کتابیں انسان کی اچھی دوست

سرور علم ہے کیف شراب سے بہتر

کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر 

کتاب ایسی شمع ہے جو ہر آن فروزاں رہتی ہے، کتاب میں ترقی کے راز پنہاں ہیں،کتاب ہمیشہ نئے خیالات سے روشناس کرواتی ہے،انسان کو لاشعور سے شعور کی طرف لاتی ہے۔ کتابوں سے ہی عالمگیر انسانیت، اخوت، بھائی چارہ اور فلاح و بہبود کا احساس پیدا ہوتا ہے، اچھی کتابیں ہی انسان کا اچھا دوست اور خاموش رہنما ہوتی ہیں، اپنا پیغام، اپنا نظریہ، اپنی سوچ آنے والی نسلوں میں منتقل کرنے کا بہترین طریقہ کتابیں لکھنا ہے۔

کتاب ہی ایسا ذریعہ ہے جو انسان کو مرنے کے بعد بھی زندہ رکھتا ہے، کتاب آپ کو ملکوں کی سیر کرواتی ہے، تاریخ کے بڑے بڑے اہل علم وفن سے ملواتی ہے، ان کی زندگی کے تلخ وشیریں حالات سے متعارف کرواتی ہے۔لیکن اب کتاب دوستی کو الیکٹرانک میڈیاکا ناسور نگل رہا ہے، کتاب سے دوبارہ دوستی کرنے کے لیے ہمیں سخت محنت کی ضرورت ہے ،ہمیں اپنی نوجوان نسل کو کتابوں کے ساتھ جوڑنا ہے، ان کو اپنے اجداد سے ملوانے اور ان میں ان کو زندہ رکھنے کا واحد ذریعہ کتابیں ہی ہیں۔

آج ہم نے بڑی بڑی لائبریریاں تو بنا لی ہیں، لیکن کتابوں سے استفادہ کرنا چھوڑ دیا ہے اور کتابیں جیسے ہم سے روٹھ گئی ہوں، ہم نے کتابوں کی جگہ موبائل فون ، ٹیب، کمپیوٹرز کو زیادہ اہمیت دی ہوئی ہے جو ہمہ وقت ہمیں مصروف رکھتے ہیں، ہم صبح اٹھتے ہیں اٹھنے کی دعا بھی بعد میں پڑھتے ہیں پہلے موبائل کو دیکھتے ہیں۔ ہماری نوجوان نسل الیکٹرانک گیمز کی طرف لگی ہوئی ہے ، انہیں پتہ نہیں چلتا کہ ہم کتنے کتنے گھنٹے ضائع کر دیتے ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اس فعل پر شرمندگی بھی نہیں ہوتی۔ ہم موبائل فون میں اتنے مگن ہوتے ہیں کہ پاس بیٹھے اپنے عزیز رشتہ داروں کا پتہ نہیں ،ان سے باتیں کرنے کا وقت نہیں ، سلام دعا کے بعد موبائل کو اپنی مصروفیت کا سبب بنا لیتے ہیں، اس وجہ سے رشتے بھی کمزور ہوگئے ہیں۔

اگر خالص اردو کی چاشنی حاصل کرنے کو دل کرے تو کسی نوجوان سے سوال کریں کہ اردو کے قواعد و ضوابط کیا ہیں ؟فلاں شاعر کی شاعری سنا دو، اب تک تدریسی کتب کے علاوہ کتنی کتب پڑھی ہیں؟ مجال ہے کہ کوئی نوجوان آپ کو حوصلہ افزاء جواب دے ۔

اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے لاہور بک فیئر ایکسپو سینٹر میں معروف ادبی تنظیم پاسبان بزم قلم کے زیر اہتمام فروغ کتاب کے لیے ایک شام کتاب دوستی کے نام سے پروگرام کا انعقاد کیا گیا،اس پروگرام کے حوالے سے ایک عجیب سی کیفیت، ایک عجیب سی خوشی تھی کہ کب وہ لمحہ آئے اور ہم اپنا رختِ سفر باندھیں بالآخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور وہ لمحہ آن پہنچا ،جس کا بے چینی سے انتظار تھا، مورخہ9فروری بروز اتوار ایکسپو سینٹر لاہور راقم الحروف سمیت کہکشاں اسلم،کیپٹن ڈاکٹر عابدہ شیر، محمد نفیس دانش، حافظ عمیر حنفی، محمد عبداللہ، عتیق ادریس بٹگرامی، محمد سجاد، احمد ضیاء اور پاسبان بزم قلم کی مرکزی قیادت کے ساتھ ساتھ مختلف شہروں سے ممبران نے بھی بھرپور شرکت کرکے کتاب دوستی کا ثبوت دیا۔

آخر میںمیںِ پاسبان بزم قلم کی پوری ٹیم کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے واقعی ایک شام کتاب دوستی کے نام کی اورکتا ب دوستی کابہترین ثبوت دیا۔ مولائے کریم تمام ادبی و لکھاری دوستوں کی کوششوں کو قبول فرمائے۔آمین یارب العالمین۔

قلم کے پاسباں تم ہو جو لکھنا مُعتبر لکھنا 

اگر شَب ہو تو شَب لکھنا سحر ہو تو سحر لِکھنا 

جلایا تھا جو خون دل سے کل وقت سفر ہم نے 

فَروزاں آج بھی ہے وہ چراغِ رَہگزر لکھنا 

نوازا جائے گا تم کو بھی کل اعزاز و مَنصب سے 

بس اپنے عہد کی ظُلمت کو انوارِ سَحر لکھنا 

ابھی کیا ہے ابھی تو جانے کتنے موڑ آئیں گے

پہنچ جانا جو منزل پر تو رودادِ سفر لکھنا

جواب چھوڑ دیں