معاشرے میں فضول خرچی کا رجحان

اکثر لوگ سردیوں میں شادی کی تقریبات کرنا پسند کرتے ہیں۔کیونکہ گرمی میں کھانا بھی خراب ہونے کا ڈر ہوتا ہے۔اور میک اپ بھی خراب ہونے کا خطرہ، سخت سردی میں سوئیٹر سے بے نیاز لڑکیاں، خواتین آرائش و زیبائش،مہنگے ترین لباس فاخرہ میں سردی سے ٹھٹھرتی، سکڑتی،بلند بانگ قہقہے بکھیرتیں۔۔تو مرد حضرات بھی کڑھائی، تلے،دبکے ،موتی سے سجے بنے ریشم کے کرتے، شیروانیاں،قیمتی ملبوسات میں، عورتوں کی سی مشابہت اختیار کئے ہوتے ہیں۔

اُف اس فیشن پرستی نے ایسی وبائی مرض کی شکل اختیار کی ہے۔سادگی،سیرت،کردار کی حقیقی خوبصورتی نظروں سے اوجھل ہوگئ ہے۔

جبکہ عورت، مرد مختلف اصناف ہیں۔انکا لباس بھی مختلف ہے۔۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ سے بن روایت ہے۔رسول اکرمؐ  نے اس مرد پر لعنت فرمائی ہے۔جو عورتوں کا لباس پہنتا ہے۔اور اس عورت پر لعنت فرمائی ہے جو مردوں کا لباس پہنتی ہے”۔(زاد راہ بحوالہ ترغیب و ترتیب)

افسوسناک امر یہ ہے ہمارا میڈیا بھی اس قبیح طرز معاشرت کو پروان چڑھا رہا ہے۔ اشتہارات ہوں یا ڈرامے،لڑکیاں جینز،تنگ پاجامے زیب تن کئے نظر آتی ہیں۔

اسلامی طرز معاشرت میں سادگی، میانہ روی، اعتدال بنیادی اصول ہیں۔ہمارے معاشرے میں جو بھی بے اعتدالی، بے راہ روی،افراط و تفریط ہے۔ان اصولوں سے انحراف کا نتیجہ ہے۔

ہماری والدہ بتاتی ہیں ، چند عشروں قبل تک صاحب حیثیت لوگ بھی تقاریب میں اسراف و تبذیر سے پرہیز، سادگی،اختیار کرتے تھے۔اہل ثروت خواتین کے پاس بھی چند مخصوص سوٹ ہوتے،وہی تمام تقاریب میں پہنے جاتے۔

آج مہنگائی نے غریب کی کمر توڑ دی ہے۔لیکن اہل ثروت مصنوعی نمائش،دکھاوے کے لئے بے دریغ خرچ کرنا باعث فخر گردانتے ہیں۔یہ روئیے انسانوں میں انتہا درجے کے ہیجان انگیز جذبات پیدا کرتے ہیں۔

گزشتہ دنوں کراچی میں چوری کے شبہے میں دو سگے بھائیوں پر سب نے مل کر تشدد کیا۔اور پھر پولیس کے حوالے کردیا۔جبکہ ان کے پاس کوئی اسلحہ نہیں تھا وہ مزدور پیشہ تھے۔اور ہماری پولیس ڈاکوؤں کے ہم پیالہ، ہم نوالہ ہے۔مگر بے گناہوں کو رشوت اور تگڑی سفارش کے بغیر نہیں چھوڑتی ۔عوام شبہ کی بناء پر شدید تشَدد ،حد اعتدال سے گزرا ہوا رویہ،نہ صرف معاشرے پر بدنما داغ ہے۔بلکہ یہ متشدد روئیے انسانوں کی شخصیت کو بھی مسخ کرتے ہیں۔ اعتدال، توازن ،سےشخصیت میں بردباری ،حسن پیدا ہوتا ہے۔ہمارے معاشرے میں جتنی خرابیاں فساد ہے۔عدم برداشت،بے اعتدالی کے باعث ہیں۔

جیسے گھریلو آرائش کے لئے قیمتی اشیا کاجمع کرنا،استعمال کرنا۔ان کی خریداری پر اسراف کرنا۔

اچھی متوازن عذا،اچھی صحت کی ضامن ہے۔لیکن چٹ پٹی مرغن غذا سے متعدد بیماریوں کو دعوت دی جاتی ہے، بچوں کو بھی مرغن غذا کا عادی بنادیا گیا ہے۔ہمارے معاشرے میں خوراک سے بھی سادگی کو رخصت کردیا گیا ہے۔

موبائل ضرورت کی چیز ہے۔لیکن حد سے زیادہ استعمال سے کم عمر بچوں کو بھی چشمہ لگا نظر آتا ہے۔

بے اعتدالی سے سوائے نقصان کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔اعتدال کا مطلب ہے۔”نہ حد سے کم۔” “نہ حد سے زیادہ۔”

پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا۔”سادگی، اعتدال،میانہ روی نبوت کا چوبیسواں حصہ ہیں۔”(ترمذی)

ہم بھی اپنی زندگی کے ہر پہلو میں خریداری،خرچ،کھانا،پینا، پہننا،آرائش و زیبائش، سجاوٹ،گفتگو، ہنسی مذاق ،موبائل کا استعمال غرض یہ کہ ہر کام میں جذبات میں بھی اعتدال،میانہ روی کے اصول،اعلی اوصاف کو اپنا لیں تو ہمارا شمار دنیا کی بہترین قوموں میں ہوگا۔اور ہمارا معاشرہ پر امن، مہذب ہوگا۔جھوٹی نمائش،ذہنی امراض سے نجات، سکون و اطمینان حاصل ہوگا۔

آئیے عہد کریں ان اصولوں کو اپنی زندگی میں بھی شامل کریں گے۔اور بچوں میں بھی یہ اعلی اوصاف پیدا کریں گے۔

جواب چھوڑ دیں