غیراسلامی رسم و رواج اورہمارے رویے

کسی بھی مجلس میں آپ بیٹھے ہوں تو وہاں پر آپ موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے جو ہمارے مسلم معاشرے میں غیر اسلامی رسم و رواج عام ہوتے جا رہے ہیں اس کو زیر بحث لائیں اور اچھی طرح ان کے بارے میں بحث و مباحثہ کر کے دیکھ لیں، پھر ساری گفتگو کا اگر آپ تجزیہ کریں گے تو آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ آپ کو اکثر لوگ ایسے کاموں کی مذمت کرتے ہوئے اور ان کے بارے میں لعن طعن اور بھرپور نفرت کا اظہار کرتے ہوئے دیکھائی دیں گے ۔

جب معاشرے میں بسنے والے اکثر لوگوں کی سوچ اور فکر غیر اسلامی رسومات کی مذمت کرتی ہے تو پھر ایسے رسم و رواج سے اجتناب کے لیے کیوں کچھ اقدامات نہیں کیے جاتے؟ ان سے جان کیوں نہیں چھڑوائی جاتی؟ اپنے گریبان میں جھانک کر کیوں نہیں دیکھا جاتا؟ اور اپنے آپ سے یہ سوال کیوں نہیں کیا جاتا کہ جناب کس نہج پر جا رہے ہو۔ گھر کا سربراہ اپنے افراد کی کیوں نگرانی نہیںکرتا کہ سب غیر اسلامی رسم و رواج سے بچ کر اسلام کے مطابق اپنی زندگی کے شب و روز گزاریں ۔

حالانکہ سبھی والدین کی یہ سوچ اور فکر ہوتی ہے کہ ہمارے بچے معاشرے میں پھیلے ہوئے بگاڑ یعنی رسم و رواج سے بچ کر اچھی پُرسکون زندگی بسر کریں تو اس بگاڑ سے بچنے کے لیے عملی طور پر کوئی خاص اقدام بھی نہیں کیا جاتا۔ مثال کے طور پراپنے گھروں کا ماحول کیوں نہیں اسلامی بنایا جاتا؟ اپنے گھروں میں اسلامی لٹریچر لانے کا اہتمام کیوں نہیں کیا جاتا کہ ہمارے بچے دین اسلام سے واقفیت حاصل کر کے پھر اسی سیدھے راستے کو اپنائیں؟ اسی طرح اپنے گھروں میں اسلامی تربیت کا کیوں نہیں اہتمام کیا جاتا ؟ الغرض ایسے ہی کئی سوالات ہیں جو ایک اچھے مسلمان سے کیے جائیں تو وہ ضرور اپنے آپ کو مغربی تہذیب میں جکڑا ہوا محسوس کرے گا۔

پچھلے چند سالوں سے مسلمان نوجوانوں میں جو غیر اسلامی رسومات کی بیماری ٹی وی ڈراموں، ٹک ٹاک، ٹاک شوز ،لچر افسانوں ، فلموں ،میوزک اور ان جیسے نت نئے شیطانی ہتھکنڈوں کے ذریعے جنسی جذبات کو نہ صرف مشتعل کیا جاتا ہے بلکہ انہیں معاشقوں کے جدید ترین طریقے بھی مہیا کیے جاتے ہیں۔ اب تو بات بہت آگے چلی گئی ہے کہ انٹرنیٹ کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اس خطرناک بیماری کا ناسور تیزی سے پھیل رہا ہے اور اس میں دن بدن اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں شرم و حیا کا نام بھی اجنبی بنتا جا رہا ہے۔شاید کہ ایسے ہی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے شاعر کہتا ہے:

اپنی   ملت   پہ   قیاس     اقوام   مغرب  سے  نہ  کر

خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم

ہم مسلمان ہیں ،مسلمان کے گھروں میں پیدا ہوئے اور وطن عزیز ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘کے باشندے ہیں پھر ہم ایک اچھا اور حقیقی مسلمان بننے کو کیوں نہیں ترجیح دیتے اور نہ ہی اکثر لوگ اچھا بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم غیر اسلامی رسومات اور اہل مغرب کی اندھی تقلید کرتے ہوئے ان کے تہواروں اور ان کے شب و روز کو اپنے اوپر مسلط کر کے ایسا محسوس کرتے ہیں جیسے یہ بہت بڑی سعادت کی بات ہے اور پھر اس نہج پہ چلتے ہوئے اپنے آپ کو پوری کوشش کے ساتھ اہل مغرب کا ذہنی غلام بناتے جا رہے ہیں، حالانکہ ہمارے پاس اچھی زندگی گزارنے کے لیے مکمل ضابطہ حیات ’’دین اسلام‘‘میں موجود ہے۔

آج مسلمانوں میں بہت سے غیر اسلامی کفار کے تہوار رواج پا گئے ہیں اور ان غیر مسلموں کے تہواروں کے بارے میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’اللہ کے دشمنوں سے اُن کے تہواروں میں اجتناب کرو‘‘۔

علامہ ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’کفار کے خصوصی شعار جو صرف ان کے ساتھ ہی خاص ہیں ان کی مبارکباد دینا متفقہ طور پر حرام ہے، مثلا انہیں ان کے تہواروں یا روزے کی مبارک باد دیتے ہوئے یہ کہا جائے آپ کو عید مبارک یا آپ کو یہ تہوار مبارک ہو‘‘۔مزید فرماتے ہیں:جس نے بھی کسی کو(تہواروں پر )معصیت و نافرمانی پر ایسے کیا تو اس نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے غصہ اور ناراضگی پر پیش کر دیا۔ (احکام اہل الذمۃ)

اسی طرح امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا فرمان نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ نے غیر مسلموں کے تہواروں کے دن ان کی عبادت گاہوں میں داخل ہونے سے بھی منع فرمایا ہے، جب ان کی عبادت گاہوں میں جانے سے منع کیا گیا ہے تو ان کے بعض کاموں کو(اختیار)کرنے کا کیا حال ہو گا؟ یا ان کے تہوار والے دن کے تقاضے کے مطابق کسی کام کو کرنے کا کیا حکم ہو گا؟ کیا ان کے تہواروں کے بعض کاموں کو سرانجام دینا محض ان کے تہوار کے دن ان کے پاس جانے سے زیادہ قبیح نہیں ہے؟ اور جب ان کے تہوار کے دن ان کے عمل کے سبب اُن پر ناراضگی برستی ہے تو کیا جو شخص یہ عمل کرے یا اس کے بعض حصے میں ان (غیرمسلموں)کا شریک ہو گاتو کیا وہ اس کی سزا سے دوچار نہیں ہو گا؟؟

حصہ
mm
امیر حمزہ بن محمد سرور سانگلہ ہل ضلع ننکانہ کے رہائشی ہیں۔انہوں نے عربی اور اسلامیات میں ماسٹرز کیا ہے۔ سانگلہ ہل کے نواحی گاؤں علی آباد چک نمبر112میں مستقل رہائش پذیر ہیں ۔ان دنوں فیصل آبادمیں ایک رفاہی ادارے کے ساتھ منسلک ہیں، ان کے کالمز روز نامہ’’ امن ‘‘ روزنامہ’’ قوت‘‘روز نامہ’’ سماء‘‘ روزنامہ’’حریف‘‘ میں شایع ہوتے ہیں۔اپنے نام کی مناسبت سے ’’امیرقلم ‘‘ کے زیر عنوان لکھتے ہیں۔ ماہ نامہ’’ علم وآگہی ‘‘اوراسی طرح دیگردینی رسائل وجرائدمیں مختلف موضوعات پرمضامین سپردقلم کرتے رہتے ہیں۔انہوں نے نیشنل لیول پرکئی ایک تحریری مقابلہ جات میں حصہ لیااورنمایاں پوزیشنیں حاصل کیں ۔شعبہ صحافت سے خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں ۔ ای میل:hh220635@gmail.com

جواب چھوڑ دیں