امن کی گتھی اچھے رویوں سے سلجھ سکتی ہے

پاکستان کئی دہائیوں سے مشکلات کے گرداب سے نکل کر ہی نہیں دے رہا۔ ہر آنے والا دن ایک نئی آزمائش لے کر آتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ جس طرح ساحلِ سمندر پر بعض اوقات سمندر بہت دیر تک پُر سکون ہوجاتا ہے اور کوئی بڑی موج بھی آپ کے قدموں سے آ کر نہیں ٹکڑاتی لیکن اچانک معلوم ہوتا ہے سمندر کی ایک بہت پُر شور لہر دیکھتے ہی دیکھتے آپ کو اس طرح آ دبوچتی ہے کہ آپ کو پلٹ کر بھاگ جانے کا موقع تک نہیں دیتی۔

بالکل اسی طرح پاکستان میں امن اور بد امنی کی ایک ایسی آنکھ مچولی لگی ہوئی ہے کہ کبھی کبھی یوں لگتا ہے جیسے پاکستان میں کبھی بے سکونی رہی ہی نہیں تھی لیکن اچانک ایک ہولناک دھماکا آپ کے سارے اعصاب کو جھنجوڑ کر رکھ دیتا ہے اور پھر ہر جانب انسانی اعضا بوٹیوں کی شکل میں بکھر جاتے ہیں۔ لاشیں تڑپ کر ٹھنڈی ہوجاتی ہیں اور بسملوں کی چیخوں، آہوں اور کراہوں سے بچ جانے والے انسانوں کے دل پھٹ کر رہ جاتے ہیں۔

لگتا تھا کہ جیسے پاکستان میں سکون ہوگیا ہے لیکن کل ایک مرتبہ پھر اس بات کا احساس ہوا کہ سکون کا یہ سکوت بھی کسی طوفان کا پیش خیمہ تھا۔ ویسے تو کوئٹہ میں فائرنگ کے واقعات کسی حد تک معمول کا حصہ بنتے جارہے تھے لیکن لگتا تھا کہ خود کش دھماکے دم توڑ چکے ہیں مگر معلوم ہوا کہ یہ خام خیالی تھی۔ خبروں کے مطابق کوئٹہ میں پریس کلب کے قریب شارع اقبال پر ایک زوردار دھماکے کے نتیجے میں 3 پولیس اہلکاروں سمیت 10 افراد ہلاک ہو گئے اور دو درجن سے زائد افراد زخمی ہو گئے جن میں سے کچھ کی حالت بہت نازک بتائی جاتی ہے۔

پولیس کے مطابق پیر کو کوئٹہ کے علاقے شارع اقبال پر منان چوک کے قریب ضلع کچہری کے سامنے اس وقت دھماکا ہوا جب وہاں سے کچھ فاصلے پر پریس کلب کے سامنے کالعدم مذہبی تنظیم اہلسنت و الجماعت کی حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے یوم وفات سے متعلق احتجاجی ریلی ہورہی تھی۔ دھماکا اتنا شدید تھا کہ اس کی آواز دور دور تک سنی گئی۔ دھماکے کے بعد ہر طرف دھواں اٹھنے لگا اور خوف کی وجہ سے لوگ بھاگنے لگے۔

دھماکے کے نتیجے میں کم از کم 5گاڑیاں اور متعدد موٹرسائیکلوں کو نقصان ہوا جبکہ قریب میں واقع ضلع کچہری کی عمارت سمیت قریبی دکانوں اور کاروباری مراکز کی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ یہاں یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ تخریب کاروں نے دھماکا ایک ایسے وقت پر کیا جب پاکستان “ایف اے ٹی ایف” کی ایک ایسی میٹنگ میں شریک تھا جہاں اس کا نام “گرے” لسٹ میں سے نکال کر پاکستان کو ایک باوقار ملک کی فہرست میں شامل کیے جانے کا امکان تھا۔ “ایف اے ٹی ایف” کا پاکستان پر سب سے بڑا اعتراض ہی یہ ہے کہ پاکستان اپنے اندر موجود شدت پسندوں کے خلاف مؤثر کارروائی کرنے میں ناکام ہے۔

ترکی کی طرح دنیا کے بیشمار ممالک ایسے ہیں جو اس بات کے معترف ہیں کہ پاکستان اپنے اندر موجود دہشتگردوں کے خلاف نہایت مؤثر کارروائیاں کر رہا ہے لیکن جس وقت بھی پاکستان دہشتگردی کے لیبل کو اتار پھینکنے کے قریب پہنچتا ہے ٹھیک اسی وقت دشمنانِ پاکستان کوئی سانحہ کر گزرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ کل ہونے والا یہ دھماکہ بھی اسی قسم کی سازشوں کی ایک کڑی ہے جس کی وجہ سے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ پاکستان جو گرے لسٹ سے باہر آ جانے کے قریب پہنچ چکا تھا، باہر آجانے میں کامیاب ہو بھی سکے گا یا نہیں۔

ایک جانب کل (پیر 17 فروری) ہونے والے بم دھماکے کی دھمک ابھی ختم ہی نہیں ہوئی تھی کہ کل ہی کے دن اسلام آباد میں افغان مہاجرین کے حوالے سے منعقدہ2روزہ عالمی کانفرنس میں افغانستان کے دوسرے نائب صدر سرور دانش کی تقریر کے جواب میں عمران خان کا یہ کہنا کہ افغان مہاجرین کی واپسی تک عسکریت پسندی کے خاتمے کی ضمانت نہیں دے سکتے نیز پاکستان میں عسکریت پسندوں کی کوئی محفوظ پناہ گاہیں موجود نہیں ہیں، ایسا ممکن ہے کہ نائن الیون کے بعد کچھ عسکریت پسند جو افغانستان میں لڑرہے تھے وہ یہاں آکر رہ رہے ہوں، یہاں 5 لاکھ سے زائد لوگوں کے کیمپس موجود ہیں، ان لاکھوں افراد کے بیچ میں رہنے والے کچھ ہزار عسکریت پسندوں کو حکومت کیسے پکڑ سکتی ہے، ایک ایسی بات ہے جو “ایف اے ٹی ایف” جیسے اہم اجلاس کے وقت کہنا شاید مناسب نہیں تھی۔

یہ بات کئی پہلوؤں سے پاکستان کیلیے سود مند نہیں ہو سکتی۔ ایک تو یہ کہ افغانستان سے جتنے بھی آنے والے تھے وہ ایک مصیبت کی وجہ سے پاکستان آنے پر مجبور ہوئے تھے اور اب تو انھیں پاکستان آئے ہوئے ایک عرصہ دراز ہو گیا ہے۔ یورپ اور امریکا جیسے وہ ممالک جن کو ہم غیر مسلم سمجھتے ہیں (اور ہیں بھی) وہ بھی ایک خاص مدت کے بعد اپنے ملک میں آئے لوگوں کو اپنی شہریت دے دیا کرتے ہیں بلکہ ان کا تعلق جن جن ممالک سے بھی ہوتا ہے، ان کی وہ والی شہریت تک منسوخ نہیں کرتے لیکن مسلمان ہونے کے ناطے، جن کا سینہ بہت ہی زیادہ کشادہ ہونا چاہیے، نامعلوم وہ اس معاملے میں حد سے زیادہ تنگ دلی کا شکار کیوں ہیں۔

پاکستان سمیت تقریباً تمام اسلامی ممالک کسی دوسرے ملک کے مسلمان تک کو اپنے ملک کا شہری بنانے کیلیے تیار و آمادہ کیوں نظر نہیں آتے۔ پاکستان میں لاکھوں، بنگالی، بہاری، برمی اور افغانی کئی کئی دہائیوں سے میں آباد ہیں لیکن پاکستان ان کو اپنے ملک کی شہریت دینے کیلیے تیار نہیں۔ وزیر اعظم پاکستان کا یہ کہنا کہ لاکھوں افغانیوں کی موجودگی میں ہم عسکریت پسندی کے خاتمے کی ضمانت نہیں دے سکتے، اس لیے بھی درست نہیں کہ ہر ملک میں ایسے ادارے ہوتے ہیں جو ہر قسم کے جرائم پیشہ افراد کی سر گرمیوں پر بھر پور نظر رکھنے اور ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرنے کیلیے ہی بنائے جاتے ہیں۔ اگر چند لاکھ افغانیوں میں موجود چند ہزار (بقول وزیر اعظم) افغان تخریب کاروں کو قابو میں نہیں کیا جاسکتا تو 22 کروڑ کی آبادی والے ملک میں لکھوکھا تخریب کاروں اور جرائم پیشہ افراد کی سرکوبی کیسے ممکن ہو سکے گی۔

یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب ملک میں موجود لاکھوں افراد کو ملک کا شہری ہی نہیں سمجھا جائے گا اور ان کو شہریت کے بنیادی حقوق سے، جس میں تعلیم کا حصول، روزگار کی فراہمی جیسے بنیادی حقوق ہی حاصل نہیں ہونگے تو پھر ایسے لوگوں کو کسی بھی قسم کے جرائم کی جانب جانے سے روک لینا کیسے ممکن ہو سکے گا۔

کسی کو برا سمجھنے اور برا کہنے سے کبھی اچھائی نہیں پھل پھول سکتی اور ان کو اپنا نہیں بنایا جاسکتا۔ اس لئے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ یا تو ایسی تمام قومیتیں جو پاکستان میں دو تین دہائیوں سے آباد ہیں، ان کو پاکستان کی شہریت دیدی جائے یا پھر انھیں ان کے اپنے اپنے ممالک واپس بھیجنے کا انتظام کیا جائے ورنہ یہ سمجھ لینا کہ صرف افغان ہی عسکریتی تخریب کاریوں میں ملوث ہیں، سخت ناپسندیدہ طرز عمل ہوگا جس کا نقصان پاکستان کے علاوہ اور کسی کو بھی نہیں ہوگا۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیوگوتریس نے افغان مہاجرین سے متعلق عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان کے تمام مسائل کا حل افغان سرزمین ہی سے ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن کے ذریعے لاکھوں لوگوں کی زندگیاں تبدیل کی جاسکتی ہیں،عالمی برادری افغان مسئلے کے حل کے لیے آگے آئے، افغانستان اوراس کے عوام کو اب تنہا نہ چھوڑیں، 40 سال سے افغان عوام مسائل کا شکارہیں۔ سیکریٹری جنرل کی یہ بات مبنی بر حقیقت ہے اور کسی بھی ملک کے شہری کی عزت و آبرو اور اس کے تمام مسائل کا حل اسی کی سر زمین ہی سے وابستہ ہوتا ہے لیکن پاکستان کو بھی یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ افغان پاکستان کو اپنا دوسرا ملک سمجھتے ہیں۔ افغانستان میں پائیدار امن کی کوششیں ایک طویل عرصے سے جاری ہیں اور جب تک وہاں پائیدار امن قائم نہیں ہوجاتا اس وقت تک اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ وہاں سے آئے افغانی واپس اپنے ملک میں جا سکیں گے اس لئے اگر وہ پاکستان میں ہی رہنا پسند کرتے ہیں تو انھیں پاکستانی بنالینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔

پاکستان اب تک زور زبردستی سے ہی کام نکالتا رہا ہے۔ افغانی تو پھر دوسرے ملک سے تعلق رکھتے ہیں، خود پاکستان کا اکثر پاکستانیوں کے ساتھ پیار محبت کا سلوک نظر نہیں آتا۔ پاکستان میں ہر پاکستانی ہر دوسرے پاکستانی، ہر سیاسی پارٹی ہر دوسری سیاسی پارٹی، ہر مذہبی گروہ کا ہر دوسرے مذہبی گروہ کو پاکستان کا غدار تصور کرتا ہے۔ سیکوریٹی کے سارے ادارے بھی سویلین کو پاکستانی کی نظر سے ذرا کم ہی دیکھتے ہیں اور سویلین بھی ان کی موجودگی میں اپنے آپ کو کچھ غیر محفوظ سا تصور کرتے ہیں۔

حکمرانوں کا بھی یہ عالم ہے کہ وہ عوام کیلیے آسانیاں فراہم کرنے کی بجائے عام انسانوں کی مشکلات میں اضافے در اضافے کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ یہ صورت حال کسی بھی طرح بہتر نہیں بلکہ ان ساری زور زبردستیوں اور غیر ذمے دارانہ رویوں کی وجہ سے پاکستان مشکلات کے بھنور میں گھرتا چلا جارہا ہے۔ ضروری ہے کہ پہلے مرحلے پر پاکستانیوں کو پاکستانی ہونے کا احساس دلایا جائے، وہ قومیتیں جو کئی کئی دہائیوں سے آباد ہیں ان کو فوری طور پر پاکستانی بنا لیا جائے اور جو افغان پاکستان ہی میں رہنا چاہتے ہیں ان کو اپنا بھائی بنا کر پاکستان کیلیے مفید بنا لیا جائے۔ رویوں میں سختی کی بجائے نرمی پیدا کرکے ایک دوسرے کے قریب آیا جائے۔ شاید یہی بات سمجھانے کیلئے علامہ محمد اقبال نے اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس انداز میں کیا تھا کہ ؎

                                          نگاہ  بلند سخن  دلنواز  جاں  پُر  سوز

                                          یہی ہے رختِ سفر  میر کارواں کیلیے

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں