مکافات

بچپن میں اس لفظ سے بھی ناواقف تھے لیکن جیسے جیسے بڑے ہوتے گئے لوگوں کے تجربات ، ڈرامے ، سچے واقعات سن کر، دیکھ کر سمجھ آگیا کہ مکافات کیا ہے ؟۔ اللہ تعالیٰ کی پکڑ بڑی شدید ہے لہٰذا ہمیں ہر دم ہر پل یہی کوشش کرنی چاہیے کہ اپنے رب سے پناہ طلب کرتے رہیں اور اپنے دانستہ اور نادانستہ گناہوں سے معافی چاہتے رہیں ۔

ہزاروں ہی واقعات ایسے ہوتے ہیں جو صرف میں اور میرا رب جانتا ہے ، دوسرا کوئی نہیں کبھی نہیں لیکن قربان جا ئیے اس رب کے جو ہمیں اصلا ح کا موقع دیتا ہی رہتا ہے اور یوں توبہ کے دروازے مرتے دم تک کھلے رکھ کر ہمیں نہ صرف اپنے بلکہ دوسروں کے سدھار کے مواقع بھی فراہم کرتا ہے ۔ سبحان اللہ مجھے آج بھی وہ خوبصورت کبوتر یاد آتا ہے اور جو تکلیف اس کو میں نے دی تھی آج اس کا احساس ہو تا ہے تو میں لرز جاتی ہوں! اللہ سے معافی مانگتی ہوں ظاہر ہے وہ کبوتر اللہ کی کتنی خوبصورت چھوٹی معصوم مخلوق اور کہاں ہم شریر بچے !

غسل خانے کی بڑی سی چھت پر میرے بھائی نے کبوتر پالے ہوئے تھے چار علیحدہ علیحدہ پنجروں میں تا کہ وہ آپس میں لڑیں نہیں ۔ ہم ابو سے چھپ کر چھت پر جاتے اور مستیاں کرتے کبوتروں سے کھیلتے دانہ ڈالتے اور واپس آجاتے تھے ۔ بھائی کسی کو بھی اپنے کبوتروں کو ہا تھ لگا نے نہیں دیتے تھے۔ ایک دوپہر ان کی غیر موجودگی میں ، میں چھت پر گئی اور دانہ ڈالنے کے لیے پنجرے کا دروازہ کھولا ہی تھا کہ کبوتر نے میری شہادت کی انگلی بری طرح پکڑلی کیونکہ اس سے پہلے میں نے ایک لمبا سا تنکا جالی میں گھسا کر کبوتر کو تنگ کیا تھا ۔

بہر حال کبوتر میر ی انگلی سے لٹک گیا مجھے کافی تکلیف ہوئی میں نے دوسرے ہاتھ سے اسے کھینچ کر پنجرے میں بند کیا اور کافی دیر تک ہاتھ لے کر بیٹھی رہی غصہ چڑھتا گیا جب ذرا تکلیف کم ہو گئی ویسے خون بھی نہیں نکلا تھا بس گہرا نشان پڑ گیا تھا تو میں نے سوچا اتنی زور سے کاٹا میں بھی مزہ چکھاتی ہوں ۔ میں نے ہاتھ ڈال کر کبوتر کو اچھی طرح پکڑا اور اس کے منہ یعنی چونچ کو بار بار پنجرے پر مارتی رہی یعنی جیسے چونچ کو پانچ چھ مرتبہ پنجرے پر ہلکا ہلکا مار کر چوٹ لگائی اور دوبارہ پنجرے میں کبوتر کو ڈال دیا ۔

اب جو میں نے دیکھا کبوتر گول گول گلاٹیاں کھانے لگا کافی دیر تک پھدکتا رہا اور بے جان سا ہو کر گر گیا ۔ چند منٹ کی سر سرا ہٹ سے مجھے اندازہ ہوگیا کہ اس بے چارے کو بڑی تکلیف ہوئی ہے یہ تو اس کا چھوٹا سا نازک سا منہ تھا اس نے تو میری ایک انگلی کو دھیرے سے کاٹا تھا ۔ میں نے اسے اتنی بڑی سزا دی ۔ میں نے سارا باجرہ اس کے پنجرے میں ڈا ل دیا مگر اس نے کچھ نہ کھا یا بے سدھ پڑا رہا میں ڈر کے مارے نیچے اتر آئی دعا بھی کرتی رہی کہ کبوتر مرے نہیں ورنہ میرا بھائی اور امی مجھے ماریں گی ۔

دوسرے دن تک میرے حواس پر یہ کبوتر چھا یا ہوا تھا ۔ شام کو مجھے بخار ہو گیا اتنا تیز کہ آ نکھوں سے آنسو آرہے تھے ۔ امی مجھے دوا دارو دے رہی تھیں اور ہر کوئی ہمدردی کر رہا تھا مگر مجھے کبوتر کی دھن سوار تھی میں بار بار پوچھ رہی تھی کہ پہلے پنجرے والا کبوتر کیسا ہے ؟ بھائی نے کہا وہ ٹھیک ہے مگر کچھ کھا نہیں رہا میں اب بھی کچھ نہ بولی تین چار دن بے بس بستر پر پڑی رہی نہ کھانا کھایا جائے نہ پانی پیا جائے بخار بھی سہا نہ جا ئے تو میں نے امی کو یہ بات بتائی امی نے کہا تم نے بہت برا کیا ہے ، بے زبان کی بد دعا لی ، اس کو تکلیف دی ، اسی لیے تمہیں اللہ نے بے بس کر دیا ہے تاکہ تم اس کا احساس کرو اس کی تکلیف کا احساس کرو وہ بھوکا ہو گا تم نے نہ صرف اسے تنگ کیا بلکہ اس کے منہ پر چوٹیں لگا کر زخمی بھی کر دیا ۔

اللہ تمہیں معاف کرے تم توبہ کرو اور اپنے سے وعدہ کرو کہ کبھی کسی کو تنگ نہیں کروگی پھر مجھ سے باجرے پر ہاتھ لگوا کر کھلے برتن میں آنے والے تمام کبوتروں کے لئے رکھوائے ۔ میں نے رب سے خوب دعا کی کہ مجھے معاف کردے ۔ میں نے اس خوبصورت کبوتر کو کتنی تکلیف دی !آئندہ ایسا ہر گز نہ کرونگی۔ واقعی دوسرے دن میں ٹھیک ہوگئی اللہ تعالیٰ چھو ٹے چھوٹے امتحان لیکر ہمیں ہمارے اختیار کا امتحان لیتا ہے ۔

ہمیں شعوری طور پر ایک ذی روح سے احسان اور نرمی کا معاملہ کر نا چاہیے ۔ جسمانی تکلیف تو کیا برے انداز، بری آواز، بری باتوں سے بھی کسی کو تکلیف نہیں دینا چاہیے بلکہ برائی کا جواب واقعی اچھا ئی سے دینا چاہیے اس سے تو بڑی خوشی ہوتی ہے ، برائی کا جواب برا ئی سے دیکر تو انسان خو د اپنی نظر میں گر جاتا ہے اور خود کو تکلیف دیتا ہے اور یوں فساد کا ذریعہ بنتا ہے جس سے رو کا گیا ہے ۔ جب ہی میری امی نے مجھے یہ شعر سنایا تھا

                                                 “کرو مہربانی تم  اہل زمیں پر

                                                 خدا مہرباں ہوگاعرش بریں پر “

امی اکثر ایسی باتیں شعر کے ذریعے کسی کہاوت کے ذریعے ہمیں بتاتی رہتی تھیں ،جنہیں جب تو ہم اڑا دیتے تھے لیکن بعد میں ہمارے لیے مشعل راہ ثابت ہو تی رہتی تھیں اور آج بھی مجھے میری امی ان ہی اچھی باتوں ، کہاوتوں ، کہانیوں اور بلند کردار اور صبر شکر کی وجہ سے بڑی معتبر لگتی ہیں ۔ مجھے افسوس ہے کہ ان کے سامنے میں انکی خوبیاں کبھی نہیں بتا سکی مگر ان کی ہر خوبی میرے لیے قابل تقلید اور قابل اشاعت لگتی ہے تا کہ پوری دنیا اس سے استفادہ حا صل کر سکے ۔

بے لو ث، بے غرض ، محنتی ، مجسم محبت ، مجاہدہ اور صابرہ خا تون تھیں ،اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں ان کے حق میں صدقہ جاریہ بنائے آمین ۔ میری تمام بچوں سے التجا ہے کہ کبھی کسی جانور، کسی پرندے ،یاکسی کیڑے مکوڑے کو بلا ضرورت کبھی تکلیف نہ دیں اور بالعموم رحم کا رویہ رکھیں ۔ دوسروں کے لیے ہمیشہ نیک فال رہیں کیونکہ بقول میری والدہ :ـ

                                               “جو دوسروں کے لیے نیک فال ہوتا ہے

                                                 وہ اپنے  آپ ہی  اپنی مثال  ہوتا  ہے “

جواب چھوڑ دیں