اسمبلی میں ہنگامہ نہیں ہوتا تو کیا ہوتا

سنا ہے قومی اسمبلی میں ہنگامے پھوٹ پڑے، ویسے بھی پاکستان کی اسمبلیوں میں ہوتا ہی کیا ہے۔ ایک دوسرے کے گریبانوں میں ہاتھ ڈالنے، لباس اتارنے اور دل کے پھپھولے پھوڑنے کے سوا پاکستان کے عوام نے کچھ اور دیکھا ہو تو عوام کو کل کے ہنگاموں میں کوئی نئی بات نظر بھی آئے۔یہ بھی سنا ہے کہ کسی لٹیرے کو “اچکا” کہا گیا۔ ظاہر ہے کہ کسی کے مرتبے کی اتنی توہین کی جائے تو اسے اور اس کے چاہنے والوں کو برا تو لگنا ہی تھا۔ آدمی برا ہو یا بھلا، اس کا ایک مقام و مرتبہ ہوا کرتا ہے۔ مثال کے طور پر بہت سارے پیشے ایسے ہیں جو “ڈرائیوری” کی درجہ بندی میں ہی شمار ہوتے ہیں لیکن ہوائی جہاز کا “ڈرائیور” پائیلٹ اور بحری جہاز کا “ڈرائیور” کیپٹن” کہلاتا ہے۔ اسی طرح سارے ڈرائیور کہلانے والے ڈرائیور ہی کہلایا کرتے ہیں لیکن اگر کسی ہیوی ڈیوٹی بس ڈرائیور کو رکشہ ڈرائیور کہہ کر پکارا جائے تو اسے برا تو لگے گا۔

ڈاکوؤں میں سب سے بڑا نام “سلطانہ” کا ہے۔ ایک بات تو یہ ہے کہ دنیا کا یہ واحد ڈاکو ہے جس کو دنیا کی بڑی سے بڑی عدالت کا جج بھی صرف ڈاکو کہہ کر پکارنے کی ہمت نہیں کر سکتا۔ اب ایسے “معزز” ڈاکو کو کوئی “ڈاکو” کہہ کر پکارے تو کیا یہ “سلطانہ” کی توہین نہیں ہوگی؟۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر کسی نامی گرامی لٹیرے کا ذکر اس طرح کیا جائے جیسے وہ “اچکا” ہو تو یہ یقیناً ایسی ہتک آمیز بات ہے جس پر اسمبلی میں موجود “سلطانہ” کو چاہنے والوں کا طیش میں آ جانا ایک فطری بات تھی جس کی وجہ سے “سلطانہ” کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان پہلے نہایت “شستہ” جملوں کا تبادلہ ہوا اور پھر دونوں جانب سے ایک دوسرے پر جوتوں کے پھول برسائے گئے، اس طرح پورا اسمبلی ہال مچھلی بازار کا منظر پیش کرتا ہوا نظر آنے لگا۔

میں نے کسی سے سنا تھا کہ پاکستان کا اسی قسم کا کوئی ایم پی اے یا ایم این اے یا پھر کوئی سابقہ صدر، امریکا میں اپنے کسی ہم منصب کی دعوت میں شریک ہونے گیا۔ امریکا میں اس کے دوست نے اسے ائیر پورٹ پر ہی رسیو کیا اور اپنی بڑی ساری چمچماتی گاڑی میں بٹھا کر اپنے گھر لیجانے لگا۔ پہلے تو پاکستانی مہمان کو اس کی گاڑی دیکھ کر ہی حیرت ہوئی کیونکہ ٹھیک 5 برس پہلے اس کے میزبان کے پاس جو گاڑی تھی وہ ایک عام سی گاڑی تھی۔ اس نے سوچا کہ قسمت بدل جانے کیلیے 5 سال بعض اوقات کافی ہوا کرتے ہیں۔ وہ متعدد بار امریکا میں اپنے دوست سے ملاقات کیلیے آیا کرتا تھا۔ اس لیے جب دوست کی گاڑی انجانے راستوں پر روانہ ہوئی تو اس نے سوچا کہ شاید دعوت کا انتظام گھر کی بجائے کسی اور مقام پر ہوا ہوگا۔

گاڑی ایک دریا کے کنارے ایک عالی شان محل نما مکان کے سامنے رکی۔ میزبان دوست نے نہایت ادب کے ساتھ اس کی جانب کا دروازہ کھولتے ہوئے پاکستانی دوست کو اترنے کیلیے کہا۔ اور ایک سجے سجائے بڑے سارے ڈرائنگ روم میں اسے ایک صوفے پر ڈھیر ہونے کو کہا۔ پاکستانی دوست کو اس بات پر حیرت تھی کہ 5 سال کے اندر اندر یہ کونسا انقلاب آگیا کہ عالی شان محل نما گھر بھی بن گیا اور چمچماتی گاڑی بھی ہاتھ لگ گئی۔ اس نے ساری باتوں پر حیرت ظاہر کی تو دوست نے تیز اور اونچی آواز میں اس سے کہا، کھڑے ہو جاؤ۔ دوست کی تیوریاں دیکھ کر وہ ڈر سا گیا اور گھبرا کر کھڑا ہو گیا۔ دوسرا حکم ملا کہ کیا تمہیں سامنے والی کھڑکی نظر آ رہی ہے، اس نے ڈرتے ڈرتے کہا ہاں، حکم ملا وہاں جاکر باہر جھانکو، کسی مشینی انداز میں وہ کھڑکی تک بڑھ گیا اور باہر دیکھنے لگا۔ پھر آواز آئی کہ کچھ دکھائی دیا، کہا ہاں، دریا ہے اور اس پر ایک پل بھی بنا ہوا ہے۔ پھر آواز آئی گھوم جاؤ، وہ گھوم کر اپنے دوست کو پھٹی پھٹی نظروں سے دیکھنے لگا۔ دوست نے آنکھ دبا کر کہا 10 پر سینٹ۔ اسے پہلے تو کچھ سمجھ میں نہیں آیا مگر جب سمجھ میں آیا تو ڈرائنگ روم قہقہوں سے گونج اٹھا۔

ٹھیک 5 سال بعد امریکی ہم منصب کو پاکستانی دوست نے پاکستان میں دعوت پر بلایا۔ دنیا کی قیمتی ترین گاڑی میں جب اس کا دوست ائیر پورٹ سے اس میں بیٹھا تو اس کی آنکھیں اپنے حلقوں سے باہر آنے لگیں جس پر اس نے بڑی مشکل سے قابو پایا۔ پھر اسے جلد ہی معلوم ہوگیا کہ اس کا پاکستانی دوست اسے اپنے دیہات میں لیجانے کی بجائے کسی اور ہی سمت لیجا رہا ہے لیکن وہ حیرت کی تصویر بنا صرف اس کو دیکھتا ہی رہا۔ ایک دریا کے کنارے کوئی ایک مربع زمین پر بنے محل کے ایک بڑے سارے مہمان خانے میں لگے ایک صوفے میں دھنس جانے کے بعد اس نے اپنے دوست سے جب سوال کیا کہ یہ کیا، تو پاکستانی دوست نے بھی بڑے ڈرامائی انداز میں کہا کہ کھڑے ہوجاؤ، سامنے جو بڑی ساری ونڈو ہے اس کے باہر جھانک کر بتاؤ کہ تمہیں کیا نظر آ رہا ہے۔ وہ ایک روبوٹ کی مانند چلتا ہوا گیا اور جواب دیا کہ باہر ایک دریا بہہ رہا ہے۔ پاکستانی دوست نے کہا کہ اس پر کوئی پل نظر آ رہا ہے، اس نے کہا کہ نہیں۔ جواب آیا ہنڈریڈ پرسینٹ۔ امریکی دوست پلٹ کر پاکستانی دوست کے قدموں میں گر گیا۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر کسی بھی موقع پر اُس پاکستانی کا امریکی دوست اسے “مسٹر ٹین پرسینٹ” کہہ کر بلائے تو کیا یہ ایسی بات ہوگی جس پر اسے یا اس کے چاہنے والوں کو غصہ نہ آئے۔ پاکستان میں جتنے بھی “معززین” کہلانے والے ہیں جب وہ سارے کے سارے “سلطانہ” ہیں تو پھر منھ کھولنے والوں کو جو بات بھی کرنی چاہیے وہ نہایت سوچ سمجھ کر اور مرتبوں کا خیال رکھ کر کرنی چاہیے۔ کل قومی اسمبلی میں ہاتھا پائی اس بات پر بالکل بھی نہیں ہوئی تھی کہ کس نے کس کو “اچکا” کہہ دیا، سارا ہنگامہ صرف اور صرف اس لئے تھا کہ ہر شخص میں کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی غیرت ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے اور ہر شخص کا کوئی مقام ہوتا ہے۔ کہنے والے کا بھی اپنا مقام بے شک ہوتا ہے لیکن جس کو کہا جارہا ہے اس کے مقام اور مرتبے کو دیکھ کر بات کرنا بھی بہت ضروری ہوتا ہے۔

مختصر بات یہ ہے کہ پاکستان میں جتنے بھی “معززین” ہیں وہ سب کے سب نہایت “عزت” والے ہیں اور پھر ان کے اپنے اپنے درجے اور مرتبے ہیں جس کا لحاظ رکھا جانا نہایت ضروری ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے مشاعروں میں ہر شاعر کو اس کے اپنے مقام و مرتبے کے لحاظ سے بلایا اور پکارا جاتا ہے۔پاکستان میں ویسے تو “مادامیں” بھی ایک سے ایک ہیں لیکن جو مقام “ملکہ ترنم” کا ہے کیا کوئی اور “مادام” اس کو چھولینے کا دعویٰ کر سکتی ہے؟۔ اب کوئی اگر “ملکہ ترنم” کی شان میں کسی قسم کی غلاظت اگلنا شروع کردے یا پھر اسے “منی بیگم” کے ساتھ ملانے بیٹھ جائے تو کیا یہ بات ان کے “پرستاروں” سے برداشت ہو سکتی ہے؟۔

ضیا الحق کے دور میں اس بات کی کوشش کی گئی پاکستان کہ سارے عیاشی کے اڈے بند کر دیئے جائیں۔ سب کوٹھوں کو ٹھوک کر بند کردینے کے احکامات کیا نکلے کہ سارا گند سڑکوں پر بہنا شروع ہو گیا۔ مطالبہ آیا کہ ہمیں ہمارے دھندوں سے روکے جانے پر بالکل بھی کوئی اعتراض نہیں کیونکہ ہم سب جو بھی کر رہے ہیں وہ ہنسی خوشی نہیں کیا کرتے بلکہ ہمارا اب اس “مہذب” معاشرے میں لوٹ کر آنا ممکن ہی نہیں۔ ہم جنرل ضیاالحق صاحب سے بس اتنا مطالبہ کرتے ہیں کہ جو جو “معززین” ہمارے کوٹھوں پر تشریف لیکر آتے ہیں ان سے ہماری شادیاں کرادی جائیں۔ مجھے کوئی ایک عقل و ہوش والا یہ بتائے کہ کیا ان کا اس طرح دکھ بھرے انداز میں کیا جانے والا مطالبہ درست نہیں تھا؟۔

بات وہیں آکر ختم ہوتی ہے کہ انسان اچھا ہو یا برا، اچھائی اور برائی کے مطابق ہر انسان کے اپنے اپنے درجے ہوا کرتے ہیں۔ اچکا اچکا، چور چور، لٹیرا لٹیرا اور ڈاکو ڈاکو ہوتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح شرافت میں بھی “شریفوں” کے اپنے اپنے مقام ہوا کرتے ہیں اس لئے کوئی ایم پی اے ہو، ایم این اے ہو، سینیٹر ہو، وزیر ہو یا مشیر، ان سب کو اس بات کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ کہ وہ جس کیلئے جو بات بھی کر رہے ہوں، اس کے متعلق مکمل معلومات کے بعد منھ کھولا کریں تاکہ کسی کے مراتب میں کوئی فرق نہ آ سکے۔ اسمبلی میں کسی کو مسٹر ٹین پرسینٹ کہنے سے پہلے اتنا تو خیال کر لینا چاہیے تھا کہ بھلا ٹین پر سینٹ سے کسی کا کیا بنتا ہے۔ کسی اونٹ کے منھ میں اگر زیرہ ڈال دیا جائے تو اسے 100 سال تک بھی پتہ نہیں چل سکے گا کہ اس کے منھ میں کچھ ڈالا گیا ہے۔

ایسی شخصیات اگر معمولی ہوتیں تو ایک جنرل کی حکومت ہوتے ہوئے اسے صدر پاکستان کون بنا سکتا تھا۔ اس لیے اسمبلی کے سارے “معززین” سے میری نہایت مؤدبانہ گزارش ہے کہ وہ جب بھی اسمبلی میں کسی “اپنے جیسے” قابل احترام فرد کا ذکر خیر کریں تو ادب و آداب کے لحاظ کو لازماً ملحوظ رکھا کریں ورنہ حالات کوئی بھی سنگین صورت اختیار کر سکتے ہیں۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں