بلدیہ ٹائون کا سفر

بلدیہ ٹائون 20سے 22لاکھ افراد پرمشتمل غریب آبادی ہے ،جہاں سہولیات کے نام پر لوٹ کھسوٹ عام سی بات ہے۔ سرکاری ادارے ہونے کے باوجود سرکار کی رٹ قائم نہیں،ہر کام طاقت اور سفارش کی بنیاد پر ہونا معمول بن گیاہے،گٹر کے ڈھکن سے لے کر گلی کی صفائی تک کے لیے ایم این اے ،ایم پی اے یا پھر کسی وزیرکی سفارش کی ضرورت پڑتی ہے، ڈی ایم سی کی آشیر باد بھی کسی کسی جگہ کام آجاتی ہے ، لیکن یہ آشیر باد پر ہر جگہ ساتھ نہیں دیتی،اس کے لیے بھی بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ دکانداروں کی من مانیوں کے پیچھے نام نہاد انجمنوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ ریٹ لسٹ لگانے کے باوجود سرکاری نرخ پر کوئی اشیاء دستیاب نہیں ہوتی،گاہکوں سے بدکلامی اورہاتھاپائی بھی بلدیہ ٹائون میں معمول کا حصہ بن چکی ہیں۔

آئیے ۔ آپ کو بلدیہ ٹائون کی سیر کراتے ہیں۔

جب آپ اپنے آس پاس نظردوڑائیں اوردیکھیں کہ ہر طرف دھول مٹی اڑ رہی ہے اورسانس لینا بھی دشوار ہورہاہے،سڑکوں کا کوئی نام ونشان موجود نہیں اورپھربھی ایسے میں فراٹے بھرتی کوئی منی کوچ آپ کے برابر سے راکٹ کی رفتار سے گزرجائے ،آپ کو ہر طرف دھول مٹی اور گندگی کے ڈھیر نظرآئیں ،جب آپ کو پیاس لگے اورآپ کسی سے پانی مانگے اور وہ آپ کو بدبوداراورریتیلا پانی فراہم کرے ،جب آپ کو کوئی چیز خریدنی ہو اوردکان پرسرکاری لسٹ لگی ہونے کے باوجود اس نرخ پر آپ کو اشیا ء نہ ملے ،جب آپ نے موبائل چارج کرنا ہو اور کوئی یہ کہہ دے کہ جناب بجلی کل سے نہیں ،تو آپ سمجھ جائیں کہ آپ بلدیہ ٹائون میں موجود ہیں ۔ جی ہاں یہ حالات آپ کو صرف اورصرف بلدیہ ٹائون میں ہی ملیں گے ،جہاں سرکار دستیاب نہیں۔

بلدیہ ٹائون میں سڑکیں کسی زمانے میں ہوا کرتی تھیں ،جس کی جگہ اب گڑھوںنے لے لی ہے ،جب گاڑی چلتی ہے تو معلوم ہوتا ہے ہمالیہ کے پہاڑ سر کرنے کے سفر پر نکلے ہیں۔ا ن گڑھوں پر ڈرائیونگ کرتے کرتے یہاں کے باشندے اتنے ماہر ہوچکے ہیں کہ اگر انہیں موت کے کنویں میں گاڑی چلانے کا موقع ملے تو یہ ورلڈ ریکارڈ قائم کرسکتے ہیں۔ مواچھ موٹر سے داخل ہوتے ہی آپ کو اس بات کا احساس ہوجائے گا کہ آپ کسی مشن امپوسیبل پر روانہ ہورہے ہیں ،روبی موڑ تک آپ کو شاید کچھ ایسا محسوس نہ ہو،مگر جب آپ روبی موڑ سے آگے کی طرف بڑھیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ واقعی یہاں انسانوں کا بسنا حیرت کی بات ہے۔

بلدیہ ٹائون میں داخل ہونے سے قبل احتیاطی تدابیر پر عمل ضرور کریں۔

اگرآپ پہلی مرتبہ بلدیہ ٹائون جارہے ہیں تو آپ کو کچھ احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ہوگا ورنہ آپ جب کسی کے گھرمہمان بن کر پہنچیں گے تو یقین کریں وہ آپ کو پہچاننے سے انکار کردے گا،یا شاید ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ وہ آپ کا حلیہ دیکھ کر آپ سے ملنے بھی انکار کردے۔ یہاں لوگ احتیاطی تدابیر کا استعمال کرکے ہی گھروں سے نکلتے ہیں ۔ موٹر سائیکل پربلدیہ ٹائون آنے والوں کو سب سے پہلے ٹوپی ،ہیلمنٹ، ماسک، ڈریس اپر،شوز، دو فالتوں کپڑے ،کنگا اورشیشہ ساتھ رکھنالازمی ہے ، ساتھ ہی گھر سے نکلتے وقت گھروالوں کی ڈھیر ساری دعائیں لینا مت بھولیے گا۔ یہ تمام سامان ساتھ رکھنے کے بعد اب آپ کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے اپنے سفر کا آغازکریں۔

بلدیہ ٹائون میں انٹر ہوتے ہی کلمہ طیبہ کا ورد تیز تیز شروع کردیں ،کیوں کہ یہاں خطرات ہرطرف موجود ہیں ،کسی گڑھے سے بچ نکلیں گے تو کوئی کتا آپ کے پیچھے پڑ سکتا ہے ،اگران دونوں حادثات سے بچ نکلیں تو پھرآگے سیوریج کے پانی میں ڈوبے کسی گٹرکا نشانہ بھی بن سکتے ہیں ، اس کے لیے آپ کو تیار رہنا ہوگا،کیوں کہ یہاں واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی نہیں چلتی، یہاں کے لوگ لاوارث ہیں اس لیے ڈی ایم سی اور کے ایم سی والے بھی بچ بچا کر سائیڈ سے نکل جاتے ہیں ۔

ان خطرات سے خیروعافیت سے نکلنے کے بعد اگرکہیں کوئی پولیس موبائل نظرآجائے تو ان کے ہاتھ دینے سے پہلے خود ہی رک جائیں ،ورنہ آپ پر گٹکا سپلائیرکا الزام لگا کر بند بھی کیاجاسکتا ہے ۔ بہتر یہی ہے کہ آپ تسلی سے تلاشی دیں اور جو کچھ آپ نے اپنی حفاظت کے لیے پہنا ہوا ہے وہ سب اتار دیں۔ عموما یہاں پر پولیس گشت نہ ہونے کے برابر ہی ہے ،مگر جب گشت ہوتا ہے تو وہ صرف گٹکے والوں کی پکڑ دھکڑ کے لیے ہوتاہے۔ اور اگر کوئی پولیس والا گٹکا کھاتا ہوا مل جائے تو حیرت سے منہ مت کھولیے گا،بلکہ خاموشی سے نکلنے کی کیجیے گا۔

یہاں سے فارغ ہونے کے بعد اپنے سفر کا آغاز دوبارہ کریں ، آگے مزید کچھ خطرات آپ کا استقبال کرسکتے ہیں، جن میں تبدیلی سرکار کے وعدوںکے عمل درآمد کے انتظار میں بے روزگار نوجوان ہاتھوں میں تمچے اٹھائے آپ کو روک سکتے ہیں ،اگر ایسا واقعہ پیش آئے تو آپ کے پاس جو کچھ ہے وہ سب انہیں دے دیں،ورنہ وہ آپ سے زبردستی لے لیں گے اور ماریں گے الگ۔ اس لیے بہتری اسی میں ہے کہ عزت سے سب کچھ انہیں سونپ کر اپنی منزل کی جانب توجہ برقراررکھیں ۔

جب آپ کو جسم کے انگ انگ میں درد کی ٹھیس اٹھنے لگے تو سمجھ جائیں کہ آپ فٹبال اسٹیڈیم پہنچ چکے ہیں اور یہ نام نہاداورمتنازع سڑک کم گڑھے زیادہ آپ کو منزل کے قریب تو ضرور لے جائے گے، مگر آپ کے جسم کے جوڑ جوڑ سے ایسی آوازیں نکلیں گی جو آپ نے کبھی نہیں سنی ہوں گی۔ کمزور دل حضرات یہاں آنے سے کتراتے ہیں،آپ ڈریے مت۔ یہ مشق یہاں کے لوگ روزانہ کرتے ہیں، اس طرح کی کئی اذیتیں یہاں کے باشندے برداشت کرکے اب عادی ہوچکے ہیں، ایک بات اورنوٹ کرلیںکہ اسٹیڈیم کی طرف نظریں نہ اٹھیں،اندرجھانکنے کی تو بالکل بھی جسارت مت کیجیے گا،یہ الگ کہانی ہے پھر کبھی سنائیں گے۔ خیر آپ اپنے سفر پر نظر رکھیں ، کہیں کسی گڑھے میں گرکر اپنی ٹانگ ہی نہ تڑوادیں۔

جب آپ کی موٹر سائیکل کی رفتار چیونٹی کی طرح دھیمی ہوجائے گڑھے پانی سے بھرے ملیں ،آس پاس کیچڑ ہی کیچڑ اورسلیپنگ ہو تو آپ سمجھ جائیں یہ وہ عظیم جگہ ہے جیسے بلدیہ ہائیڈرنٹ کہاجاتا ہے ۔ یہاں سے بلدیہ والے اپنے ہی حصے کا پانی خوشی خوشی خرید کر لے جاتے ہیں ،یہاں آپ کو ہر طرف ٹینکر ہی ٹینکر نظرآئیں گے۔ لیکن یہاں آپ کو بہت زیادہ احتیاط کرنی پڑے گی،اور کسی حادثے کی صورت میں آپ یہاں کسی سے الجھنے کی کوشش مت کیجیے گا،ورنہ آپ کی ہڈیاں بھی توڑی جاسکتی ہیں۔ یہ علاقہ ٹینکر مافیا کے زیر اثر ہے ،اس لیے یہاں کسی قسم کی کوئی مزاحمت کی کوشش آپ کے گلے پڑسکتی ہے ، اول تو یہاں کوئی قانون نہیں ،اورجو ہے وہ بھی آپ کی مدد نہیں کرسکتا۔

سفر جاری رکھتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں ،اگرآپ رات کو کبھی ان رستوں پر سفر کریں تو بائیک کی ہیڈ لائٹ کے ساتھ ساتھ ایک پاور ٹارچ بھی اپنے پاس رکھیے گا۔ کیوں کہ یہاں سے آگے کے سفر میں آپ کو تیز روشنی کی ضرورت پڑے گی۔ اس کی وجہ یہاں پر کہیں بھی اسٹریٹ لائٹ کا نہ ہونا ہے۔جس کا فائدہ اکثر روزگار کے انتظار میں بیٹھے نوجوان اٹھاتے ہیں،پہلا فائدہ انہیں اس وقت ہوتا ہے جب آپ کی بائیک کسی گڑھے میں گر جائے او ر وہ آپ کو اٹھانے کے چکر میں آپ کی جیب پر ہاتھ صاف کرلیتے ہیں ،دوسرا فائدہ وہ خود یہ کہہ کر پیدا کرلیتے ہیں کہ بھائی آپ کی بائیک پنچر ہے،جب آپ رک کر پچھلے ٹائر کی طرف دیکھیں گے تو اسی وقت دوپکے دوست آپ کے پاس آئیں گے اوربڑے پیار سے آپ کو لوٹ کر چلتے بنیں گے۔

اگرخیروعافیت سے آپ کا یہاں تک سفر مکمل ہوا تو اگلا پڑائو کباڑی چوک پر ہوگا، پہلے یہ تمام کباڑی حضرات پاکستان پوسٹ آفس کی جگہ پر براجمان تھے ،تاہم بعد میں گورنمنٹ کو خیال آیا کہ یہ زمین تو ہماری ہے اس لیے انہوںنے وہاں پوسٹ آفس قائم کرلیا،لیکن اس پوسٹ آفس کے اوقات کار آج تک بلدیہ والوں کو معلوم ہی نہیں ہوسکے ہیں،اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹھیک پونے بارہ بجے گیٹ کو بڑا سا تالا لگا کر عملہ غائب ہوجاتا ہے اورچوکیداری کے لیے آوارہ کتوں کو چھوڑ دیتا ہے۔ دروازے کے سامنے ہر وقت ٹیکسیاں کھڑی رہتی ہیں اورساتھ میں ریڑھی والے بھی موجود ہیں، جس کے باعث آپ کو پوسٹ آفس نظر نہیں آئے گا، آپ کو کسی سے پوچھنا پڑے گا کہ پوسٹ آفس کہاں ہے۔ اس جگہ کام تو سارے دو نمبر ہوتے ہیں مگر اسے کہتے (نونمبر) ہیں۔

چلیے آگے بڑھتے ہیں۔ دونمبر مارکیٹ،معاف کرنا،(نونمبر) کی مارکیٹ میں سرکار کی ذرا بھی نہیں چلتی،یہاں تجاوزات بھی ملیں گے اورلوٹ کھسوٹ بھی عروج پرپائیں گے۔کباڑی چوک سے آگے آنے کے بعد جب آپ یہاں پہنچنے گے تو یہاں سے کوشش کیجیے گا کچھ مت خریدیں،ورنہ آپ پر الٹی چھری چلا دی جائے گی اورآپ کو معلوم بھی نہیں ہوسکے گا۔

یہاں دودھ کی جگہ آپ کو کمیکل ملاپانی کثرت سے ملے گا،یہاں گائے اورمرغی کا گوشت آپ کو دھول مٹی کے ساتھ تول کر دیاجائے گا،سڑک پرآپ کوسڑک تونظر نہیں آئے گی مگر کیچڑ ضرور ملے گا۔ لہذا آپ نے یہاں رکنا نہیں ہے،اورآگے بڑھتے ہوئے آپ پکوڑا چوک کی طرف چل پڑیں ۔ یہاں آپ کو پکوڑے تو نہیں ملیں گے لیکن پکوڑے کے نام پر مختلف اشیاء ضرور مل جائیں گی۔

یہاں تبدیلی سرکار کی حکومت ہے ،لیکن تبدیلی کا ذکر مت کرنا،کیوں کہ تبدیلی والے برا مان جاتے ہیں،اور نہ ہی کسی یہ پوچھنا کہ یہاں کی سڑکیں کیوں نہیں بنیں،اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک فنڈ آنا ہے جو دو سال سے پائپ لائن میں ہے،لیکن ہم آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ اس فنڈز سے یہاں کی سڑکوں کی قسمت تو نہیں بدلے گی،البتہ کچھ گلیاں پکی کرکے فنڈز کو مکمل کردیاجائے گا۔

یہاں آپ کو کتوں کی بہتات نظرآئے گی،آپ نے اپنی گاڑی کو آہستہ ہی رکھنا ہے اور بلدیہ ٹائون کی پسماندہ رونقیں انجوائے کرتے ہوئے آگے بڑھناہے۔

اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ یہاں کے لوگ کتنے پڑھے لکھے ہیں اورباشعور ہیں جوہر جگہ اسکول اورٹیوشن سینٹر کے بورڈ نظرآرہے ہیںتو یہ آپ کی غلط فہمی ہوگی،کیوں کہ یہاں اسکول اورٹیوشن محض ایک کاروبار ہے،جہاں والدین اپنے بچوں کوتعلیم کیلیے تو بھیج دیتے ہیں ،مگر یہ لوگ محض ٹائم پاس کراتے ہیں،اگر یقین نہ آئے تو بائیک سے اتر کر کسی ٹیوشن سینٹر یا پھر کسی اسکول کا سرپرائز وزٹ کرکے دیکھ لیں،پھرشاید آپ کو ہماری بات پر یقین آجائے گا۔

بہرحال سفر ختم نہیں ہوا،تاہم کوشش کی جائے گی کہ اسے مکمل کرکے اتحاد ٹائون ،یوسف گوٹھ ،دائود گوٹھ ،بس ٹرمینل اوردیگر علاقوں کی بھی سیر کرائیں ۔جب تک کیلیے اجازت ۔ اللہ حافظ

حصہ
mm
روزنامہ جسارت سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف بلاگز ویب سائٹس پر بلاگ ‘فیچرز اور تاریخی کہانیاں لکھتے ہیں۔ روزنامہ جسارت کے سنڈے میگزین میں بھی لکھ رہے ہیں۔ روزنامہ جناح کراچی میں بطور سندھ رنگ میگزین کے انچارج کے طورپر اپنی خدمات بھی انجام دے چکے ہیں۔ زیادہ تر معاشرتی مسائل پر لکھنے کا شوق ہے۔ اس کے علاوہ کراچی پریس کلب کے ممبر اورپاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کے بھی ممبرہیں۔

جواب چھوڑ دیں