بیویوں کے ساتھ حسن سلوک

دنیا بھر کی جاہلیت عورت کے ساتھ رویے میں نہایت سفاک ثابت ہوئے ہیں، انہوں نے عورت کے ساتھ عادلانہ برتاؤ اختیار نہیں کیا، بلکہ بسا اوقات اسے انسان ہونے کا فطری حق بھی نہیں دیا۔ عمومی طور پر اسے مرد نے اپنی ملکیت سمجھا، اور اس سے سکون پانے کے لئے حیوانیت کا رویہ اختیار کیا ، اور کبھی اس کے لئے فتنوں کے دروازے کھول دیے ، اور وہ خود بھی ایک فتنہ ہی بن گئی، عقل پر چھا جانے والی اور ایمان کو خطرے میں مبتلا کرنے والی! جہاں اس کا وجود معاشرے میں عریانیت اور شہوانیت کے فروغ کا ذریعہ بن گیا۔ پھر اللہ کی رحمت کا بادل برسا، اور دین ِ اسلام نے اس عورت کے غم کا بھی مداوا کیا، اور اس کی شان بلند کی، اسے پستیوں سے اٹھا کر تکریم کی جگہ بٹھایا، اور اسے اس کے فطری مقام،’’ گھر‘‘ کی پر سکون چاردیواری میں پہنچا دیا۔

دین نے عورت کے انسانی مقام کو بلند کیا تو اسکی ازواجی حیثیت کو بھی رفعت عطا کی، اور اسے احترام، مودت ، الفت اور زینت کا پیرہن اوڑھایا، اس کے رشتے کی ڈور کو مضبوط کیا، اور ایسی رہنمائی کی جس سے ازدواجی تعلق کی جڑیں بہت گہری ہو گئیں۔ مرد و زن کے تعلق کو نہ کاروبار بننے دیا ،نہ اسے جانوروں کی سی زندگی پر اکتفا کرنے کے لئے چھوڑ دیا،بلکہ میاں بیوی کے عہد سے وجود پانے والی اکائی کو گھر، خاندان اور قبیلے کے خوبصورت روابط اور رشتے سے ہمکنار کیا۔

عورت کو وراثت میں جاگیر اور اشیاء کی مانند وارثوں میں تقسیم ہونے سے بچایا، اور اسے اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا اختیار دیا۔طلاق کی صورت میں اسے اس سب پر ملکیت عطا کی جو شوہر اسے دے چکا ہو، خواہ وہ ڈھیروں ہی کیوں نہ ہو۔ شوہر کی موت کی صورت میں اولاد پر اس کے حق کو فائق کیا اگرچہ اس سے پہلے ددھیال والے اس کے بچے چھین لیا کرتے تھے۔

بھلی معاشرت

حسنِ معاشرت اسلام کی روح ہے، اللہ تعالی نے خاندان کی ڈور اور اصلاح کی کنجی مردوں کو عطا کی، اور انہیں بلیغ حکمت سے حکم دیا: ’’وعاشروھنّ بالمعروف‘‘۔ (النساء، ۱۹)

(ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو)۔

اجمالی طور پر اس سے مراد گفتگو، رہن سہن اور وقت گزاری اور نان نفقہ ہے۔ (تفسیر البغوی)

اس سے مراد قولی اور فعلی معاشرت ہے، شوہر کو چاہئیے کہ بیوی کے ساتھ بھلے طریقے سے رہے، اس کے ساتھ اچھا وقت گزارے، اسے اذیت دینے سے باز رہے، اوراس سے احسان کا رویہ رکھے، اور اچھا معاملہ کرے، اور اس کا اظہار کھانے اور لباس سے بھی ہوتا ہے، مرد کو اپنے علاقے اور زمانے کے مطابق ان چیزوں کا خیال رکھنا چاہئے، ہر شخص اپنی حیثیت کے مطابق بقدرِ استطاعت ان امور کا خیال رکھے۔ (تفسیر السعدی)

یہ رہنمائی ہر اس شخص کے لئے ہے جو کسی خاندان میں رہتا ہے، خواہ وہ شوہر کی حیثیت سے ذمہ دار ہو یا ولی؛ والدیا بھائی چچا یا دادا کی حیثیت سے اگرچہ غالب رائے میں اس سے مراد شوہر ہی ہے ۔ اور اللہ تعالی شوہروں کو حکم دے رہے ہیں کہ جب تم عقدِ نکاح باندھو تو ازواج کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی گزارو۔یعنی مہر اور نفقہ خوشی سے ادا کرو، اور بغیر کسی قصور کے ان سے درشت روی سے پیش نہ آؤ، ان کے لئے منہ سے جھاگ نہ نکالو، نہ خوامخواہ سختی کرو۔

حسنِ معاشرت کا ادنی سا تقاضا یہ ہے مرد کو بھی عورت کے لئے اچھے حلیے میں رہنا چاہئیے، جیسے بیوی اس کے لئے سجتی سنورتی ہے، اور گھر میں گھل مل کر رہنا اور اہلیہ سے مزاح کرنا، گھر کی فضا کو خوشگوار بنا دیتا ہے۔حضرت ابن عباسؓ  کہتے ہیں ’’میں اپنی بیوی کے لئے زینت اختیار کرنا پسند کرتا ہوں ، جیسے مجھے اس کا اپنے لئے بننا سنورنا پسند ہے‘‘۔ عورت بھی مرد سے وہی چاہتی ہے جو وہ اس سے چاہتا ہے۔(یعنی وہ اچھے حلئے میں رہے۔) (تفسیر القرطبی)

اللہ تعالی نے حقوق و فرائض کی پابندی کے لئے دونوں کو ہی متوجہ کیا، ارشاد ہے

’’عورتوں کے لئے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں، جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں۔ البتہ مردوں کو ان پر ایک درجہ حاصل ہے‘‘۔ (البقرۃ، ۲۲۸)

حقوق و فرائض کی کھینچا تانی کے بجائے قرآن انہیں تقوی اور احسان کی بنیادوں پر استوار کرنے کا حکم دیتا ہے، فرمایا:

’’اگر کسی عورت کو لگے کہ اس کا شوہر اس سے منھ موڑ رہا ہے، یا ازدواجی زندگی کو خطرے میں ڈال رہا ہے، تو بہت اچھا ہو گا کہ دونوں صلح کا راستہ اختیار کریں۔ صلح سراپا خیر ہے۔نفس تنگ دلی کی جانب جلد مائل ہو جاتے ہیں، لیکن اگر تم احسان اور تقوی کی روش اختیار کرو گے، تو یہ بہت بہتر ہو گا۔ تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔‘‘ (النساء، ۱۲۸)

یعنی طلاق و جدائی سے بہتر ہے کہ باہم مصالحت کر کے عورت اسی شوہر کے ساتھ رہے جس کے ساتھ وہ عمر کا ایک حصّہ گزار چکی ہے۔اللہ تعالی نے دونوں کو جذبہء فیاضی کی ترغیب دی ہے، اور احسان اور تقوی کی روش اختیار کرنے کی ترغیب دی ہے جو معاملات کے سلجھاؤ کے لئے مضبوط بنیادہے۔

تقوی اور احسان اگر شوہر اور بیوی دونوں میں جمع ہو جائیںتو اللہ کی رحمت دونوں پر سایہ فگن ہو جاتی ہے، شوہر اور بیوی ایک دوسرے کی آنکھوں کی ٹھنڈک بن جاتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے پر سب کچھ لٹانے ، ایک دوسرے کے لئے ہر تکلیف اور مشقت برداشت کر لینے اور دوسرے کے لطف کے لئے تکلیف برداشت کرلینے کا شیوہ اپناتے ہیں۔

اللہ تعالی نے نکاح سے وجود میں آنے والے رشتے کو بہترین انداز میں نبھانے کا حکم دیا ہے۔اسلام گھر کو سکون، اطمینان اور سلامتی کے اوصاف سے متصف قرار دیتا ہے، وہ زوجین کے باہمی تعلق کو مودت، رحمت اور انس کی نگاہ سے دیکھتا ہے، اور اس قانونی تعلق میں ایک جانب اختیار ِ مطلق عطا کرتا ہے،اور انہیں باہمی الفت اور محبت قائم رکھنے کی ذمہ داری سونپتا ہے، زوجین کو وسعت ِ قلب پر آمادہ کرتا ہے، اور خاص تاکید کرتا ہے:

’’اگر وہ تمہیں ناپسند ہو ں تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو‘‘۔ (النساء، ۱۹)

عمر بن خطابؓ نے اس شخص سے کیا عظیم بات کہی، جو اپنی بیوی کو اس لئے طلاق دینا چاہتا تھا کہ وہ اس سے محبت نہیں کرتا، انہوں نے فرمایا ’’تیرا برا ہو، کیا گھر صرف محبت کی بنیاد پر بنتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو ایک دوسرے کی رعایت اور روک لینا کیا ہے؟‘‘۔

اور کتنے ہی ایسے نفوس ہیں جو حیوانی جذبات کومحبت کا نام دیتے ہیں، اور زوج کی زوج سے خیانت تک کروا دیتے ہیں، وہ انتہائی گراوٹ اور جہالت کا شکار ہوتے ہیں ، اور نفس کی ایسی کیفیت میں انسان اللہ تعالی کے اس پیغام کو کیسے سمجھ سکتا ہے ، ’’اگر وہ تمہیں نا پسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ تمہیں ایک چیز نا پسند ہو ، مگر اللہ نے اسی میں تمہارے لئے بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو‘‘۔ (النساء، ۱۹)۔ (دیکھئے: فی ظلال القرآن، ص۶۰۶)

ابن العربی نے ابوبکر بن عبد الرحمن ؒ کی روایت بیان کی ہے کہ: شیخ ابو محمد بن ابی زیدؒعلم اور دین میں بڑی منزلت اور معرفت رکھتے تھے، ان کی ایک بیوی برے انداز و اطوار والی تھی، وہ ان کے حقوق میں تقصیر کرتی اور انہیں زبان سے بھی اذیت پہنچاتی، ان کو اس کے بارے میں کہا جاتا کہ صبر چھوڑ دیں، تو وہ جواب دیتے، اللہ تعالی نے مجھے جسمانی صحت، دین، علم اور ملک مین جیسی کمال نعمتیں عطا کی ہیں، اور شاید اس بیوی کو میرے گناہوں کی سزا کے طور پر دیا ہے، ڈرتا ہوں، اسے چھوڑ دیا تو کہیں اس سے زیادہ بری عورت مجھ پر نہ مسلط کر دی جائے۔ (تفسیر قرطبی)

عورتوں سے بھلے طریقے سے رہنے میں علماء نے مرد پر گھر کا نظام قائم رکھنے کے لئے مدد اور تعاون کے جذبے کو فروغ دیا ہے، اگر شوہر متمول ہے تو وہ گھر کے کام کاج میں مدد کے لئے خادم (غلام یا کنیز، یا مددگار) فراہم کرے، ان کی تعداد کا تعلق مرد کی معاش اور معاشرت سے ہے۔ امام ابو حنیفہؒ اور امام شافعیؒ ایک خادم کو ضروری قرار دیتے ہیں، جبکہ بعض علماء اس کو سماجی مرتبے اور حیثیت سے منسلک کرتے ہیں، کہ خلیفہ اور حکمران کے گھرانے میں ایک خاتون کو ایک سے زائد خادموں کی ضرورت ہو گی۔واللہ اعلم۔ (تفسیر قرطبی)

نوجوانوں کو نصیحت

حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نوجوانوں کو مخاطب کر کے فرمایا ’’اے گروہِ شباب، تم میں سے جو استطاعت رکھتا ہو، (مالی اور بدنی) وہ نکاح کر لے، کیونکہ یہ نگاہ کو پاک کرتا اور شرم گاہ کی حفاظت کرتا ہے، اور جو استطاعت نہ رکھتا ہو وہ خواہشِ نفس پر قابو پانے کے لئے روزے رکھے‘‘۔ (رواہ البخاری ، ۵۰۶۶؛ ومسلم، ۱۴۰۰)

حسنِ معاشرت کی بنیادیں

تمام بے زوج افراد ِ معاشرہ کو اسلام نکاح کی ترغیب دیتا ہے، تاکہ پاکیزہ معاشرت وجود پائے، جو نباہ کے وسائل پاتے ہوں وہ نکاح کر لیں، اور نکاح کے لئے فریقین کی رضا مندی کی شرط بھی حسنِ معاشرت قائم رکھنے میں مدد گار بنتی ہے۔

گھر بسانے کے حوالے سے مختلف افراد کی خواہشات ، امنگیں اور تمنائیں مختلف ہو سکتی ہیں، لیکن ہر فرد اپنی زندگی میں خوشی، سکون اور اطمینان چاہتا ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

’’اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو، اور تمہارے درمیان محبّت اور رحمت پیدا کر دی۔ ‘‘۔(الروم، ۲۱)

یہ اللہ سمیع و علیم ہستی کا انتظام ہے کہ مرد اپنی فطرت کے تقاضے عورت کے پاس اور عورت اپنی فطرت کی مانگ مرد کی پاس پائے، اور دونوں ایک دوسرے سے وابستہ ہو کر ہی سکون و اطمینان حاصل کریں، یہی وہ حکیمانہ تدبیر ہے جسے خالق نے ایک طرف انسانی نسل کے برقرار رہنے کا اور دوسری جانب انسانی تہذیب و تمدن وجود میں لانے کا ذریعہ بنایا ہے۔ان کے درمیان محبت (جنسی تعلق) اور رحمت (روحانی تعلق) قائم کیا، جو ازدواجی زندگی میں بتدریج ابھرتا ہے، جس کی بدولت وہ ایک دوسرے کے خیرخواہ، ہمدرد و غم خوار اور شریکِ رنج و راحت بن جاتے ہیں، یہاں تک کہ ایسا وقت بھی آتا ہے جب جنسی محبّت پیچھے جا پڑتی ہے اور بڑھاپے میںیہ جیون ساتھی کچھ جوانی سے بھی بڑھ کر ایک دوسرے کے حق میں رحیم و شفیق ثابت ہوتے ہیں۔ (دیکھئے، تفہیم القرآن، ج۳، ص۷۴۴۔۷۴۵)

’’وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے‘‘۔ (الاعراف، ۱۸۹)

ایک اور مقام پر فرمایا:

’’وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لئے۔‘‘ (البقرۃ، ۱۸۷)

یعنی وہ ایک دوسرے کے پردہ پوش بھی ہیں اور خارجی مضر اثرات سے بچانے والے بھی۔لباس کا استعارہ مناکحت کی معنوی حیثیت کو واضح کرتا ہے۔

اسلام اچھی معاشرت کی اس قدر تاکید کرتا ہے کہ اگر میاں اور بیوی کے درمیان خوش گوار زندگی قائم رکھنا ناممکن ہو جائے تو وہ نکاح کی گرہ کو اچھے طریقے سے کھول دینے کی اجازت دیتا ہے، ارشاد ہے:

’’یا تو بھلے طریقے سے ان کو ساتھ رکھو یا بھلے طریقے سے ان سے جدا ہو جاؤ‘‘۔ (البقرۃ، ۲۲۹)

قرآن مجید کی یہ آیت ایک جانب بری معاشرت اور ظلم کا دروازہ بند کرتی ہے، تو دوسری جانب جدائی میں بھی کشادہ روی اور فیاضی کی تلقین ہے:

’’آپس کے معاملات میں فیاضی کو نہ بھولو‘‘۔ (البقرۃ، ۲۳۷)

رسول اللہ ا حسنِ سلوک

رسول اللہ کی حیات ایک مصروف اور بھر پور زندگی تھی، آپؐ پر نبوت کی بھاری ذمہ داری تھی، آپؐ اسلامی مملکت کے حاکم بھی تھے اور اس کی سرحدوں کی حفاطت کرنے والے سالار بھی، اسلامی مملکت کے منصف بھی، اور دین کی کی تعلیمات سکھانے والے معلم بھی، اور گھر کی ریاست کے قوّام بھی! اتنی مصروفیات کے باوجود آپؐ کی عائلی زندگی کے ہر گوشے سے نور کی کرنیں پھوٹتی ہیں، اور آپؐ انسانی تاریخ کے سب سے عظیم شوہر ہیں، جن کی روز مرہ کی مشغولیات ازواج کے حقوق کی ادائیگی میں حائل نہیں ہیں، گھر کی سلطنت میں آپؐ کشادہ چہرے سے داخل ہوتے ہیں، مسکراہٹ چہرے پر عیاںہے، اپنے گھر والوں کے معاملات سے آگاہ ہیں، انکی تکلیف اور بیماری میں توجہ پہلے سے بھی بڑھ جاتی ہے، ازواج گھر میں آنے والیوں کا تذکرہ بھی آپؐ سے کرتی ہیں، آپؐ گھر میں آنے والوں کے بارے میں اہلِ خانہ کو آگاہ رکھتے ہیں، گھر میں تناؤ کی کیفیت نہیں بلکہ نرمی کا رویہ ہے، حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: ’’رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے کسی عورت اور خادم کو نہیں پیٹا‘‘۔ (رواہ مسلم) رسول اللہ  کے حرم میں ایک ساتھ نو بیویاں تھیں، اور آپؐ سب کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آتے، آپؐ نے کسی زوجہ کو بھی اس کے حقوق سے محروم نہیں کیا۔آپؐ سب ازواج کے گھر جاتے اور باری باری سب کے ہاں رات گذارتے ، الا یہ کہ کسی بیوی نے دوسری کو اپنا حصّہ دے دیا ہو، جیسے ایک رات حضرت زینب ؓ نے اپنی باری حضرت عائشہؓ کو دی، اور حضرت سودہؓ نے کچھ عرصہ اپنی باری حضرت عائشہؓ کو دے دی۔

آپؐ کے گھر کی فرد، آپ کی زوجہ نے آپؐ کے اخلاق کی گواہی یوں دی:

’’کان خلقہ القرآن‘‘۔ (آپ کا اخلاق قرآن تھا۔) (رواہ مسلم، ۱۸۴۷)

رسول اللہ نے اپنے اصحاب کو بھی عورتوں سے حسنِ معاشرت کی تلقین ہی کی، اور فرمایا: (تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہے اور میں اپنے گھر والوں سے سب سے اچھا ہوں)۔(ابن ماجہ، ۱۹۷۷،عند الالبانی، صحیح)۔

بیت النبی  کی چند جھلکیاں

رسول اللہ  کے گھر میں عورتوں سے حسنِ سلوک کی عمدہ مثالیں نظر آتی ہیں؛ آپؐ ان کی دلداری کرتے، غم اور رنج میں ان کے آنسو پونچھتے، ان کی شکایت سنتے اور ان کی پریشانی کا تدارک کرتے۔اتنی صدیاں گزر جانے کے بعد آج بھی آپؐ مسلم معاشرے کے ہر گھر کے لئے ایک عمدہ مثال ہیں؛ حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ حضرت صفیہؓ کی یہ بات رسول اللہ ﷺتک پہنچی کہ حضرت حفصہؓ نے انہیں ’’بنت یہودی کہا ہے، تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: ’’تو ایک نبی کی بیٹی ہے، اور ایک ایک نبیؐ کی بھتیجی ہے، اور ایک نبیؐ کے نیچے ہے، (یعنی نکاح میں) تو وہ تجھ پر کس معاملے میں فخر کرے گی؟ پھر حضرت حفصہ سے فرمایا: ‘‘۔’’اے حفصہ، اللہ سے ڈرو‘‘۔ (رواہ الترمذی، ۳۸۹۴)

حضرت عائشہؓ نے رسول کریمؐ کا گھر کے اندر حال بیان کرتے ہوئے کہا: ’’وہ اپنا جوتا خود گانٹھ لیتے، اپنے پھٹے ہوئے کپڑے رفو کر لیتے‘‘۔(احمد، ۲۴۷۹۳) آپؐ کا اپنی ازواج کے ساتھ محبت اور رحمت کا معاملہ تھا۔آپؐ اپنی زوجات کی مدد کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ آپؐ کی ان سے محبت کا یہ عالم تھا کہ آپؐ ایک برتن میں ان کے ساتھ کھانا کھاتے، حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ’’میں پانی پیتی اور آپؐ مجھ سے برتن لیتے اور اسی جگہ منہ لگا کر پیتے جہاں سے میں نے پیا ہوتا‘‘۔ (مسلم، ۳۰۰)

رسول ِکریم  اپنی بیویوں کی مدح بھی کرتے، آپﷺ نے حضرت عائشہؓ کے بارے میں فرمایا: ’’عائشہؓ کو تمام عورتوں پر اسی طرح فضیلت حاصل ہے جس طرح ثرید کو تمام کھانوں پر ہے‘‘۔ (رواہ البخاری، ۴۹۱۳)

آپؐ اپنی ازواج کے ساتھ بہت مہربانی سے پیش آتے، حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ’’ آپؐ نے کبھی عورت پر ہاتھ نہیں اٹھایا‘‘ ۔ (رواہ مسلم، ۲۳۲۸) بلکہ آپؐ تو انکی پریشانی میں ان کی مدد فرماتے، کہتے ہیں کہ ایک سفر میں حضرت صفیہؓ آپؐ کے ہمراہ تھیں، ان کی سواری بہت سست تھی، رسول اللہ نے انہیں دیکھا تو وہ رو رہی تھیں، وہ کہنے لگیں: ’’آپؐ نے مجھے سست اونٹ پر سوار کروا دیا ہے‘‘، رسول اللہ  نے انکی آنکھیں پونچھی اور انہیں چپ کروایا۔ ( احمد، ۲۶۹۰۸)

حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’خیبر سے واپسی پر حضرت صفیہؓ آپؐ کے ساتھ تھیں، جب ہم مدینہ کی جانب جانے لگے تو رسول اللہ انہیں لائے، وہ ان کے پیچھے ایک عبا میں تھیں، آپؐ اپنے اونٹ کے پاس بیٹھ گئے، اور اپنا گھٹنا انکے سامنے رکھا، اور صفیہؓ آپؐ کے گھٹنے پر پاؤں رکھ کر سوار ہوئیں‘‘۔ (رواہ البخاری، ۴۲۱۱)

رسول اللہﷺ اہم معاملات میں ازواج کو شامل کر لیتے اور ان کے مشورے کو تسلیم بھی کرتے، جیسے صلح حدیبیہ کے موقع پر جب کفار سے معاہدہ ہو گیا کہ اس سال مسلمان عمرہ کے بغیر واپس چلے جائیں گے تو نبی کریم ﷺ نے صحابہ کو حکم دیا کہ جانور ذبح کر دیں اور سر منڈوا لیں، تین مرتبہ اس حکم کو دہرایا لیکن کسی نے عمل نہ کیا، رسول اللہ  حضرت ام سلمہ کے پاس گئے اور ان سے ذکر کیا تو انہوں نے مشورہ دیا کہ آپؐ باہر جائیں اور کسی سے کچھ کہے بغیر اپنا جانور ذبح کریں اور حلاق کو بلا کرسر مونڈ والیں، آپؐ نے ایسا ہی کیا، اور اس اہم موقع پر ان کی رائے کی قدر افزائی کی۔(دیکھئے، بخاری، ۲۵۸۱)

معاشرے کی اصلاح کی کنجی گھر کی اصلاح میں ہے، یہ ممکن نہیں کہ معاشرہ خیر و فلاح کا حامل ہو، اور اس کے گھر بے چین اور فساد زدہ ہوں، حالانکہ گھر اللہ تعالی کی جانب سے ایک تحفہ ہے، جس کا سکون، اطمینان اور ربط کامیاب معاشرے کی ایک جھلک ہے۔ میاں بیوی، اولاد اور والدین، ہی معاشرتی طور پر امت کا حاضر بھی ہیں اور مستقبل بھی! ابلیس لعین جب اس ڈور میں الجھن پیدا کرتا ہے، اور ان روابط کو منھدم کرتا ہے تو ایک گھر ہی نہیں ٹوٹتا بلکہ معاشرے پر اس کے دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں، پس خوش نصیب ہیں وہ مرد جو اعلی اخلاق کے حامل ہیں، جن کے بستر خوشگوار یادوں سے مہکتے ہیں، جو نرم دل ساتھی اور مہربان اور شفیق رفیق ِ حیات ہیں، باہمی معاملات میں خیر پر معاملات کی بنیاد رکھتے ہیں، اور پختہ عزم سے اس کی تعمیل کرواتے ہیں، نہ ظلم کرتے ہیں نہ تنگی میں مبتلا کرتے ہیں، اور نہ ہی اپنی ذمہ دار حیثیت پر سمجھوتہ کرتے ہیں۔

اور اللہ تعالی رحم فرمائے اس خاتون پر جو اپنے حق سے بڑھ کر مطالبہ نہیں کرتی، نہ خواہ مخواہ شور مچاتی ہے، جو نیک اور فرمانبردار ہے، اپنے شوہر کی غیر موجودگی میں اس کی امانتوں (مال اور اپنے نفس اور اولاد) کی حفاظت کرتی ہے۔

اے امت ِ مسلمہ کے مردو، عورتوں کے معاملے میں رسول اللہ ﷺ کی وصیت کو قبول کرو، جو خود کھاؤ وہی انہیں کھلاؤ، جیسا خود پہنو ویسا ہی انہیں پہناؤ، نہ انہیں مارو، نہ انہیں اذیت دو، یہ نازک آبگینے ہیں، انہیں ٹھیس نہ پہنچاؤ، ان کی ٹیڑھ کے باوجود ان کے خیر کو حاصل کرو۔ان سے بھلے طریقے سے رہو گے تو تمہارے گھر سے جنت کی مہک آئے گی۔

اور اے امتِ مسلمہ کی عورتو، اپنے حق میں مردوں کے خیر کو قبول کرو، ان کی معاشی حیثیت سے بڑھ کر فرمائشیں نہ کرو، نہ ان کی ناشکر گزاری کرو، شوہرو ںکی فرمانبرداری کرو، ان کی امانتوں کی حفاظت کرو، تم نسلوں کی امین ہو، اس دنیا کو بہترین افراد کا مستقبل دینے کی بھرپور کوشش کرو، اور شیطان کی چالوں کو حسنِ معاملہ سے ناکام کر دو۔

حصہ
mm
ڈاکٹر میمونہ حمزہ نے آزاد کشمیر یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات امتیازی پوزیشن میں مکمل کرنے کے بعد انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں بی ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ زمانہء طالب علمی سے ہی آپ کی ہلکی پھلکی تحریریں اور مضامین شائع ہونے لگیں۔ آپ نے گورنمنٹ ڈگری کالج مظفر آباد میں کچھ عرصہ تدریسی خدمات انجام دیں، کچھ عرصہ اسلامی یونیورسٹی میں اعزازی معلمہ کی حیثیت سے بھی کام کیا، علاوہ ازیں آپ طالب علمی دور ہی سے دعوت وتبلیغ اور تربیت کے نظام میں فعال رکن کی حیثیت سے کردار ادا کر رہی ہیں۔ آپ نے اپنے ادبی سفر کا باقاعدہ آغاز ۲۰۰۵ء سے کیا، ابتدا میں عرب دنیا کے بہترین شہ پاروں کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا، ان میں افسانوں کا مجموعہ ’’سونے کا آدمی‘‘، عصرِ نبوی کے تاریخی ناول ’’نور اللہ‘‘ ، اخوان المسلمون پر مظالم کی ہولناک داستان ’’راہِ وفا کے مسافر‘‘ ، شامی جیلوں سے طالبہ ہبہ الدباغ کی نو سالہ قید کی خودنوشت ’’صرف پانچ منٹ‘‘ اورمصری اسلامی ادیب ڈاکٹر نجیب الکیلانی کی خود نوشت ’’لمحات من حیاتی‘‘ اور اسلامی موضوعات پر متعدد مقالہ جات شامل ہیں۔ ترجمہ نگاری کے علاوہ آپ نے اردو ادب میں اپنی فنی اور تخلیقی صلاحیتوں کا بھی مظاہرہ کیا،آپ کے افسانے، انشائیے، سفرنامے اورمقالہ جات خواتین میگزین، جہادِ کشمیر اور بتول میں شائع ہوئے، آپ کے سفر ناموں کا مجموعہ زیرِ طبع ہے جو قازقستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں آپ کے سفری مشاہدات پر مبنی ہے۔جسارت بلاگ کی مستقل لکھاری ہیں اور بچوں کے مجلہ ’’ساتھی ‘‘ میں عربی کہانیوں کے تراجم بھی لکھ رہی ہیں۔

6 تبصرے

جواب چھوڑ دیں