گندم کا بحران

تاجروں نے کیا ذخیرہ اناج   بھوک سے لوگ مرتے جارہے ہیں 

کتنے ظالم مزاج ہیں یہ سبھی ظلم کر کے نکھرتے جارہے ہیں
گندم دنیا بھر میں اگائی جانے والی فصل ہے جوغذائی ضروریات کو پورا کرنے کا ایک بڑا ذریعہ سمجھی جاتی ہے،یہ مکئی اور  چاولکے بعد دنیا میں پیدا ہونے والی تیسری بڑی فصل ہے۔ گندم کا بیج خوراک کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اسے پیس کر آٹا تیار ہوتا ہے، جس سے روٹی، ڈبل روٹی، بسکٹ، کیک، دلیہ، پاستہ، نوڈل وغیرہ تیار ہوتے ہیں۔ گندم کے بیج کے خمیر سے نشاستہ، بیئر، شراب اور حیاتیاتی ایندھن بھی تیار کیا جاسکتا ہے۔ گندم کے پودوں کا استعمال پالتو جانوروں کے چارے کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔اس کی کاشت موسم سرما کی آمد کے وقت کی جاتی ہے اور موسم گرما کی ابتدا میں اس کی فصل تیار ہو جاتی ہے۔

گندم کی کاشت کیلئے کسان کو بہت محنت کرنا پڑتی ہے ، اکثر و بیشتر بے وقت کی بارشوں سے گندم کی کھڑی فصلیں برباد ہو جاتی ہیں جس کا بہرحال نقصان کسانوں اور زمینداروں کو ہی اٹھانا پڑتا ہے ۔حال ہی میں سندھ میں گندم کا بحران شدت اختیار کرگیا ،حیدرآباد ، تھر اور ملحقہ علاقوں میں آٹے کی قلت پیدا ہو ئی جس کی وجہ سے وفاقی حکومت حرکت میں آئی اورپاسکو کے گوداموں سے سندھ میں تقریباً چار لاکھ ٹن گندم دینے کا آغازکیا ، اس حوالے سے وفاقی وزیر برائے فوڈ سیکیورٹی محمد محبوب سلطان نے حیدرآباد میں سندھ کو گندم فراہمی پروگرام کا افتتاح کیا اس موقع پر انہوں نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا تھا کہ سندھ حکومت نے رواں سال گندم نہیں خریدی اس لئے گندم اور آٹے کا مسئلہ پیدا ہوا ہے۔

اس موقع پر سیکرٹری خوراک سندھ لئیق احمد نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ سندھ میں سالانہ گیارہ لاکھ ٹن گندم کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے پاس 8 لاکھ ٹن گندم تھی اور 4لاکھ ٹن کا شارٹ فال پیدا ہوا۔اس بناء پر ہم نے وفاق سے رابطہ کیا اور چار لاکھ ٹن گندم کی فراہمی شروع ہو پائی حکومت کو احساس تھا کہ سندھ میں گندم کی قلت کے باعث گندم اور آٹے کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ۔ادھر صوبہ پنجاب کے وزیر زراعت ملک نعمان احمد لنگڑیال نے بھی اس وقت انکشاف کیا تھا کہ حالیہ بارشوں کی وجہ سے صرف پنجاب میں ایک لاکھ ایکڑ رقبے پر کاشت کی گئی فصلوں کو نقصان پہنچا ۔ان بارشوں کے نتیجے میں زیادہ نقصان بہاولپور، ڈی جی خان اور ملتان کے علاقوں کے زرعی رقبے پر دیکھنے میں آیا تھا اور سرکاری اعدا د وشمار کے مطابق اُس وقت 35 ہزار ایکڑ رقبے پر موجود فصلوں کو نقصان پہنچا تھا۔

کسان بورڈ پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل شوکت علی چدھڑ کا بھی اس وقت یہی کہنا تھا کہ اگر حکومت نے کاشت کاروں کو امدادی پیکج نہ دیا تو اس سے اگلی فصلوں کی کاشت متاثر ہو سکتی ہے کیونکہ غریب کاشت کاروں کی فصلوں کی تباہی کے بعد نہ تو ان کے پاس تباہ ہو جانے والی پچھلی فصل کے لیے ادھار پر حاصل کی جانے والی زرعی ادویات وغیرہ کے پیسے چکانے کی ہمت ہے اور نہ ہی وہ اگلی فصل کے لیے بیج، کھادیں اور زرعی ادویات خرید سکتے ہیں۔ اس لیے چاول اور کپاس کی کاشت متاثر ہو سکتی ہے۔‘‘

اقتصادی ماہرین نے بھی اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ بارشوں سے فصلوں کو پہنچنے والے نقصان کے بعد ملک میں گندم کی پیداوار کا ہدف پورا ہونا مشکل ہو جائے گا بلکہ اس سے مارکیٹ میں زرعی اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہونے کا بھی امکان ہے۔بلاشبہ گندم انسان کی ایک بنیادی ضرورت ہے ،موجودہ معاشی و اقتصادی بحرانی دورمیں کسی غریب کے لیے ایک کلو آٹا خریدنا بھی نہایت مشکل ہوچکاہے، کچھ تومہنگائی نے عوام کو بے حال کررکھا ہے اور کچھ ذخیرہ اندوز تاجروں نے گندم کے ریٹ بڑھا رکھے ہیں ۔

گزشتہ برس گندم کا سرکاری نرخ 1350 روپے فی من تھا جو کہ سندھ حکومت نے نہیں خریدی ،یوں بروقت نہ خرید کرنے کی وجہ سے گندم ذخیرہ کرنے والے ان تاجروں کے ہاتھ لگ گئی جنھوں نے پچھلے سال سرکاری نرخ سے250 تا300 روپے کم فی من خرید کی یعنی 1100 یا 1150 روپے فی من کسانوں سے خرید کراپنے گوداموں میں ذخیرہ کر لی ۔ ۔حکومت کی عدم دلچسپی اور چیک اینڈ بیلنس سسٹم فعال نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے یہاں گندم کی ذخیرہ اندوز ی کرنے والے 1100 روپے من خریدی ہوئی گندم 2000 سے لیکر 2200 روپے فی من تک بیچ رہے ہیں۔

مزدور کی ایک دن کی دیہاڑی 800تا700روپے ہے اور ایک کلو آٹے کی قیمت60 تا 62 روپے ہے، ایک مزدوریومیہ چھٹی نکال کربمشکل 20ہزار روپے مہینہ کماتا ہے جبکہ یہ بھی المیہ ہے کہ اکثر توان کی دیہاڑی تک نہیںلگتی۔اس قدر قلیل آمدن میں یہ سفید پوش طبقہ بجلی، پانی ،گیس کے بل ،مکان کا کرایہ ، بچوں کی تعلیم ،بیماری اور دیگر اخراجات پورے نہیں کرپاتا ،اپنے بچوں کو پیٹ بھر کر روٹی کیسے کھلا پاتا ہوگا ۔حکومت کی ناقص پالیسیوں اور عدم دلچسپی کی بدولت گندم سمیت تمام اجناس کی پیداوار بڑی طرح متاثر ہو رہی ہے لیکن کسی کو احساس تک نہیں ہو پا رہا ۔

اس بحرانی کیفیت سے نمٹنے کے لیے حکومت کو ذخیرواندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کیلیے اقدامات اٹھانا ہوں گے ،ان کے خفیہ گوداموں پر چھاپے مارکر ان کے خلاف ایکشن لیا جانا چاہیے ۔غریب عوام کو اس کا حق دیا جائے۔
وہ جو ظالم ذخیرہ کرتے ہیں ان پہ قدغن لگاؤ تو مانیں
بھوک جلتی ہے پیٹ کے اندر بھوک سب کی مٹاوٗ تو مانیں
اے دُعا !بات کرتے ہیں بس یہ پہرے بٹھاؤ ان پہ تو مانیں

حقیقت تو یہ ہے کہ اوّل تو حکومت ان ذخیرہ اندوزوںاور ناجائز منافع خوروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیںکرتی اور اگر غلطی سے کوئی قدم اٹھا بھی لیا جائے تو بھی حکومت کسانوں ، زمینداروں اور عوام کی تکالیف کا احساس کرنے کی بجائے اسی ذخیرہ اندوز مافیا کا ہی ساتھ دیتی ہوئی نظر آتی ہے۔

اگر یہی ریٹ یا گورنمنٹ ریٹ سے گندم خریدی جاتی تو آج یہ حالات نہ ہوتے، اب کچھ علاقوں میں گندم کی کاشت مکمل ہوچکی ہے اور کچھ علاقوں میں کرشنگ کی تاخیر کی وجہ سے ہزاروں ایکڑ گندم کی کاشت نہیں کی جا سکی۔ جس سے گندم کا بحران پیدا ہونے کا بھی اندیشہ ابھی باقی ہے۔ قبل ازیں اکتوبر میں گنے کی کرشنگ کا آغاز کر دیا جاتا تھا اور اب شوگر ملز مالکان دانستہ طور پر تاخیر کر کے زمینداروںکو پریشان کر رہے ہیں جبکہ زمیندار گنے کی کٹائی کے فوراً بعد گندم کاشت کرنا چاہتے ہیں، کرشنگ کی تاخیر کی وجہ سے کچھ علاقوں میںاب 10 دسمبر تک گندم کی کاشت مکمل ہوگی ۔جس کی وجہ سے گندم کی اوسط پیداوار پر بھی بہت اثر پڑے گا ۔

سندھ میں گندم مارچ کے پہلے ہفتے سے اترنا شروع ہوجاتی ہے گندم کی کاشت کی مدت تقریباً 5 ماہ ہے اگر ٹھنڈ زیادہ ہوتو فی ایکڑ
میں اوسطاً 40 من سے لیکر 70 من تک گندم اترتی ہے اگر ٹھنڈ کم پڑے اور زمین بھی ہلکی ہو تو اوسطاً15 من سے لیکر 35 من گندم اترتی ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں سے مشاورت کے ساتھ زراعت کی ترقی کیلیے اقدامات اٹھائے ۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میںزرعی ترقی کیلئے کسانوں کو جدید زرعی مشینری خریدنے کی ترغیب دی جائے ، انہیں سستے بیج اور کھادوں کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ گندم کی پیداوار کو بڑھانے کیلیے واضح حکمت عملی اپنائی جائے۔یوں تو پنجاب اور خیبر پختونخوا میں بھی گندم کا بحران پیدا ہوا ہے تاہم سندھ زیادہ متاثر ہوا ، ا ب حکومت سندھ کو بھی چاہیے کہ گندم کا مناسب سرکاری ریٹ طے کر کے باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کرے تاکہ یہاں گندم کے بحران پر قابو پایا جا سکے اور سندھ کے کسانوں کو اس کا فائدہ حاصل ہو۔

جواب چھوڑ دیں