عورت مارچ کے مد مقابل عورت کیوں؟

تحریر(موسیٰ غنی):گزشتہ سال لبرل کا ایجاد کردہ نام نہاد عورت آزادی مارچ یا عورت مارچ نے جہاں معاشرے کی قلعی کھول دی ہے وہیں جنسی بے راہ روی کا راستہ بھی آسان کیا جارہا ہے، عورت مارچ میں ایسے نامناسب اور غیر اخلاقی حرکتوں کی تصاویر اور ویڈیوز اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ معاشرے قومیں چندہی لوگ خراب کرتے ہیں۔

سوشل میڈیا اور ٹیکنا لوجی کے اس دور میں 20 سے 30 انٹیاں پورے پاکستان میں این جی اوز کی سرپرستی میں مذہب ، مولوی حضرات، باپ اور بھائیوں پر سوال کھڑے کررہی ہیں۔

کراچی کاعورت مارچ توپدرشاہی کا جنازہ تھا ہی لیکن سب سے بڑھ کریہ ہے کہ 20 سے 30 انٹیاں جو خود طلاق یافتہ ہیں یا گھروں سے نکال دی گئیں ہیں یہ کیسے قوم کا مستقبل سدھار سکتی ہیں ،چلیں یہ بھی مان لیں کے مرد ظالم ہوتے ہیں تو بھائی کوئی یہ بتائے گا کہ مرد میں باپ ، بھائی ، بیٹا بھی شامل ہوتے ہیں تو کیا وہ بھی ظالم ہوتے ہیں ؟ اگر وہ بھی ظالم ہوتے ہیں تو پھر اس کا مطلب ہے آپ میں کوئی نقص یا خامی ہے آپ اس کو صحیح کریں گےیا اپنی خامی میں مزید 20 لوگوں کیہ خامیاں ملا کر احتجاج ۔۔۔

عورت مارچ کا مقصد صرف ایک ہے اور وہ ہے معاشرے میں بےراہ روی یا سادے الفاظوں میں ایک عورت جس سے چاہے جب چاہے تعلق قائم کرے اور اس کا شوہر ، باپ ، بھائی یا بیٹا اس کو روکنےوالے کوئی نہیں ہوتے ۔یورپ خود کو صحیح ثابت کرنے کیلئے آج اس بات ہم لوگوں کو قائل کررہا ہے کہ عورت قید میں ہے کیسے ؟ ۔

اب بحث اس بات پر کہ کیسے حقوق نہیں ہیں خواتین کے۔۔۔اسلام نےخواتین کو مردوں کےمساوی نہیں بلکہ مردوں سےزیادہ حقوق دیے ہیں اور ان حقوق کے ساتھ فرائض بھی ہیں ۔سرخ سویرا ،موم بتی مافیا ،دیسی لبرل خواتین و حضرات جوحقوق کی بات کرتے ہیں اصل میں تو انھوں نےخواتین کی تذلیل ہے۔

عورت مارچ سے مردوں کو چند اختلاف یہ تھے” کہ نام نہاد چند خواتین پورے معاشرے کو بدنام نہ کریں، گھٹیا اقسام کے بینرز آویزاں نہ کیے جائیں و دیگر فحش ویڈیوز بنا کر معاشرے میں بےراہ روی عام نہ کریں۔

دوسری جانب عورت مارچ سے عورت کو کیااختلاف ہے سب سے بڑی اور قابل قدر بحث یہ ہے عورت مارچ سے ان خواتین کو اعتراض جو خود مردوں کے شانہ با شانہ کام کرتی ہیں ان کا کہنا ہے کہ جس طرح چندکواتین تمام خواتین کی نمائندگی نہیں کرتی ہیں اسی طرح چند مرد بھی تمام مردوں کی نمائندگی نہیں کرتے ہیں ، خواتین نے مزید کہا کہ ہمارا اختلاف یہ ہے کہ جب زینب کا واقعہ آیا تو ملزم کو سرعام پھانسی کا مطالبہ ان مردوں نے ہی کیا تو پھر کیوں لبرل ازم کے شہدائی ہمارے حکمرانوں نے این جی اوز کے دباؤ پر انکار کیا اور وہی خواتین باہر نکل کرکہہ رہی ہیں کہ ان پر ظلم ہوتا ہے ، ریپ کا شکار بنایا جاتاہے، بری نظروں سے دیکھا جاتا ہے ؟ ۔ جواب تو ان کو دینا چاہیے کہ آپ اتنی بڑی مہم چلارہی ہیں لیکن رینب واقعے کے ملزم کو سر عام پھانسی پر آپ باہر نہیں نکلیں ۔۔۔ جو خواتین گھروں میں ظلم کا شکار ہوتی ہیں انکو آپ نہیں پوچھتی لیکن اپنے سالانہ اجتماع کیلئے آپ سے پہلے مردوں کو گالیاں دیتی نظر آتی ہیں ایسا کیوں ہے اور کیا مقاصد ہیں ؟۔

خواتین ان سوالات پر شاید میرے جوا ب نہیں تھا اس لیے میں اٹھ کر چلتا بنا لیکن ان تمام سوالا ات بکل بجا تھے لیکن معاملہ یہ ہےکہ ان عورتوں کو ایسے عورت مارچ سے اختلاف ہے جس میں بے راہ روی اختیار کی جارہی ہو۔

حصہ
mm
موسیٰ غنی ایک مقامی روزنامہ کی ویب سائٹ پر سب ایڈیٹر کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔اس کے علاوہ مختلف اخبارات میں بھی کالمز لکھتے ہیں۔مطالعے سے خاص دلچسپی اور بلاگ لکھنے کا شوق رکھتے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں