انسانیت دنیا سے کوچ کرگئی

انسان کو اللہ تعالیٰ نے سب مخلوقات سے افضل مخلوق کا درجہ دیا ہے۔ انسان کو رہن سہن اور چال چلن کا طریقہ بتایا گیا ہے اور تو اور سب سے اہم یہ کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا فانی سے رخصت ہونے کے بعد انسان کو مردہ حالت میں میت کو دفنانے کا عمل بھی بتایا۔وہ بھی ایک جانور کے ذریعے انسان کو دفنانے کا ہنر سکھایا، جس سے انسان نے خود کو اس مردہ حالت میں دفنانے کا عمل شروع کر دیا اور جیسے جیسے وقت گزرنے لگا تو حال کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انسان خود کو مالک بھی سمجھنے لگا۔

انسان کی فطرت میں ایک شے بڑھتی ہوئی دکھائی دینے لگی جس کو انا یا میں کہا گیا ہے (اس بات کا انکار نہیں کیا جاسکتا) یہ شے انسانی فطرت میں نسل در نسل چلی آر ہی ہے۔ انسان نے اس کو خود کے ساتھ منسلک کر لیا ہے۔ سب انسان برابر ہیں اللہ نے ان کو ایک ہی جان سے پیدا کیا ہے ۔ذات قبیلے رنگ روپ نسل سب ایک دوسرے کی پہچان کو بنائے ہیں۔ اللہ تعالی قرآن پاک میں فرماتے ہیں ۔اے لوگو ڈرتے رہو اپنے رب سے جس نے پیدا کیا تم کو ایک جان سے اور اسی سے پیدا کیا اس کا جوڑا اور پھیلائے ان دونوں سے بہت مرد اور عورتیں ( النسائی) ۔

اے ابن آدم (انسانوں) ہم نے تم کو بنایا ایک مرد اور ایک عورت سے اور رکھیں تمہاری ذاتیں اور قبیلے تاکہ آپس کی پہچان ہو ( الحجرات )۔ اور ایک طرف یہ حال کے ساتھ ساتھ دوسری طرف انسان انسانیت کی تلاش میں ہے اور اس تلاش میں انسان ہی انسان کا قتل کر رہا ہے، اس زمین کے رنگ کو بدلا جا رہا ہے اور پھر کہا جاتا ہے کہ اس میں انسانیت نہیں تھی تو کیا جو مار رہا ہے اس میں انسانیت ہے؟ یہاں اقتدار و اختیار کی ہوس میں تو کہیں مال و دولت کی خاطر سر تن سے جدا کیے جا رہے ہیں اور کہیں عزتیں پامال ہو رہی ہیں اور کہیں یہ معاشرتی غلاظت سے کم عمر بچوں کو اس دنیا سے کوچ کر دیا جاتا ہے۔

مگر ہاں بات سب انسانیت کی کر رہے ہیں، یہاں خدا بننے کے لیے کسی کو فرعون جیسا روپ اپنانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہاں تو ایک رکشے والا انسان ہی پیدل چلنے والے انسان کو انسان نہیں سمجھ رہا، حقیقت تلخ تو تھی ہی مگر اب تلخ ترین ہوتی جا رہی ہے، کیونکہ اگر ایک انسان کسی دوسرے انسان کو اس کی حقیقت بتائے تو بھی اس کو قتل کر دیا جاتا ہے، دراصل معاشرہ اپنی روح سے عاری ہو چکا ہے۔

اگر ہم اس معاشرے کا ایک اور رخ دیکھیں تو جس کے ہاتھ پاؤں سلامت ہیں اس کو بھیک دے کر اس کو معزور بنا دیا گیا ہے، کیا آپ اس کو معذور نہیں کر رہے ہیں؟ کہیں آپ ثواب کی خاطر اپنے رب کو راضی کرنے کی بجائے اس ذاتِ اقدس کو ناراض تو نہیں کیے جا رہے؟ اس کے بندوں کو معزور بنا کر، آج کل کے اس دور میں جو شخص انصاف کی بات کرتا ہے، عدل کی بات کرتا ہے، وہ غلط اور موت کا حقدار ٹھہرایا جاتا ہے، اس پر اس کے خاندان پر زندگی تنگ کر دی جاتی ہے، اس شخص کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ یا تو وہ جینا ترک کرکے انصاف کو ترجیح دے یا پھر انصاف کو ترک کر کے خود کی اور اپنے خاندان کی زندگی کو بچا ئے۔

انسان کچھ بھی کر لے مگر ایک سچائی اپنے ساتھ ہر وقت لیے پھرتا ہے، جس سے کبھی بھی کوئی بھی طاقت یا شے منہ نہیں موڑ سکتی جس کا نا موت ہے، جو کسی بھی وقت ہر شے اور طاقت کو ختم کر سکتی ہے، یہ موت ہی واحد شے ہے جو ایک انسان کو باور کرا دیتی ہے کہ دنیا اور اس زندگی کے کسی موڑ پر میں ایک حقیقت ہوں، جسے کوئی بدل نہیں سکتا، انسان مر گیا، یہ تو اکثر و بیشتر سنا جاتا تھا، مگر اب اس بات کو سننا پڑے گا کہ انسانیت اپنا سب کچھ سمیٹ کر اس دنیا فانی سے کوچ کر چکی ہے۔

جواب چھوڑ دیں