگلے گھر جا کے ایسا ہوگا، عادتیں درست کرلو ،وہاں نہیں چلے گا، مطلب کےذہن اشتیاق کے ساتھ ذمہ داری بھی محسوس کرتا تھا، یہی وجہ تھی کہ جب ایک لڑکی شادی کے بعد سسرال جاتی تو تمام رشتوں کو خود سے زیادہ اہمیت دیتی کہ کہیں ماں باپ کی خاندان کی عزت پر حرف نہ آئے، یہی فکر اور دوراندیشی جو ماں نے اس میں تفویص کی تھی، اسے نامساعد حالات میں بھی صبر شکر اور برداشت سکھاتی تھی اور بے جوڑ ہوکر بھی اکثر جوڑے بڑی کامیاب زندگی گزارتے تھے۔دلوں میں سکون تھا تو خاندان بھی مضبوط قلعے کے مانند ہوا کرتے تھے۔اس کے برعکس آج حالات مختلف ہیں گزرتے وقت کے ساتھ انسان کی ترجیحات بدل چکی ہیں۔

آج خاندان جس ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں وجہ یہ ہے کہ اس میں مرد و عورت اپنی جگہ چھوڑ چکے ہیں، آج مادے کا دور ہے مقابلے کا دورہے، محبت و عزت کی جگہ آسائش و زیبائش لےچکی ہیں، وہ تربیت جو ایک خاندان کو جوڑے رکھنے کا خاصہ تھیں سب کچھ حاصل کرلینے کے جنون میں بدل چکی ہے، ایسا کیوں اور کب ہوا؟کچھ تو انڈین کلچر ڈراموں اور فلموں کی صورت ہمارے اندر انڈیلا گیا اور پھر رہی سہی کسر عورت کی آزادی کے نعروں نے پوری کردی۔ یہ نعرے کیا ہیں؟ بس مادرپدر آزادی کا مرقع ہیں، خوبصورت ریپر میں لپٹی ہوئی وہ گندگی ہے جسے آج کچھ عقل سے بے بہرہ خواتین سمیٹ لینا چاہتی ہیں ، ورنہ جس آزادی اور حقوق کی بات کی جارہی ہے، وہ قرآن چودہ سو سال پہلے اسے عطا کر چکا ہے، اسلام سے پہلے عورت کی حیثیت یہ تھی کہ یہ زندہ درگور کر دی جاتی تھی، غیرت کے نام پر قتل اور مردہ شوہر کے ساتھ ستّی ہو جانا معمول کی بات تھی، وراثت سے محروم، تمام حقوق سے محروم، عورت معاشرے پر کلنک سمجھی جاتی تھی ۔ مغرب جو انسانی حقوق کا علمبردار ہے وہاں آج عورت کا کیا حال ہے کوئی حقیقت کی نظر سے دیکھے کے صرف 15 سے 35 سال وہاں عورت قابل قبول ہے، پھر اس کی جگہ اولڈ ہاؤس ہے مغرب میں عورت آزاد ضرور ہے مگر !

بیوی کی حیثیت سے آزاد؟ ماں کی ممتا سے آزاد ہے؟

ماں باپ بہن بھائی اور دیگر خاندانی رشتوں کے خلوص سے آزاد ! یہ ہے وہ آزادی جس کے پیچھے آج مشرق کی عورت بھاگ رہی ہے

جبکہ میرا قرآن عورت کو برابری کا حق دیتے ہوئے کہتا ہے ترجمہ!

عورتیں تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا ” (بقرہ 187)

میرے نبی کا طریقہ ہے ! اونٹ کے سارے بان سے فرمایا جا رہا ہے کہ آہستہ اونٹ دوڑاؤ یہ نازک آب گینے ہیں( بخاری) ۔اور میرادین کہتا ہے کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے ۔

ماضی میں تمام تہذیبوں نے عورت کی تذلیل کی اسے ناپاک قرار دیا اسلام وہ واحد مذہب ہے جس نے عورت کو کائنات کا خوبصورت ترین جز قرار دے کر سارے مراتب عطاکیے اسلام صرف ایک مذہب نہیں بلکہ ایک پورا طریقہ ہے جو زندگی کے ہر معاملے پر بحث کرتا ہے ۔مرد عورت انسان ہونے کے ناطے برابر کے حقوق رکھتے ہیں اور دنیا کا نظام چلانے کے لیے مرد اور عورت کو ایک دوسرے کا معاون بنایا مرد کو گھر کا قوام قرار دیا تاکہ فرد سے ، خاندان، اور پھر بہترین معاشرہ تشکیل پاسکے۔اللہ نے فطری اور جسمانی طور پر عورت کو معاشی مشقت کے لیے نہیں بلکہ گھر خاندان کو محبت سے جوڑنے کے لیے اسے لطافت اور محبت کا پیکر بنایا ہے۔

لہذا آج ٹوٹ پھوٹ کے شکار ہوتے خاندان اور نسلوں کے بکھرتے شیرازہ کو سمیٹنے کی ذمہ داری پھر ایک کمزور مگر فولاد سے زیادہ طاقتور عورت کے کاندھوں پر ہے، جس نے ہمیشہ ماضی میں بھی گرتی قوموں کو سنوارا ہے ۔

جواب چھوڑ دیں