مجبور اہل کشمیر اور ہم 

 دنیا کی سب سے بڑی جیل، کشمیر، جس میں تقریبا 12.55 ملین معصوم روحیں، ایک کھلی جیل میں قید ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 1990 سے اب تک 95000کشمیری معصوم شہید ھو چکے، 461000کو گرفتار کیا گیا، 22000عورتوں کے سہاگ اجاڑ کر انکو بیوہ کر دیا گیا، 710000معصوم بچوں کے والدین کو شہید کر کے انکو یتیم کیا گیا، اور اب تقریباً 15 جولائی 2019 سے اب تک کشمیر ایک مکمل کرفیو کے حصار میں ہے، جہاں پر رھنے والوں پر حیات تنگ کر دی گئی، اتنی تنگ کہ جس میں ہم جیسا آزاد و عیاش مسلمان 7 دن بھی زندہ نہ رہ پائے جس میںہمارے کشمیری بہن بھائی 7 مہینے سے سانس لے رہے ہیں۔

کرفیو کے آغاز سے اب تک 1000 سے زائد لوگوں کو شدید زخمی و شہید کر دیا گیا، 3000 سے زائد مسلمانوں کو گرفتار کر کے نا معلوم عقوبت خانوں میں ڈال دیا گیا، موبائل سروس، انٹرنیٹ، لینڈ لائن فون، یہاں تک کہ بیرونی دنیا سے رابطے کا ہر ہر ذریعہ ختم کر دیا گیا۔ اشیائے خورد و نوش کی شدید قلت، جنہیں یہ علم نہیں کہ کل کے دن انکو کھانے کے لیے کچھ میسر ھو گا یا نہیں، دواؤں کی شدید قلت، کہ بیمار ھو جائیں تو تقدیر ھی صحت یاب کر دے، یہاںتک کہ عبادات تک پر پابندی، ایک مومن اپنے گھر کے دروازے سے مسجد تک جانے کے لئیے بھی روک دیا گیا۔

اللہ کا گھر صدائیں دے رھا اپنے ان مومن بندوں کو جو دن رات کی پانچوں نمازیں مسجد میں ادا کرتے تھے اور آج وہ تڑپ رھے ھیں، مسجد کے منبروں ہر کھڑے ھو کر اذان کی پاکیزہ صدائیں بلند کرنا چاھتےہیں مگر طاغوت انکی کنپٹیوں پر بندوقوں کی نالیں جمائے بیٹھا ھے، یا اللہ، کیسا منظر ھو گا وہ، کیسی بے بسی ھو گی ان دلوں میں، کتنے ھی آنسوؤں کے سمندر ھونگے ان آنکھوں میں، جو اپنے رب کی بارگاہ میں چاھنے کے باوجود جانے سے قاصر ھیں۔۔۔ !!! اور اس سب سے قطع نظر کشمیری بہادر ماؤں کے بہادر سنگباز مجاھد بیٹوں کے جو گولیوں کا جواب پتھروں سے دے رھے ھیں، جن ھاتھوں میں کتاب و قلم ہونا تھا وہ ہاتھ یخ بستہ سردیوں میں اپنے دامن میں پتھر اٹھائے ظالم کو اپنی بساط سے بڑھ کر جواب دے رہے ہیں۔

انکے جذبے، انکے دل، اور انکی شیر جیسی دھاڑتی آواز میں وہ گرج ھے کہ جو بندوق تھامے کھڑے ناپاک ھندو فوجی کو بجی ایک لمحے کو لرزا کر رکھ دیتی ھے۔ یہ کیسا نوجوان ھے جو سینے پر گولی کھاتاہے اور پھر اٹھ کر کافر کی طرف لپکتا ھے۔ یہ جذبہ یہ ہمت یہ ولولہ، اللہ اللہ۔۔۔۔۔قربان جاؤں ان ماؤں پر اور ان شیردل جوانوں پر۔

اس سب قیامت میں ایک چیز فطری ھے جو ان میں بھی پائی جاتی ھے اور وہ ھے اپنے مسلمان بھائیوں کا انتظار، انکی راھیں تکنا، دنیا بھر میں پھیلے مسلمانوں کی صفوں میں صلاح الدین ایوبی، ٹیپو سلطان و محمود غزنوی کو ڈھونڈنا۔۔۔ تقسیم کے وقت سے آج تک مائیں اپنے بچوں کو یہی دلاسہ دے رھے ھیں کہ گھبراؤ مت، تم اکیلے نہیں ھو، بارڈر پار تمہارے بھائی ھیں جو تمہارے پاس آنے تمہارے لئیے کٹنے مرنے کو بے تاب ھیں (شائد یہی آس ان کی نا ختم ھونے والی جدوجہد کی وجوھات میں سے ایک وجہ بھی ھے)۔۔۔!!!

دوسری جانب ھم آزاد کشمیری و پاکستانی، کرفیو کے بعد ھم سے مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں نے اپنے اپنے انداز میں کشمیر سے یکجہتی کا اظہار کیا، میں نے ھر ایک کے دل میں اپنے ان مظلوم کشمیری مسلمانوں کے لئیے درد دیکھا۔ ایک طرف کشمیری حکمرانوں نے کشمیر سے غیر انسانی کرفیو اور پابندیوں کے خاتمے پر لب کشائی کی، تو دوسری طرف پاکستانی حکمرانوں نے بھی مسئلہ کشمیر کو عالمی برادری کے سامنے اپنے انداز میں بلکہ ماضی سے بہتر طور پر پیش کیا۔ جہاں کشمیری عوام اپنے مظلوم بھائی، بہنوں، ماؤں، بیٹیوں کا درد لے کر لائن آف کنٹرول تک پنہچے وھیں پاکستانی عوام بھی ھر گھر ھر شہر سے کشمیری مظلوموں کا درد لے کر نکلے۔

مگر پھر یوں ھوا کہ سب کچھ جیسے تھم سا گیا، اس جذبہ ایثار نے داخلی انتشار اور کدورتوں کی صورت اختیار کر لی۔ کشمیری و پاکستانی کے نام پر، بلوچی و پٹھان کے نام پر، خود مختاری و الحاق کے نام پر زبان درازیاں، فتوے بازیاں، زھر میں بجھے نفرتوں کے تیر، اور کافر کافر، غدار غدار کے طعنے ھر فورم ھر گلی ھر پلیٹ فارم سے سنائی دینے لگے، اور اب تو یہ نفرت ایک مستقل دشمنی کا روپ اختیار کر چکی ھے، جس نے مجھے پہلی بار قلم اٹھانے پر مجبور کر دیا۔

میں پچلھے کئی دنوں سے زبانی تکرار کو فحش اور لغو گفتگو، نازیبا اور اخلاق سے گری ھوئی بہن اور ماں کی گالیوں میں بدلتا دیکھ رھا، جس نے جاھل اور پڑھے لکھے، خود مختاری والے اور الحاقی نطریے والے ھر ایک فرد کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔۔۔!ایک طرف ھمارے حکمران بھی کشمیریوں پر ٹوٹنے والی قیامت کو معمول کی چیز سمجھ کر عادی سے ھو گئے اور دوسری طرف ھماری عوام بھی جیسے اسکی عادی ھو گئی۔

محترم قاری، خدارا آج یہ پڑھتے ھوئے وقفہ کیجئیے اور اپنے دل میں جھانک کر دیکھئیے، کیا آپ بھی عادی سے نہیں ھو گئے اس قیامت کو لے کر ؟ کیا آپ نے بھی اسے کشمیریوں کی تقدیر نہیں سمجھ لیا ؟ کیا آپ کو بھی کشمیری معصوموں کی عزتوں اور انکی جانوں سے زیادہ اپنی کسی پارٹی یا شخصیت کا نکتہ نظر زیادہ عزیز نہیں ھے۔ہر ایک فرد دوسرے فرد کو، ھر ایک جماعت دوسری جماعت کو، ھر ایک مکتبہ فکر دوسرے مکتبہ فکر کو نیچا دکھانے اور غدار ثابت کرنے میں سر دھڑ کی بازی لگائےہوئے ہے۔ بخدا، سب کو ایسے وقت دل و دماغ سے یہ خیال یکسر محو ھو جاتا ھے کہ کشمیر بھی کوئی چیز ھے، کرفیو میں بلکتے بھوکے بچے، اہنی عصمتوں کے لٹ جانے کا ڈر لئیے ھوئے پاکیزہ پردہ دار بچیاں، ناتواں ماں باپ جن کے بیٹے کرفیو کے دوران لا پتہ کر دئیے گئے۔

بخدا ھم لوگوں کو یہ سب بھول چکا ھے۔ بخدا ھم لوگ شخصیت پرستی میں ھر آخری حد کو بھی عبور کر چکے ھیں، ھماری غیرتیں، ھمارے جذبے، ھمارے احساس، ھماری جدوجہد، ھمارے جلسے جلوس، ھمارے نعرے، سب کے سب کنٹرولڈ ھو چکے ھیں، ھم روبوٹ بن چکے ھیں، جذبات سے عاری جسم، ایک خالی ڈبہ، جسکو جب ریموٹ سے جہاں چاھے کوئی استعمال کرے اور ھم نے استعمال ھونا ھے۔۔!!!

میں اس تحریر میں نہ تو کسی کی حمایت کرونگا نہ کسی کے مخالفت، میرے الفاظ ھر ایک کے لئیے سوال ھیں، ھر پڑھنے والا بس اپنے دل کے کسی کونے تک جھانکے اور اپنے آپ سے ھی انکشاف کر دے کہ کیا واقعی ایسا نہیں ھے؟؟؟ میرے بھائیو، وہ تاریخی اور ظالمانہ قید آج بھی برقرار ھے اس لہو سے بھری جنت میں، اور تم لوگ یہاں، خود مختاری و الحاق کو لے کر لڑ لڑ کر تقسیم در تقسیم ھوتے جا رھے، کیوں؟

کل حشر میں رب کی عدالت میں کیا جواب دو گے رب کو اور ان جنت کے شہسواروں کو جو دنیا میں آج جہنم کا درد سہہ رھے ھیں، کیا ھمارے جذبے اور کوششیں ویسی ھیں کہ کل ھم انکی آنکھ سے آنکھ ملا پائیں؟ اگر آپکا جواب “ھاں” ھے تو مبارک ھو آپکو، اور اگر “نہیں” ھے تو اللہ نے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ھر ذی روح کو دی ھے، لا علمی یا کم علمی کا رونا کل کوئی نہیں رو سکتا کہ اے اللہ مجھے تو پتہ نہیں تھا، میں تو فلاں بن فلاں کا پیروکار تھا، اسی کے پیچھے چلتے ھوئے اپنی زندگی گزار دی۔۔۔!

خدارا، اپنے جذبات اور اپنے غصے کو صحیح سمت دیجئیے، اپنے اپنے گروہ اور اپنی اپنی سوچ ہی کو دوسروں سے بالاتر کرنے کے بجائے ایک جسم ایک جان بن کر سوچیں، اور کشمیر کو لے کر یہاں بیٹھ کر ان کے فیصلے کرنا چھوڑ دیں، انکی آزادی کا سوچیں۔ 73 سال سے ظلم سہنے والے اپنی تقدیر کا فیصلہ بھی کر ہی لیں گے کہ انہوں نے کیا کرنا ہے۔ یہاں آزاد فضاؤں میں بیٹھ کر آپ لوگ انکے فیصلے نہ کریں، بلکہ انکے لئیے عملی جدوجہد کریں، جس پر آپکا ضمیر کل کو آپکو ملامت نہ کر سکے، ورنہ ایک صدی تو ہورہی ہے ان کو مستقل عذاب دنیا سہتے ایک اور صدی گزر جائیگی مگر میں یا آپ نہیں ہونگے انجام دیکھنے کے لیے اور نہ ہی بروز محشر انکے سامنے کھڑے ہونے کی جرات ہی کر پائیں گے۔۔۔!!!

اللہ پاک ہمیں علاقائی، نسلی و لسانی تعصب سے پاک کر کے وحدت امت کے لیے جدوجہد کرنے والا اور اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے جان لٹانے والا مجاہد بنائے۔۔۔!!!

جواب چھوڑ دیں