کورونا وائرس وبا نہیں ایک سازش

کورونا وائرس کی تشخیص سب سے پہلے چین میں کی گئی جہاں انسانی ہلاکتوں کا شمار ممکن نہیں، اس کے ساتھ ساتھ کورونا وائرس نے دیکھتے ہی دیکھتے چین کی معیشت کو بھی جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا ،جس کی وجہ سے مجبوراً چین کو کورونا وائرس سے متاثرہ لوگوں کو موت کی گھاٹ اتارنا پڑا۔

کورونا وائرس بلاشبہ دجالی طاقتوں کا پھیلایا ہوا جال ہے، جو اپنے سوا کسی کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتیں۔انہوں نے سب سے پہلے چین میں اس وائرس کو پھیلایا تاکہ اس کی بڑھتی ہوئی معیشت کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا جائے،اس چال میں وہ کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں؟ اس کے لئے ہمیں کچھ انتظار کرنا پڑے گا، مگر فی الحال چین کے ساتھ عالمی تجارت مکمل طور پر بند ہے۔

چین نے اپنی معیشت کو تباہ ہونے سے بچانے کے لئے کورونا وائرس سے متاثرہ لوگوں کو موت کی گھاٹ اتار دیا تاکہ چین کومزید نقصان سے بچایا جا سکے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ چین کے بعد کورونا وائرس ایران پہنچ گیا ہےاور وہاں سے ہوتا ہوا پاکستان میں داخل ہوگیاہے۔

کورونا وائرس سےپاکستان میں دو شہری متاثر پائے گئے ہیں، جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ ایران سے زیارتیں کر کے آئے تھے۔ پاکستان میں کورونا وائرس کی موجودگی کا سن کرپورے ملک میںایک شور برپا ہوگیا۔ عام مجالس سے لے کرسوشل میڈیا تک سبھی نے اس مرض سے بچنےکےلئے قرآنی وظائف اور دعاؤں کے ساتھ ساتھ ٹونے، ٹوٹکے بھی بتانا شروع کر دیئے اور حفاظتی انتظامات کے بارے میں مختلف تجاویز بھی دینا شروع کر دیں اورمفت مشوروں کی بھرمار بھی کر دی، کہ ہجوم میں نہ جائیں ، باہر کا کھانا نہ کھائیں ، لوگوں سے ہاتھ نہ ملائیں ، ہر تھوڑی دیر کے بعد ہاتھ دھوئیں ،گلا خشک نہ ہونے دیں بار بار پانی پیتے رہیں وغیرہ وغیرہ۔

یہاں آپ کی معلومات کے لئے ایک تحریرپیش کر رہا ہوں جسے سوشل میڈیا سے لیا گیاہے، تاکہ آپ اندازہ لگا سکیں کہ دجالی قوتیں انسانوں کے ساتھ کیا کیا کھلواڑ کر رہی ہیں۔ پاکستان میں کورونا وائرس کی موجودگی نے انسانوں سے انسانیت ہی چھین لی اور لوگوں کی مجبوریوں سے ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے کیا کچھ نہ کیا گیا۔

کورونا وائرس سے بچاؤ کے لئے شہریوں نے ماسک خریدنے کےلئے میڈیکل اسٹوروں کا رخ کیا تو وہاں ماسک ختم ہوگئے ، بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں 15 مارچ تک چھٹیاں جبکہ کراچی کے تعلیمی ادارے یکم مارچ تک بندکردیئے گئے۔ سعودی عر ب نے بھی فوری طور پر پاکستان سے آنے والے زائرین پر پابندی عائد کردی ۔پاکستانی قوم کےلئے یہ ڈوب مرجانے کا مقام ہے کہ کراچی میں کورونا وائرس کی خبر پھیلنے کے ساتھ ہی دکانداروں نے سرجیکل ماسک کی قیمت 80 روپے سے 400 روپے اور میڈیکیٹڈ ماسک کی قیمت 1200سے3000 روپے تک بڑھا دی ہے۔ایسے دکاندار اور کاروبار کرنے والوں پراللہ کی لعنت ہو۔حالانکہ قرآن میں صاف صاف لکھا ہے کہ وبا کے دوران ایسی چیزوں پر اپنا کاروبار چلانے والے منافع خور جہنم کی آگ میں جلیں گے۔

بہر حال کورونا وائرس کے بارے میں مختصر طور پر عرض ہے کہ یہ وائرس انسان کے ہاتھوں لیبارٹری میں بنایا گیا، جرثومہ ہے، جسے خسرہ اور ممز کے دو جرثوموں سے ملا کر بنایا گیا ہے۔ اسے امریکا میں پیٹنٹ کیا گیا تھا، جس کا پیٹنٹ نمبر 10,130,701 ہے۔ اس وائرس کا تعلق سارس اور انفلوئنزا کے خاندان سے ہے اور اس کی علامات اور تکلیفات بھی سارس اور فلو جیسی ہی ہیں۔ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ایسی بہت سی بیماریاں موجود ہیں جو کورونا وائرس کے مقابلے میں زیادہ جان لیوا ہیں۔اس سلسلے میں فلو ہی کی مثال لے لیجئے کہ صرف امریکا میں ہی فلو سے اب تک 14 ہزار افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جبکہ علاج معالجے کےلئے ڈھائی لاکھ افراد کو اسپتالوں میں داخل کیا گیا,2017 میں امریکا میں فلو سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 80 ہزار تھی۔ اسی طرح ہر سال دنیا بھر میں صرف ملیریا سے مرنے والے افراد کی تعداد کروڑوں سے تجاوز کرجاتی ہے، مگر ان امراض کے بارے میں نہ تو کبھی ایسا ماحول بنایا گیا اور نہ ہی اس کے بچاؤ کے نام پر ملک کا محاصرہ کرنے جیسی کیفیت سامنے آئی، جوکہ اب دیکھنے کو مل رہی ہے۔ حالانکہ اب تک کورونا وائرس سے متاثرہ افراد میں ہلاکت کی شرح دو تا تین فیصد ہے، جو کہ قابل تشویش نہیں ہے۔

قابل تشویش بات یہ ہے کہ کورونا وائرس ہر لحاظ سے منفرد ہتھیار ہے، ایک تو یہ جراثیمی ہتھیار ہے، جس کا ٹیسٹ کامیابی سے کیا گیا، اس کا دوسرا پہلو زیادہ خوفناک ہے اور وہ یہ ہے کہ اس سے بچاؤکے نام پر پورے ملک کا مقاطعہ کردیا گیاہے۔یعنی چین کے اندر پانچ کروڑ سے زائد افرادکو کورونا وائرس کے نام پر قید کردیا گیاہے اور پوری دنیا میں چینی باشندوں کو کورونا وائرس کا نعم البدل سمجھ لیا گیاہے۔ امریکا اور یورپ میں مقیم چینی باشندوں کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات عام ہوگئے ہیں، حالانکہ یہ چینی باشندے کئی برسوں سے چین گئے بھی نہیں تھے۔ یوکرین میں وہاں کے باشندوں نے ایک ایسی بس پر پتھراؤ کردیا جس میں چین سے واپس آنے والے یوکرین کے باشندوں کو احتیاط کے طور پر قرنطینہ لے جایا جارہا تھا۔ کروز شپ پر موجود تین ہزار افراد کو کوئی ملک اپنی بندرگاہ پرکورونا وائرس کے خوف سے اترنے کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ کروز شپ پر موجود ہرفرد کے اترتے ہی کورونا وائرس تیزی سے پھیل جائے گا اور سارے مقامی باشندے اس کی لپیٹ میں آکر مرجائیں گے۔

الغرض کورونا وائرس کے نام پربڑی عجیب وغریب تصاویر سامنے آتی ہیں۔ خصوصاً سفید لباس پہنے کئی افراد پراسرار انداز میں کہیں مصروف ہیں، اس تصویر کے نیچے کیپشن لگا ہوتا ہے کہ کورونا کے خلاف حفاظتی اقدامات کرتے ہوئے۔ کیا کوروناوائرس کوئی کتے بلی کی طرح کی مخلوق ہے؟ جو اسے یوں ڈھونڈھاجا رہا ہے۔ کوروناوائرس کے نام کے ساتھ ہی ایک عجیب و غریب تصور یہ بھی پھیلا دیا گیا ہے کہ جیسے وہ ہر طرف فضا میں موجود ہے اور ہر شخص کے تعاقب میں ہے۔یاد رکھئے اس تاثر کو پھیلانے میں شعبہ طب سے وابستہ افراد اور ان کی ایسوسی ایشنیں پیش پیش ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی وائرس ہو وہ ہوا میں زندہ رہ ہی نہیں سکتا کیونکہ وہ فوری طور پر مرجاتا ہے۔ ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہونے کےلئے جسمانی رابطہ ضروری ہے یا کم از کم کھانسی اور چھینکنے کے دوران رطوبت براہ راست دوسرے شخص کی سانس کے ذریعے اندر داخل ہونا ضروری ہے۔

مگر یہاں ہر کچھ دن کے بعد کسی نہ کسی ملک میں کورونا دریافت کرلیا جاتا ہے اور بعدازاں یہ کھیل شروع کردیا جاتا ہے جوکہ اب پاکستان میں کھیلا جارہا ہے۔ جنوبی کوریا اور اٹلی چونکہ طاقتور ہیں، اسلئے ان کا مقاطعہ نہیں کیا گیا، مگر ایران کے ساتھ دوسری صورتحال ہے۔ اب یہی کچھ پاکستان کے ساتھ ہونے کے اندیشے ظاہر ہورہے ہیں۔ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کا مریض ڈیکلیئر کرنے میں بڑی عجیب و غریب صورتحال سامنے آئی۔

کراچی کا یحییٰ جعفری اپنے دو دوستوں کے ساتھ ایک گروپ میں بذریعہ ہوائی جہاز ایران کی زیارتوں کےلئے 6 فروری کو تہران پہنچا اور 20 فروری کو واپس کراچی آیا 25 فروری کو اسے نزلہ ، زکام اور بلغم والی کھانسی کی شکایات ہوئی اور 26 فروری کو آغا خان اسپتال میں اسے داخل کیاگیا، 27 فروری کی شام کو ڈائریکٹریٹ جنرل ہیلتھ سروسز حکومت سندھ نے ایک رپورٹ جاری کی، جس میں کہا گیا کہ یحییٰ جعفری میں کورونا وائرس تشخیص ہوا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ڈائریکٹریٹ جنرل ہیلتھ سروسز کی جاری کردہ رپورٹ میں لیبارٹری رپورٹ کے سامنے لکھا ہوا ہے کہ رپورٹ کا انتظار ہے۔اسی طرح اسلام آباد میں دوسرے مریض کا انکشاف ہوا مگر اس کی تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔ بین الاقوامی معیار کے مطابق مشتبہ مریض کے کم ازکم دو نمونے تشخیص کےلئے لئے جانے چاہئیں۔ یہ نمونہ جات تنفس کی نالی کے بالائی اور زیریں حصے کی رطوبت کے اور بلغم کے ہونے چاہئیں، مگر آغا خان اسپتال کراچی میں داخل مریض کا تنفس کی نالی کے بالائی حصے کی رطوبت کا صرف ایک ہی نمونہ لیبارٹری کو بھجوایا گیا، جس کی رپورٹ بھی نہیں آئی تھی کہ مریض کا اعلان کردیا گیا۔ اسی طرح بین الاقوامی معیار کے مطابق اگر پہلا ٹیسٹ مثبت آئے تو ملتے جلتے گیارہ وائرسوں کی تشخیص کےلئے مزید ٹیسٹ کرنے چاہئیں کیونکہ فلو HN1اور دیگر بیماریوں کی علامات اور ٹیسٹ کی رپورٹ بھی ملتی جلتی ہوتی ہیں، اس لئے اعلان کرنے سے قبل توقف کرنا چاہئے تھا مگر کراچی کے کیس میں انتہائی جلد بازی اور عجلت کا مظاہرہ کیا گیا۔

دراصل پاکستان میں ایک مافیا ہے جو ہر طریقے سے اور ہر قیمت پر مال بنانے پر یقین رکھتی ہے، پاکستان میں کورونا وائرس کے نام پر تواربوں روپے ادھر سے ادھر ہوسکتے ہیں۔ ماسک ، قرنطینہ ، سرکاری اداروں میں ٹیسٹ وغیرہ تو اس مافیا کےلئے سونے کی کان ثابت ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں کورونا کا مریض ڈیکلیئر کرنے میں انتہائی جلد بازی کا مظاہرہ کیا گیاہے، اس میں بیرونی ہاتھ بھی ہوسکتا ہے جو اپنے ایجنٹوں کے ذریعے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بھارت سے ہر برس پاکستان سے زیادہ زائرین ایران جاتے ہیں، مگر وہاں پر ایسی کوئی ہڑبونگ ہے اور نہ ہی وہاں پرعمرہ زائرین پر پابندیاں لگنی شروع ہوئی ہیں۔لہٰذااس پر بحیثیت قوم ہمیں اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔

دنیاپر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کے سازشوں سے ہمیں باخبر ہونا چاہئے اور ان کے ان اوچھے ہتھکنڈوں سے خود بھی ہوشیار رہئے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھئے۔”

اس ساری صورتحال کا اگر بغور مشاہدہ کیا جائے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ عالمی صیہونی طاقتیں خصوصی طور پر پاکستان کو گھیرنے میں لگی ہوئی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ جو ممالک پاکستان کے حمایتی ہیں ان کے بارے میں بھی ان کے نظریات مثبت نہیں۔

اب چین ہی کو لے لیجئے جو پاکستان کے ساتھ مل کر سی پیک بنا رہا ہے، اسے ان دجالی طاقتوں نے کیسے نقصان پہنچانے کی کوشش کی؟ کہ وہاں کرونا وائرس چھوڑ دیا اور اس کی عالمی منڈی میں تجارت بند کر دی تاکہ معاشی طور چین کو کمزور کیا جاسکے اور یہ پاکستان کی کسی بھی طرح مدد سے باز رہے لیکن شاید انہیں معلوم نہیں کہ یہ جتنا بھی مکروفریب سے کام لیں گے اتنا ہی اللہ کی تدبیر ان پر غالب رہے گی۔

پاکستانی قوم کو کورونا وائرس سے گھبرانے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں بس توبہ استغفار پڑھیں اور دشمن کی چالوں سے ہوشیار رہیں۔

کورونا وائرس ایک دجالی فتنہ ہے،مسلمانوں کو اس سے گھبرانا نہیں بلکہ مردانہ وار مقابلہ کرنا چاہئے۔۔۔۔۔اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو آمین۔

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں