مسلم دنیا میں بکھرتاخاندانی نظام اور مسلم عورت کا کردار

جب سے اللہ نے انسان کو پیدا کیا اس کو خوشگوار زندگی گزارنے کے لیے مختلف وقتوں میں کچھ احکامات اپنے پیغمبروں ؑکے ذریعے دیے۔کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار اللہ کے پیغمبرؑ اللہ کا پیغام اللہ کی مخلوق تک پہنچاتے رہے ۔ بالآ خر رسولؐ اللہ نے اس کام کی تکمیل کی۔

اللہ نے شروع سے دین ِاسلام کو انسانوں کے لیے پسند کیا تھاجس میں خاندانی نظام بھی شامل ہے۔اوّل اوّل انسانی معاشرے اس پر چلتے رہے۔ اپنے حق سے زیادہ حاصل کرنے کی وجہ سے انسان میں اختلافات پیدا ہوئے۔پہلا اختلاف آدم ؑ کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کے درمیان ہوا۔ ایک بھائی دوسرے بھائی سے زیادہ حق چاہتا تھا اس لیے یہیں سے اختلاف پیدا ہوا۔ پھر لوگوں نے اس سے آگے بڑھ کر اپنے حقوق کے لیے نئے نئے دین بنا لیے۔

یہودی اپنے آپ کو اللہ کا پسندیدہ انسان سمجھنے لگے۔ عیسائیوں نے اپنے گناہوں کی تلافی اپنے پیغمبرسے منصوب کر لی۔ یہ سب خود ساختہ دین تھے جو اللہ سے بغاوت پر قائم ہوئے۔یہودیوں کی غلط روی پر اللہ نے سزا دی۔عیسائیت کو بھی ناپسند کیا۔ جب تک مسلمان اللہ کے احکامات پر عمل کرتے رہے اور ان کا خاندانی نظام مضبوط تھااللہ نے ان دونوں پر غلبہ عطا کیا۔

مگر جب دین اسلام کے پیرو مسلمان اللہ کے دین سے ہٹ گئے تو اللہ نے انہیں بھی سزا دی اور غیر قوموں کو مسلمانوں پر مسلط کر دیا۔ آج مسلمان دینا میں ذلیل وخوار ہو رہے ہیں۔ اس تمہید کو بیان کرنےکا مقصد یہ ہے کہ جس اللہ نے انسان کو پیدا کیا اس نے اسے زندگی گزارنے کے طریقے بھی بتائے جس میں ایک خاندانی نظام بھی ہے۔

غیر مسلم معاشروں میں خاندانی نظام با لکل تباہ و بر باد ہو گیا ہے۔اب جلد ہی ان کا سیاسی غلبہ بھی ختم ہونے والا ہے ۔ان شاء اللہ۔معاشی ترقی کی وجہ سے دنیا کو کمانڈ کرنے والے یہود و نصارا کا معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکارہے جس میں عورت کا کردار بھی ہے۔کیونکہ عورت کے اصل کردار سے ہٹا کر اس کا استحصال کیا گیا۔اسے گھر کی ملکہ کے بجائے شمع محفل بنا دیا گیا ہے۔یہی استحصال مسلم معاشرے میں بھی پھیلایا جا رہاہے۔

اسلام میں عورت اور مرد کے حقوق برابر ہیںاللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے عورت کو اعزازبخشا کہ اُسے برابری کے ساتھ آدم ؑ کے ساتھ جنتّ میں رکھا’’پھر ہم نے آدم سے کہا تم اور تمہاری بیوی جنتّ میں رہو‘‘ (البقرۃ ۳۴) یہاں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو برابری کے حقوق دیے۔ آج کافروں کے بنائے ہوئے قانون کے تحت عورتوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں۔یہ قرآن کی رو سے جہالت کے سواکچھ بھی نہیں ۔

قرآن شریف میں کئی جگہ عورتوں کے حقوق اوراُن کی اہمیت کے بارے میںذکر ہے۔ قرآن شریف میں ہے کہ’’ عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق اُن پر ہیں‘‘ (البقراۃ۔ ۲۲۸) اِس آیت سے یہ ثابت ہوتا کہ ربِ کریم نے خود قرآن شریف میں شروع ہی سے عورتوں کے حقوق کا حکم دے دیا تھاجسے دنیا کی کوئی طاقت سلب نہیں کر سکتی۔یہ عورتوں کے لیے بڑا اعزاز ہے ان کے ربّ کی طرف سے۔

عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے مزید فرمایا ’’عور توں کے لیے بھی اُس مال میں حصّہ ہے جو مال باپ اور رشتہ دارں نے چھوڑا ہو‘‘ (البقرا۳۴) اللہ نے رشتہ داروں کے مال میں عورتوں کا حصّہ رکھا یہ ہیں حقوق اللہ تعالیٰ کی طرف سے عورتوں کے لیے۔ اسی طرح حدیث شریف میں بہت سی جگہوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عورتوں کے حقوق کی بات کی ہے۔حضرت عبداللہ ابن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول ؐ نے فرمایا ساری دنیا سرمایا ہے اور دنیا کا بہترین سرمایہ نیک عورت ہے (مسلم) حضرت ابن عمر ؐ سے روایت ہے رسول ؐ نے فرمایا حلال کاموں میں سب سے زیادہ نا پسند ید ہ کام خدا کے نزدیک طلاق ہے۔ (ابوداؤد)۔

جہاں مرد کو طلاق دینے کا حق ہے وہاں عورت کو خلع لینے کا بھی حق ہے۔ گو کہ طلاق بعض صورتوں میں ناگزیں ہو جاتی ہے مگر یہاں بھی عورتوں کے حقوق کا خیال رکھا گیا ہے ۔ حضرت جابر بن سمرہ ؓ سے روایت ہے رسول ؐ نے فرمایا جب خدا تعالیٰ تم میں سے کسی کو مال عطا فرمائے تو اس کو چاہیے کہ وہ پہلے اپنی ذات پر خرچ کرے پھر اپنے گھر والوں پر۔(مسلم) اس میں بھی عورت جو گھر والوں میں شریک ہوتی ہے ،کا خیال رکھا گیا ہے۔ عورت مسلمان معاشرے میں ماں، بیوی،بیٹی اور بہن کے مقدس رشتوں میں جڑی ہوئی ہے جب کہ مغرب میں معاشی مشین ہے۔۔۔۔

اسلام میں عورتوں کے جتنے حقوق ہیں دنیا کے کسی بھی مذہب میں اتنے حقوق نہیں دہیے گئے ہیں۔گو کہ جہالت کی وجہ سے مسلمان معاشرے میں بھی عورت کے حقوق سلب کر لیے ہیں جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ عین جہالت ہے۔ کاروکاری،قرآن سے شادی اور عورتوں کو تعلیم نہ دلوانا اور کہنا کہ کون سی ہم نے نوکری کروانی ہے۔ ایک پڑھی لکھی عورت اپنے بچوں کو تعلیم سے آراستہ کر سکتی ہے معاشرے کا اچھا فرد بن سکتی ہے ،بلاشبہ مسلمان معاشرے میں اس ناسور کی اصلاح ہونی چاہیے ۔

آج بھی پاکستان کے صحیح سوچ رکھنے والے مسلمان گھرانوں میں بہت سی خرابیوں کے باوجود بھی مثالی خاندانی نظام موجود ہے ۔جو آج بھی ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں کام آتا ہے ۔کافروں کابے حیائی کا معاشرہ امت مسلمہ میں بے حیا عورتوںکے ذریعے پھیل رہاہے۔جس سے مسلم خاندانی معاشرے بکھرتے جا رہے ہیں۔

ہندو مذہب میں عورت کو شوہر کی موت کے وقت ستی کر دیاجاتا ہے۔ یہودی مذہب میں عورت کو حیض کے دنوں میں ناپاک سمجھا جاتا ہے۔ آج مغرب کے معاشرے میں عورت طرح طرح کے مصائب سے دوچار ہے ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اس خرابی کا کیسے ادراک کیا جائے۔ مغرب میں

اسلام لانے کا رجحان عورتوں میں مردوں سے زیادہ ہے۔مغرب کے معاشرے میںعورت۱۸ سال کی ہوئی تو والدین کہتے ہیں جائو اپنی معاش تلاش کرو ۔ایک ہوٹل میں سب کھانا کھاتے ہیں اور بل علیحدہ علیحدہ ادا کرتے ہیں۔

مرد فیکٹری سے رات کو کام کر کے آتا ہے تو ٹیبل پر طلاق نامہ پڑا ہوتا’’ میں آپ کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ہوں کل کورٹ میں آجانا میں نے آپ سے طلاق لینی ہے‘‘ مغرب میں سیکس کی اتنی آزادی ہے کہ ان کی اپنی رپورٹس کے مطابق ۴۰ فی صد بچے حرامی ہوتے ہیں وہ اپنے باپ کی تلاش میں پھرتے رہتے ہیں۔ عورت کو گھر کی ملکہ کی بجائے شمع محفل بنا دیا گیا ۔ان کا کوئی پروڈکٹ عورت کے اشتہار کے بغیر فروخت ہی نہیں ہوتا۔

پانی کے تالابوں میں نیم عریں لباس کے ساتھ نو جوان بہن بھائیوں،ماں باپ کے مل جل کے نہانے سے آئے دن حادثات اخباروں میں آتے رہتے ہیں۔ کیا کیا بیان کیا جائے۔

جہاں تک مسلم معارے کا تعلق ہے تومغرب کے دانشور مسلمان معاشرے میں آ کر اس کے ابدی خاندانی نظام کے متعلق تحقیق کرتے ہیں کہ یہ کیسے قائم و دائم ہے۔کس طریقے سے مسلم خاندانی نظام کو ختم کریں یا کیسے مسلم معاشرے اور خاندانی نظام کو اپنا جیسا آزادمعاشرہ بنائیں۔ یہ کام اپنی این جی اوز کے ذریعے کرتے رہتے ہیں۔

سال میں ایک دن مخصوص کر کے عورت کے حقوق کا حق ادا کرتے رہتے ہیں۔ اسلام میں عورت اور مرد ایک حقیقت ہے ۔حضرت آدم ؑ کے ساتھ حضرت حوا کا ذکر اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ اللہ تعالی نے مرد و زن کے ملاپ سے اپنی مخلوق کو جنم دیا۔ اللہ تعالیٰ اس کے علاوہ بھی جو چاہتا کر سکتا تھا لیکن اُس کی مشیت تھی کہ ایک جوڑا پیدا کیا جاے جس سے انسانی نسل کو آگے پھولنا پھلنا ہے۔لہٰذا عورت اسلام میں ایک خاص حقیقت ہے اور اس کے بغیر نظامِ دنیا نہیں چل سکتا۔

ہر دور کے انسان نے عورت کے ساتھ ظلم کیا۔ قبل اسلام کوئی اس کو زندہ دفن کر دیتا اور طرح طرح کے ظلم کرتا اور کوئی آج جدید دور میں اسے رونقِ محفل اور کوئی اسے شمعِ محفل بناتا ہے اور اپنی جنسی تسکین کے لیے کلب کی زندگی ایجاد کی گئی۔جس میں مرد زن شریک ہوتے ہیں، ڈانس کیا جاتا ہے، بتیاں گل کر دی جاتیں ہیں پھر اندھیرے میں جس کی بیوی جس کے ہاتھ لگی پھر شیطان کھل کر اپنا کھیل کھیلاتاہے،ہوٹلوں میں برہنا عورتیں ڈانس کرتی ہیں۔

مغرب اور مشرق کے قدیم وجدیدجہلانے عورت کے ساتھ طرح طرح کے ظلم ڈھائے ہیں۔ مگر اسلام نے اس کو عظمت عطا فرمائی اس کے ساتھ برابری کا سلوک سکھایا اِس کو احترام کی نظر سے دیکھنے کا حکم دیا کیوں کہ اِس سے آ یندہ نسل نے چلنا ہوتا ہے۔ عورت کی گود سے فرشتہ صفت انسا ن اور اسی کی گود سے شیطان صفت انسان پیدا ہوتا ہے۔ اسی لیے عورت کی تربیت پر اسلام زور دیتا ہے۔

دنیا کی کسی قوم نے عورت کو وہ حقوق نہیں دیے جو اسلام نے د یے ہیں۔ توحید کے بعد اللہ نے والدین کے حقوق کا قرآن میں ذکر کیا ہے۔ اگر وہ انہیں بڑھاپے کی حالت میں ملیں تو اُن کے سامنے اُف تک نہ کرنے کا حکم اور اُن کے ساتھ بہترین سلوک کی ہدایت کی۔اِس میں عورت شریک ہے۔ حدیث میں ٓاتا ہے کہ ایک شخص رسول ؐ کے پاس ہدایت لینے حاضر ہوا۔ رسول ؐ اللہ نے فرمایا کہ تیری ماں ہے کہنے لگا نہیں رسول اللہ ؐ نے فرمایا تیری خالہ ہے کہنے لگا ہاںہے۔ آپ ؐ نے فرمایا جائو اُن کی خدمت کرو۔ یہی ہدایت ہے۔ اور بہت سے واقعات حدیث کی کتابوں کے اندر موجود ہیں ۔ عورت ماں بھی ہے اور اس کے پائوں کے نیچے جنت ہے۔

مسلم خاندان اور معاشرے اور اپنے بچوں کی تربیت کے لیے ہماری خواتین کو ام المومنینؓ کی سیرت کا مطالعہ کرنا چاہیے اور ان کی سیرت پر عمل کرنا چاہیے۔ بڑے افسوس کا مقام ہے مسلمان گھرانوں کی عورتیں مغرب زدہ خواتین کی نقالی کرتیں ہیں۔ پاکستان میں بھی عورتیں بھرے بازار میں کہتیں کہ ہمارا جسم ہماری مرضی ،تمھارا جسم اور مرضی کہاں! یہ جسم اللہ کی امانت ہے اس کو اللہ کے احکامات کے مطابق استعمال کرنا ہے۔

پچھلے دنوں مغربی این جی اوز کی فنڈنگ سے مسلم عورتوں نے مارچ کیا اور اب پھر ۸ مارچ کو اسلام آباد اور لاہور میں مارچ کرنے کی ریہرسل کر رہی ہیں۔ مملکت اسلامی جمہوریہ میں اس کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ اس سے اسلام پر عمل کرنے اور حیا دار حجاب والی مسلم عورتوں کا احتصال ہوگا۔موم بتی والی انٹیاں مسلم معاشرہ خراب کر رہی ہیں۔ ان حالات میں مسلم خواتین کا کردا ر کہیں زیادہ بڑھ جاتا ہے۔

ہونایہ چاہیے کہ ان سے ہزار درجہ زیادہ تعداد میں باہر نکل کر ان کے بے حیائی اورفحش عمل کو رد کرنا چاہیے۔ دینی جماعتوں کو ابھی سے اس فعل کی مذمت کرنے چاہیے۔ امت مسلمہ کی خواتین کو ام المومنینؓ ،صحابیات ؓ اور دوسری نام ور خواتین اسلام کی سیرت پر چلنا چاہیے جوان کی آئیڈ لز ہیں۔ نہ کہ مغرب زدہ خواتین۔

جواب چھوڑ دیں