پھر وہی تیرِ نیم کش کی خلشِ جاں کاہ

کچھ نکلتا ہوا قد اور کچھ نالائقی کی وجہ سے مجھے تیسری جماعت سے ساتویں جماعت تک، جماعت کی سب سے پچھلی نشستوں پر ہی بٹھا یا جاتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب والدین اساتذہ سے یہ کہا کرتے تھے کہ بچہ بھی آپکا ہے اور اس کی چمڑی بھی آپ ہی کی ہے۔ اس دور کے والدین کو اس بات کی فکر کبھی نہیں رہی کہ بچے کی کھال ادھیڑی جاتی ہے یا جان پر بن جانے کے امکانات پیدا ہوجاتے ہیں، فکر ہوتی تھی تو بس اس بات کی کہ بچہ کسی طرح لائق فائق بن جائے۔

اساتذہ بھی تفویض کردہ ان اختیارات کا بڑے بھر پور طریقے سے استعمال کیا کرتے تھے اور اگر کسی ایک بچے کو بھی سزا دینا پڑ جاتی تو اکثر پوری کلاس کو پہلے کھڑے ہوجانے کا حکم ملتا اور پھر اگلی صفوں سے بچوں کی پٹائی شروع ہوتی تو آخری بچے پر اختتام پذیر ہوتی۔ کلاس میں 40 بچوں سے بھی زیادہ بچے ہوا کرتے تھے اور میں ان قسمت کے ماروں میں شامل تھا جو تقریباً سب سے آخر میں مار کھانے والا بچہ ہوا کرتا تھا۔ آج میں اکثر سوچتا ہوں کہ کلاس کا وہ سب سے پہلے مارکھانے والا بچہ کتنا خوش قسمت ہوتا تھا جو کھڑے ہونے کے بعد ابھی سنبھل بھی نہیں پاتا تھا کہ زناٹے دار تھپڑ اس کے گال لال کر دیا کرتے تھے۔

میری باری آنے تک جو میرا حال ہوتا تھا اس کو تو اب تصور میں لانا بھی مشکل ہے اس لئے کہ پہلا بچہ تو ایک ہی مرتبہ مار کھانے کی اذیت سے گزر تا تھا، میں تو اس دوران 40 سے بھی زائد مرتبہ پٹ چکا ہوتا تھا۔پٹنے پٹانے کی بات تو اپنی جگہ، لیکن آج اگر کوئی مجھ سے غالب کے اس شعر کا مطلب پوچھے کہ؎

                                         کوئی میرے دل سے پوچھے تیرے تیرِ نیم کش کو

                                          وہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا

تو شاید مجھ سے بہتر کوئی بھی اس شعر کی تشریح نہ تو کر سکتا ہے اور نہ ہی اس خلش کو محسوس کر سکتا ہے جو میرے دل پر اپنی باری آنے تک طاری ہو جایا کرتی تھی۔میں نے غلط نہیں کہا کہ میں پہلے پیٹے جانے والے بچے کی خوش قسمتی پر آج بھی رشک کرتا ہوں اس لئے کہ وہ تو سوچنے سمجھنے سے کہیں پہلے مار کھانے کی اذیت سے نمٹ چکا ہوتا تھا لیکن میں مار کھانے کے انتظار میں تقریباً 40 ماروں کی اذیت سہہ سہہ کر پٹنے سے کہیں پہلے ہی ادھ موا ہو جایا کرتا تھا۔

کئی ماہ اس بات کو گزر چکے ہیں کہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف نے “گرے” یعنی “نیم تاریک” فہرست میں درج کیا ہوا ہے۔ آنکھوں کے سامنے اندھا اور تاریک کنواں رکھ چھوڑا ہے جبکہ پشت پر روشنیوں کی بارشیں ہیں۔ حکم ہے کہ پیچھے یعنی روشنیوں کی جانب پلٹ جانے کیلیے “اور اور” پر عملِ مسلسل کیے جانا ہے ورنہ سامنے جو کچھ بھی نظر آ رہا ہے وہ تمہاری تقدیر بنا دیا جائے گا۔زبر دستی کے کام کوئی کب اپنی مرضی سے کیا کرتا ہے اور وہ بھی ایسے کام جو مزاج ناآشنا ہوں۔ پاکستان اندھے کوئیں کی تاریکی سے اپنے آپ کو بچائے رکھنے کی ہر ممکن جد و جہد میں لگا ہوا تو ہے لیکن کیونکہ وہ سمجھ رہا ہے کہ ایسا سب کچھ اسے مجبور سمجھ کرایا جارہا ہے اسی لئے وہ دودھ دینے کے باوجود اس میں مینگنیاں بھی ضرور ڈال دیتا ہے۔

ہر حکم پرعمل کیے جانے کے بعد جو رد عمل سامنے آتا ہے وہ ستائش میں تو ضرور ہوتا ہے لیکن تیرتی ہوئی مینگنیاں دیکھ کر مزید دودھ دینے کی فرمائش کر دی جاتی ہے۔ اس مصیبت سے چھٹکارے کا ایک ہی حل ہے اور وہ اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ دودھ یا تو صاف شفاف مہیا کیا جاتا رہے یا پھر دودھ دینے سے صاف صاف انکار کر دیا جائے لیکن پیچھے روشنیاں اور نگاہوں کے سامنے اندھے کوئیں نے دماغ کی ساری بتیاں ایسے گل کر کے رکھی ہوئی ہیں کہ اس مشکل سے باہر آنے کا کوئی بھی راستہ سجھائی ہی نہیں دے رہا۔

پاکستان کو “گرے” یعنی “نیم تاریک” فہرست میں آخر ڈالا ہی کیوں گیا ہے؟، یہ ہے وہ بنیادی اور اہم سوال جس پر اہل اختیار و اقتدار کو سنجیدگی سے غور ضرور کرنا چاہیے۔ موجودہ حکومت سے اس بات کی بڑی توقعات تھیں کہ وہ آنے کے فوراً بعد اس گتھی کو سلجھانے میں کامیاب ہو جائے گی لیکن لگتا ہے وہ بھی ان ہی عالمی طاقتوں کے ساتھ رل مل گئی ہے جن کو اقتدار میں آنے سے قبل وہ پاکستان کی تباہی و بربادی میں شمار کرتی رہی تھی۔ موجودہ حکومت کی نظر میں ملک کے طول و عرض میں پھیلی بد امنی دوسروں کی جنگ کو اپنی جنگ سمجھ کر اس میں شریک ہوجانے کا نتیجہ تھی اور اقتدار میں آنے سے قبل یہ دعویٰ تھا کہ وہ کبھی کسی پرائی جنگ کا حصہ نہ بنے گی۔

ہوتا یہی رہا ہے کہ ہر دور کی اپوزیشن عوام کو جو جو باتیں سمجھانے اور جن جن باتوں سے اپنے آپ اور عوام کو دور رکھنے کا درس دیتی نظر آتی ہے، اقتدار پر متمکن ہونے کے بعد ان ہی ساری باتوں کو قبول کرنے پر مجبور ہو جایا کرتی ہے۔ کئی دہائیوں سے ہر آنے والی حکومت امریکا کی پالیسیوں کی مخالفت پر عوام میں مقبولیت حاصل کرتی ہے کیونکہ عوامی سطح پر ایک واضح اکثریت امریکا کی مخالف ہے اس لیے جو پارٹی بھی امریکا اور اس کی پالیسیوں کے خلاف زیادہ زہر اگلتی ہے عوام اس کے پیچھے چل نکلتے ہیں لیکن دیکھا یہی گیا ہے اقتدار ملتے ہی وہی سیاسی پارٹی سب سے پہلے نہ صرف امریکا کے دورے کرتی نظر آتی ہے بلکہ وائٹ ہاؤس اور پینٹا گون، دونوں مقامات میں کئی کئی دن کے قیام و طعام کے مزے بھی لوٹتے دکھائی دی ہے۔

موجودہ حکومت کا پہلا سال اس اعتبار سے کسی حد تک خوش کن تھا کہ اس نے اپنے اقتدار کے پہلے سال تو واشنگٹن اور وائٹ ہاؤس کی جانب منھ کر کے تھوکنا بھی گوارہ نہیں کیا لیکن بار بار کے سعودی دورے کان ضرور کھڑکھڑاتے رہے۔ عوام کے کانوں کی یہ کھڑکھڑاہٹ بے جا بھی نہیں تھی کیونکہ ایک سال گزرجانے کے فوراً بعد امریکی یاترا نے خطرے کی وہ گھنٹیاں جو صرف کانوں میں ہی بجا کر تی تھیں، وہ علی الاعلان خوب زور زور سے بجنا شروع کر دیں اور ٹھیک اسی دن سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے سے پہلے جو کچھ سنایا اور دکھایا تھا اس کا دکھایا جانا اور سنایا جانا ایک خواب اور افسانہ ہی تھا۔

آج تک کی اطلاع کے مطابق پاکستان کو گرے لسٹ میں ہی رکھتے ہوئے مزید 4 ماہ کی مہلت دی گئی ہے کہ وہ لیت و لعل سے کام لینے کی بجائے وہی کچھ کرے جو کہا جارہا ہے۔ گویا تیر کو کمان میں کھینچے رکھنے پر ہی اصرار ہے، دل و جگر کے پار اتار دینے کا فی الفور کوئی ارادہ نہیں۔ یہ وہی کیفیت ہے جو میرے جیسے نالائق طالبِ علم پر گزرا کرتی تھی جس کے پٹنے کی باری سب سے آخر میں آیا کرتی تھی۔دنیا میں آج بھی بیسیوں ممالک ایسے ہیں جہاں امن و امان کی صورت حال پاکستان سے بھی کہیں زیادہ بگڑی ہوئی ہے۔

چین اپنے ملک میں بسنے والے مسلمانوں کے ساتھ کیا کر رہا ہے، میانمار کے مسلمان کس اذیت سے گزر رہے ہیں، فلسطین کے مسلمانوں کے ساتھ یہودیوں نے کیا ظالمانہ سلوک روا رکھا ہوا ہے، بھارت اپنے ملک کے مسلمانوں کے ساتھ کس طرح کا جابرانہ رویہ اپنائے ہوئے ہے اور کشمیر میں مسلمانوں کے خون سے کتنے بڑے پیمانے پر ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ دنیا کے سامنے یہ سارے مناظر روز روشن کی طرح عیاں ہیں لیکن مسلمانوں کے ساتھ اتنے بہیمانہ رویوں کے باوجود بھی کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں جو ایف اے ٹی ایف کی “گرے” لسٹ میں شامل ہو۔پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے کا صرف اور صرف ایک ہی الزام ہے جو سامنے آرہا ہے اور وہ الزام یہ ہے کہ پاکستان میں دہشتگردوں کی تنظیمیں پائی جاتی ہیں اور پاکستان باقائدہ ان کی تربیت کرنے میں ملوث ہے۔

بات صرف اتنی ہے کہ ہر ملک کی صرف ایک ہی فوج ہوا کرتی ہے دس دس نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی قریب میں یہ بات بہت تشویش کا باعث رہی ہے کہ پاکستان میں عسکریت پسندوں کی کئی کئی تنظیمیں نہ صرف متحرک اور فعال رہی ہیں بلکہ پاکستان خود ان کے خلاف سخت بنرد آزما رہا ہے۔ مختلف کالعدم تنظیمیں اتنی زیادہ طاقتور بھی ہو گئی تھیں جن کے مقابلے کیلئے دنیا کی بہترین افواج میں سے ایک نمایاں نام رکھنے والی (پاکستانی) فوج کو ان کی بیخ کنی کیلئے میدان عمل میں کودنا پڑا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اب پاکستان میں طاقتور سے طاقتور ترین گروہ بھی عملاً ختم ہو چکے ہیں لیکن دنیا کو مطمئن کرنا ابھی باقی ہے۔ اب جو پاکستان کو مزید 4 ماہ کی مہلت دی گئی ہے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کو کچھ ایسا ضرور کرگزرنا چاہیے کہ پاکستان گرے لسٹ سے باہر آنے میں کامیابی ہو جائے۔

لہٰذا ضروری ہے کہ تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر کسی بھی قسم کی دہشتگرد تنظیم اور ان کے سربراہوں کے خلاف بھر پور کارروائی کی جائے اور ان سب کو نشانِ عبرت بنا دیا جائے تاکہ آنے والے جون میں پاکستان اندھے اور تاریک کوئیں سے نہ صرف بچ جانے میں کامیاب ہو جائے بلکہ روشنیوں کی برسات میں لوٹ بھی آئے۔ امید ہے کہ پاکستان بہترین منصوبہ بندی سے کام لیکر تیرِ نیم کش کی خلشِ جانکاہ کی اذیت سے باہر آنے میں ضرور کامیاب ہو جائے گا۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں